اِنسان اپنی اُوقات سے غافل ہو جائے تو…

Elections

Elections

راقم کو ہمیشہ اپنی اُوقات اور حیثیت کا علم رہتا ہے، اور اِس کی اپنے تئیں بس ایک یہی کوشش ہوتی ہے کہ یہ اپنی اُوقات اور حیثیت سے تجاوزنہ کرنے پائے، اور جس کا اِسے ساری زندگی خمیازہ بھگتنا پڑے گا، یوں اِس وجہ سے ہی یہ اپنے قدم انتہائی احتیاط کے ساتھ پھونک پھونک کر رکھتا ہے اِس لئے کہ راقم یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ جس طرح وقت تیزی سے بدلتا ہے، یکدم اِسی طرح زمانے اور تقدیر کے لکھے کے ساتھ ساتھ اِنسانوں کی اُوقات اور حیثیت بھی بدلتی رہتی ہے۔ یہ اُوقات ہی تو ہے جو کسی کو بادشاہ تو کسی کو فقیر بنا دیتی ہے، اگرچہ آج کا اِنسان اپنی دنیاوی اور دیگر مصروفیات کے باعث اپنی اُوقات کو بھول جاتا ہے، اور اپنے رویوں سے اتنا کچھ کر گزرتا ہے کہ جس کا بعد میں جب اِسے احساس ہوتا ہے تو اِس کے ہاتھ سوائے کفِ افسوس اور پچھتاؤے کے کچھ نہیں آتا ہے۔ اگرچہ ممکن ہے کہ اُوقات اور حیثیت کے حوالے سے میری طرح آپ کو بھی مشاہدہ یا مشاہدات ہوں کہ آج کے اِنسان کا جہاں دیگر دنیا ؤی معاملات میں وقت وحالات کڑا امتحان لیتے ہیں تو وہیں اُوقات اور حیثیت کے زمرے میں بھی آنے والی کئی باتوں کا امتحان لیا جاتا ہے، آپ اِس کا مشاہدہ اپنے معاشرے اور دنیا کے دیگر ممالک میں جا بجا کر سکتے ہیں اور یہاں اُوقات اور حیثیت کی فوری اُتار چڑھاؤ اور اِن کے بننے اور بگڑنے کا عمل ہوتا ہوا بھی دیکھا جا سکتا ہے، اِس عمل کا زیادہ تر اثر حکمرانوں، سیاستدانوں اپوزیشن رہنماؤں اور سرکاری افسر شاہی ٹولے اور طبقوں پر ہوتا ہوا نظر آتا ہے، جہاں انتخابات کے بعد سب کو سب کی اوقات معلوم ہو جاتی ہے، یعنی یہ کہ جو پہلے حکومت میں ہوتے ہیں وہ اپوزیشن میں چلے جاتے ہیں۔

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

جو اپوزیشن میں ہوتے ہیں وہ حکومتی مسند پر براجما ہو جانے کے بعد یہ بھول جاتے ہیں کہ پہلے اِن کی اوقات اور حیثیت کیا تھی اور اَب کیا ہو گئی ہے …؟ یعنی جب اِنسان اپنی اُوقات و حیثیت سے غامل ہو جائے تو پھر یہی ہوتا ہے آج جو ہمارے سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے ساتھ ہو رہا ہے اور آگے آگے مزید دیکھئے کہ کیا ہوتا ہے، مگر جس دن اِنہیں اپنی دُرست اُوقات و حیثیت کا احساس ہو گیا اور ربِ کائنات کے حضور تو بہ کی اور اِن کی یہ توبہ قبول ہو گئی تو پھر یہ ایسے باہر آ جائیں گے، جیسے دودھ میں سے مکھی باہر نکل جاتی ہے۔ بہر کیف..! اَب یہ اُوقات ہی تو ہے کہ جو کسی کے کبھی کے دن بڑے کردیتی ہے تو کبھی کسی کی راتیں …بہرحال….!تب ہی تو اِس طرح اوقات اور حیثیت کے معاملے میں تیزی سے بدلتی کیفیات پر اہل علم کہہ گئے ہیں کہ اِنسان کو اپنی اوقات اور حیثیت سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے اور یہ کبھی نہیں بھولنی چاہئے، کہ آج اللہ نے اِسے جو مرتبہ اور رتبہ بخش دیا ہے، اِس کا ذرا سا غرور اور گھمنڈ اِسے آسمان سے زمین پر پٹخ سکتا ہے اور جو لوگ اپنی ترقی اور خوشحالی کے گھیروں میں گھرکر خود کو بہت کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔

