عید الاضحی کی آمد آمد ہے۔ اس کو بڑی عید اور عید قربان بھی کہا جاتا ہے۔ ہر فرد عید کی تیاریوں میں مگن ہے۔ بازاروں کی رونقیں بڑھ گئی ہیں اور ان میں رات گئے تک خریداروں کا جمگٹھا جما رہتا ہے۔ لوگوں کی آسانی کے لیئے ہر شہر میں قربانی کے جانوروں کی خریدوفروخت کے لیئے علیحدہ مویشی منڈیوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ ادھر انتظامیہ کی ملی بھگت سے ذخیرہ اندوزوں اور دیگر دکانداروں نے عید سے قبل ہی سبزیوں اور پھلوں سمیت ضروریات زندگی کی مختلف اشیاء کے باٹا ریٹس مقرر کر رکھے ہیں اس پر پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی ناکام نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب متاثرین اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ عید کے موقع پر نئے کپڑوں اور جوتوں سمیت دیگر روزمرہ میں استعمال ہونیوالی ضروریات کی چیزیں خرید نے سے محروم ہیں ان پر تو راحت امیر خان نیازی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ۔ کپڑوں کی دوکان سے دور چند سکوں کو گنتے ہوئے اک غریب کی آنکھوں میں عید کو مرتے دیکھا۔
مسلمان 10 ذی الحجہ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد تازہ کرنے کے لیئے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور اسی دن کو مسلمان بیت اللہ میں حج ادا کرتے ہیں اور اس دن حاجیان با کرام اطراف و اکتافِ عالم سے سعودی عرب کے شہر مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں۔ احرام بستہ با حالت خستہ امیر و فقیر پا برہنہ و سربر ہنہ یک لباس یاد حضرت اسماعیل علیہ السلام و حضرت ابراہیم علیہ السلام منانے کے لیئے آتے ہیں۔ بیت اللہ (خانہ کعبہ) کا والہانہ طواف ، درریشئی رہبانئیت کے نمونے ۔ کہیں رمی الجمعرات ہے تو کہیں صفا مروہ کے طواف، میدان عرفات میں حاضری و ہجوم اور لبیک اللھم لبیک کے نعرے بلند ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں تو دشمنوں کے دل دہل جاتے ہیں۔ مقام منیٰ کی قربانیاں ۔ آمدورفت کی کثرت ، اللہ پاک کی طرف سے خاص رحمتوں کا نزول اس عشرہ کے خواص ہیں۔یہ حضرات اسماعیل علیہ السلام کا عشرہ ہے، حضرت ہاجرہ کی یاس کا عشرہ ہے۔ ذبح عظیم کے مصداق کا عشرہ ہے۔ تعبیر خواب کا عشرہ ہے۔
سیلاب متاثرین جن کے ہنستے بستے گھر اجڑ چکے ہیں، عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں۔ اور ان کے سرسبزوشاداب اور لہلہاتے کھیت دریا برد ہو کر تالابوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کیوجہ سے عید کی خوشیوں سے محروم سیلاب متاثرین اپنی بربادیوں پرماتم کناں ہیں۔ موسم گرما مون سون ہوائوں کی وجہ سے پہاڑی اور میدانی علاقوں میں کافی بارشیں برستی ہیں ۔ اور ساتھ ہی گلیشئرز پگھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ گلیشئیرز کے پگھلنے اورشدید بارشوں کی وجہ سے دریا اور نالوں میں پانی کی مقدار میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دریائوں اور نالوں میں پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔
پانی دریائوں کے کناروں سے باہر نکل کر دور دور تک بڑے پیمانے پر جانی و مالی تباہی کا باعث بنتا ہے پانی کے اس تیز ریلے کو سیلاب کہتے ہیں۔ اور پاکستان کو پچھلے 5 برس سے انکا سامنا ہے ۔ سیلاب زیادہ تر دریائے سندھ کے بالائی میدان میںآتے ہیں۔ البتہ ان کا زیریں میدان مکمل طور پر صرف محفوظ ہی نہیں رہتا بلکہ متاثر بھی ہوتا ہے شدید بارشوں اور پہاڑوں پر برف پگھلنے سے دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں میں سیلاب آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ حالیہ سیلاب گزشتہ سیلابوں سے خطرناک اور سونامی سے زیادہ بدترین تھا ۔ جس سے سینکڑوں ایکڑاراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں ۔ لاتعداد مویشی ہلاک اور کئی کچے مکان گر چکے ہیں۔ اور بہت سے مرد و خواتین اور بچے سیلاب کے ریلے کی زد میںآکر موت کی وادی میں جا کر ابدی نیند سو چکے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا قیمتی سامان دریا برد ہو چکا ہے۔
