تحریر: محمد عتیق الرحمن۔ فیصل آباد عید کے بعد کالم لکھنے کے لئے بیٹھا تو سوچا کہ آج ذرا حکمرانوں کی تعریف کے پل باندھے جائیں کیونکہ یاردوست میرے تنقیدی کالموں سے نالاں ہیں اور مشورہ دیتے ہیں کہ کسی کی تعریف بھی کر لیا کرو۔ لیکن کیا کریں جی ہم مجبور ہیں بلکہ مقہور ہیں کہ ہمیں تنقید کے سوا کوئی چارہ ہی نظر نہیں آتا۔
دیکھیں نہ پچھلے دنوں ایک بھارتی ڈرون طیارہ گرایا گیا تھا اور اس سے بھی پیچھے جائیں تو ایک پاکستانی کبوتر بھارتی سرحد کے پار چلاگیا تو اس کی وہ درگت بنائی گئی تھی کہ جیسے وہ آئی۔ایس۔آئی کا بہترین جاسوس یا پھر کشمیری حریت پسند مجاہد جو غلطی سے ان کے ہاتھ لگ گیا ،بعد کی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نے پاکستانی کبوتر کے لئے ایک بھارتی کبوتری کا انتظام کرکے اپناداماد بنالیا ہے۔
اس کے بعد اوفا میں ملاقات اور پھر عین عیدسے ایک روزقبل بھارت کی طرف سے پاکستانی سرحدی علاقوں میں بلااشتعال گولہ بھاری ،مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر تعینات بھارتی 16ویں کورکے کمانڈرلیفٹینٹ جنرل کے ایچ سنگھ کی پاکستانی کوغیرمعمولی نقصان پہنچانے کی دھمکی ، اور پھر مون سون کا سلسلہ شروع ہوتے ہی بھارت کی طرف سے پانی کا چھوڑا جانا جس سے پاکستان میں سیلاب کا آنا ہرسال معمو ل کی بات ہے ۔یہ واقعات بھارت کی پاکستان دشمنی کو واضح کرتے ہیں اور ان لوگوں کے منہ پرطمانچہ ہے جو امن کی آشاجیسے لاگ الاپتے ہیں ۔اب بھی بھارتی ڈیم بھر چکے ہیں اور وہ عین اس وقت پانی چھوڑے گا جب ہم سیلاب کی تباہ کاریوں سے نپٹ رہے ہونگے۔
یہ سارے واقعات کوئی پرانے نہیں ہیں کہ ہمارے عزت ماٰب وزیراعظم کو بھول جائیں اور اپنی ’’مینگوڈپلومیسی ‘‘شروع کردیں۔عید پر پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی طرف سے بھارتی ہم منصب نریندرمودی،صدرپرناب مکھرجی اورکانگرس کی سربراہ سونیا گاندھی کو آموں کاتحفہ بھیجاگیا ہے ۔مودی کے ساتھ انفرادی طورپربھی ہمارے تعلقات اتنے خوشگوار نہیں ہیں یہ بھارتی وزیراعظم گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث رہاہے اور اگر اسے گوگل پر سرچ کریں تو یہ انڈیا کے ٹاپ 10موسٹ وانٹڈ مجرموں میں نظر آتا ہے ۔بھارت سے ہمارے تعلقات ہمیشہ سے ہی کشیدہ رہے ہیں ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہمیشہ ہی پاکستان نے آگے بڑھ کر مذاکرات کی دعوت دے کر دنیا کو باور کروایا ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے لیکن ہردفعہ ہی بھارت کی طرف سے مذاکرات کو کھڈے لائن لگانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
Narendra Modi and Nawaz Sharif