اپنے ماضی کی اُوقات اور حیثیت کو بھول جاتے ہیں، وہ ہی اِدھر اُدھر نکل کر بھٹک جاتے ہیں، اور زمانے کے ہر معاشرے اور تہذیب میں اِن ہی کی سخت پکڑ ہوتی ہے، جیسے اِن دنوں ہمارے مُلک اور معاشرے میں اِس کی ایک زنددہ مثال ہمارے ماضی کے(ر) جنرل اور سابق صدر پرویز مشرف کی موجود ہے، کیونکہ جب یہ وردی میں تھے تو اِن کی اوقات کچھ تھی اور آج جب یہ بغیر وردی کے ہیں تو اِن کی کیا اوقات اور حیثیت ہو گئی ہے، اَب یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے، آج یہ ایک خاص اشارہ ہے اُن صاحبانِ عقل و حرفت کے لئے جو کسی مقام پر پہنچ کر خود کو بہت کچھ (حتیٰ کہ خود کو زمینی خدا)سمجھنے لگتے ہیں، اور اپنی اُوقات و حیثیت بھول جاتے ہیں جیسا کہ ایک وقت میں ہمارے سابق صدر(ر)جنرل پرویز مشرف اپنے عہدے اور طاقت کے گھمنڈ میں سب کچھ بھول چکے تھے، اور خود کو اللہ جانے کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے، اُنہوں نے اِس دوران بزور طاقت مسندِ اقتدار پر کس طرح اپنے قدم رکھے اور مُلکی آئین و قانون کو اپنے پیروں کے تلے کس طرح روندھا تھا یہ بھی سب جانتے ہیں۔

Chaudhry Nisar Ali Khan

Chaudhry Nisar Ali Khan

سارے جہاں کو تو معلوم ہے، مگر دوسری طرف یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ جیسے تیسے جتنے بھی عرصے اقتدار میں رہے، اِن کا دورِ اقتدار بھی مُلکی تاریخ میں اپنا ایک منفرد دور کہا جا سکتا ہے، اُنہوں نے بطور آمر جو حکومت چلائی ہے، اِس کا بھی اپنا ایک دلکش انداز تھا، مُلکی آج سے بہتر ترقی کر رہا تھا، ڈالر اتنا آگے نہیں بڑھا تھا کہ آج یہ جتنی حد عبور کر گیا ہے، گوکہ حالیہ اور موجودہ جمہوری صدور سے بہتر جنرل (ر) پرویز مشرف کا آمر دورِ حکومت تھا، اُنہوں نے اِس دوران اپنی اُوقات اور حیثیت سے بڑھ کر مُلک کے لئے جہاں کئی قابلِ قدر کارنامے سر انجام دیئے تو وہیں اِن کا 12 اکتوبر 1999 والے غیر آئینی و غیر قانونی اقدام سمیت لال مسجد حملہ اور اِس جیسے بہت سے اسلام و مُلک کو نقصان پہنچانے والے فیصلوں نے بھی اِن کی اُوقات اور حیثیت کو ملیامیٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ آج یہی وجہ ہے کہ مشرف کچھ بُرا کر کے اپنے سب اچھے کئے کی سزا اِس طرح بھگت رہے ہیں۔

آج اپنی اُوقات اور حیثیت میں رہتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ مسٹر چوہدری نثار علی خان نے ہر بار کی طرح اِس مرتبہ بھی واضح کیا ہے کہ پروز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی قانونی کارروائی مکمل کرنے کے لئے ایف آئی اے کو چھ ہفتے کی مہلت دیدی گئی ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عدالتی حکم کے بغیر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) سے خارج نہیں کیا جائے گا اور وہ بیرون مُلک نہیں جا سکتے، اگر چہ اِن ساری باتوں کے باوجود بھی اُنہوں نے اپنی حیثیت اور اُوقات کے مطابق یہ تک کہہ دیا ہے کہ پرویز مشرف کو حکومت کی جانب سے محفوظ راستہ دینے کی باتیں مضحکہ خیز اور”بکواس” ہیں، اِن کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ ساتھ اُن کے ساتھی اور اُس وقت کے آرمی آفیسرز سے بھی تفتیش کی جائیگی” اور مشرف سے متعلق ایسی بہت سی باتیں ہیں جن سے متعلق چوہدری نثار علی خان نے کھل کر اظہارِ خیال کیا اور عوام کو اِس بات کا پورا یقین دلانے کی کوشش کی کہ حکومت کسی بھی حال میں(جس میں کوئی اندرونی یا بیرونی طاقت کا دباؤ کار فرما ہے اِس سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور کہا کہ ) پرویز مشرف کو محفوظ راستہ نہیں دیں گے۔ اَب دیکھتے ہیں کہ آج چوہدری نثار علی خان نے اپنی اُوقات اور حیثیت سے بڑھ کر جتنی بھی باتیں کیں ہیں کیا یہ سب اگلے آنے والے دنوں میں سچ ثابت ہوتی ہیں یا یہ بھی ریت کا ڈھیر بن جائیں گی۔ اور ہم ایک بار پھر یہ سوچنے اور غور کرنے مجبور ہو کر حق بجانب ہوں گے کہ اپنی اُوقات اور حیثیت سے بڑھ کر یا گر کر دعوے اِنسان کو کتنا نقصان پہنچاتے ہیں، اِس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔

تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com