Flood
جو باقی بچا ہے وہ ناکارہ ہو چکا ہے۔ سیلاب زدہ نشیبی علاقوںمیں سیلاب کا پانی کھڑا ہونے سے وبائی امراض تیزی سے پھیلنے جارہے ہیں۔ متعدد سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں اور ریل کی پٹڑیاں اکھڑ گئی ہیں۔ جس سے آمد ورفت کے ذرائع معدود ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ سلطنتوں کے حکمران اپنی ناکامیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں ہمارے حکمران اپنی اَنا کے غلام بن کر ایک دوسرے کے دست و گریباں ہو کر آپس کی ریشہ دوانیوں میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیئے بیان بازی اور فوٹو سیشن میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میںلگے ہوئے ہیں۔ عملاََ کچھ نہیں کر رہے جس پر متاثرہ علاقوں کی عوام موجودہ حکومت سے نالاں اور ناخوش ہے۔ موسم سرما کا آغاز ہو چکا ہے اور سردی سیلاب متاثرین کا بھر پور طریقے سے استقبال کر رہی ہے۔ جس سے نزلہ ، زکام اور کھانسی جنم لے رہے ہیں اور ان علاقوں میں علاج معالجے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہے۔ متاثرین کھلے آسمان تلے ہماری حکومت کی خصوصی توجہ اور امداد کے منتظر ہیں۔ مگر حکومت جمہوریت کا راگ الاپنے میں مصروف ہے اور اپوزیشن حکومت گرانے کی تاک میں ہے۔
ایسے حالات میں صرف ایک ادارہ ہے(پاکستان آرمی) جو متاثرین کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ جس پر پوری قوم انکی تہہ دل سے مشکور ہے اور انکی سلامتی کے لیئے دعا گو۔ جہاں آرمی ہوتی ہے وہاں راشن وغیرہ کی منصفانا تقسیم ہوتی ہے اور جہاں پہ دوسری انتظامیہ ہوتی ہے۔ وہاں پہ بدانتظامی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں نہ تو حصہ داروں کو حصہ ملتا ہے ؟ اور نہ مستحقوں کو امدا؟ پچھلے سال سیلاب متاثرین کے لیئے اکٹھا کیا گیا امدای سامان سکولوں سے برآمد ہوا تھا؟ اور امسال پولیس کے جوان امدادی سامان (بستر، چادریں وغیرہ) اپنے گھروں میں لے جا رہے ہیں۔ جس پر اعلیٰ حکام خاموش ہیں۔ نادرا والے فرضی اور اپنے منظور نظر افراد کے نام لسٹوں میں درج کر کے مستحقین اور متاثرین کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔اور حکومت کی طرف سے پھر چیک دینے کا وعدہ کیا گیا ہے
سچ تو یہ ہے کہ پچھلے سال والے چیک ابھی تک کیش نہیں ہوئے۔ متاثرین چیک ہاتھوں میں تھام کر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور زراعت کا شعبہ ہمارے لیئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور پسماندگی کے باعث جنوبی پنجاب کے 70 فیصد لوگوں کا انحصار زراعت پر ہے اور سیلاب کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ نقصان اسی شعبہ کو ہوتا ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ محض بیان بازی تک نہ رہے بلکہ دوسرے علاقوں کی طرح جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر تمام ٹیکس معاف کرے اور کسان کو سبسڈی دے اور سیلابوں سے بچنے کے لیئے دریائوں کے اوپر ڈیم اور پانی کے ذخائر تعمیر کرے اور حکمران آپس کی رنجشوں کو بھلا کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر یقینی بنائیں تاکہ ہم تباہی سے بھی بچ سکیں اور انرجی بحران پر بھی قابو پا سکیں
بھارت کے خلاف سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی اور آبی دہشت گردی پر عالمی سطح تک آواز بلند کریں اور اپنے ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کریں۔ اسی میں ہماری، ہمارے ملک کی اور ہماری قوم کی سلامتی ہے۔سیلاب متاثرین پہلی عید منا رہیں ہیں حکومت کی طرف سے تو پہلی قسط بھی جاری نہیں ہوئی مگر ہم عید کی خوشیوں میں سیلاب متاثرین کو ضرور یاد رکھیں یہ ہمارے بھائی ہیں آئیں مل کر عہد کرتے ہیں کہ انکی بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
Mubarak Shamsi
تحریر:سید مبارک علی شمسی ای میل۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com