میرے خیال سے پاکستانی وزیراعظم کو اس طرح کے موقع پر سخت مؤقف اپناناچاہیئے تھا جیساکہ رینجرز نے بھارتی مٹھائی واپس کرکے ایک واضح پیغام دیا تھا ۔سچ ہے کہ جن کا لہواس زمین پرگرتا ہے وہ ہی اپنے دشمنوں کو پہچان بھی سکتے ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات بھی کرسکتے ہیں ۔ٹھیک ہے کہ ہم ایک امن پسند قوم ہیں لیکن اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جس ملک نے پاکستان کاامن تباہ وبربادکردیا ہو اور وہ ہرمعاملے میں پاکستان کی مخالفت کرتا ہواس کے ساتھ دوستی کی ،امن پسندی کی پینگیں ڈالی جائیں اور وہ بدلے میں ہمیں ہمارے کشمیری بھائیوں اور سرحدی علاقوں میں رہنے والے پاکستانیوں کی لاشیں گفٹ کرے۔ہمیں ایسی مینگو ڈپلومیسی سے پرہیز کرنا چاہیئے ۔پوری دنیا ہماری بات کو اس وقت بھارت کی بات پر ترجیح دے رہی ہے ہمیں اس سے فائدہ اٹھا ناہوگا اور بھارتی سازشیں بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ہماراکبوتر چلاجائے تو پوری دنیا میں پاکستان کی امن پسندی کی دھجیاں اڑادی جائیں اور پاکستان بھارتی ڈرون گرائے تو اتنی خاموشی ہو کہ جیسے قبرستان۔ہمارے حکمرانوں کو اپنی اس مینگواور ساڑھی پالیسی کو چھوڑتے ہوئے پاک افواج کے ساتھ کھڑے ہوکر بھارت کے ساتھ اپنی پالیسی بنانی ہوگی ۔میں بڑے دکھ کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ پاک فوج اور دفاعی اداروں کی پالیسیاں پاکستانی قوم کے دلوں کی آواز ہوتی ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں کی پالیسیاں بھارت نواز نظر آتی ہیں۔
انفرادی طور پر میاں محمد نوازشریف چاہیں تو جتنا مرضی بھارت کے قریب ہوں جیسے مرضی ان کو تحفے تحائف سے نوازیں لیکن جب وہ پاکستان کی وزارت عظمٰی کی کرسی پربیٹھیں ہوں تو بھارت کے ساتھ پاکستان کی پالیسیوں کومدنظر رکھتے ہوئے تعلقات بنائیں ۔ایسے وقت میں جب پورا پاکستان بھارتی دہشت گردی کے اثر سے نکلنے کے لئے آخری حد تک جانے تک تیار ہے تو وزیراعظم کی طرف سے خیرسگالی کیلئے پاکستانی آم بھارتی ہم منصب کو دئیے جانا میرے جیسے پاکستانی کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ۔ہمارے حکمرانوں کا بھارت جیسے اذلی دشمن کے ساتھ یک طرفہ خیر سگالی چاہنا ہمارے لئے سمجھ سے بالاتر ہے۔
ان کے نزدیک پاکستانی فوج کے شہداء، عید سے ایک روز 4پاکستانیوں کی بھارتی شیلنگ سے شہیدہونے اورکشمیریوں کی جو ہرروز پاکستان سے الحاق کی خاطر مشکلات جھیل رہے ہیں ان کی کوئی قدروقیمت نہیں بلکہ مودی سرکار اور اندراگاندھی کی زیادہ قدر ہے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے محسنوں اور شہیدوں کو یادکرنے کی بجائے ’’مینگوپالیسی ‘‘کے ذریعے اذلی دشمن کو مبارک باد دی جائے۔ آخر پر میں اپنے ان دوستوں سے پھر معذرت کرتا ہوں اور ان کو امید دلاتا ہوں کہ اک دن میں بھی اپنے حکمرانوں کی تعریف میں رطب اللسان نظر آؤں گا لیکن اس میں ذرا دیری ہے کیونکہ بقول اقبالؒ
نہیں ہے ناامیداقبال اپنی کشت ویراں سے ذرانم ہوتو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی