کراچی (جیوڈیسک) یورپی یونین ممالک اور برطانیہ کو پاکستان سے آم کی ایکسپورٹ با اثر اور بڑے فارم مالکان کی اجارہ داری کا شکار ہوگئی ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے پاکستانی آم کی کنسائمنٹ میں فروٹ فلائی کی موجودگی پر انتباہ کے بعد پاکستان میں فروٹ فلائی سے پاک باغات کی رجسٹریشن اور ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ کو لازمی قرار دیا گیا تاہم دونوں کڑی شرائط پوری کیے جانے کے باوجود پاکستان یورپی ممالک میں اپنا مارکیٹ شیئر حاصل کرنے میں ناکام ہے۔
سال 2013 تک پاکستان یورپی ملکوں اور برطانیہ کو 15ہزار ٹن آم برآمد کررہا تھا جو پابندی کے خدشے کے باعث متعارف کرائے جانے والے طریقہ کار کی وجہ سے کم ہوکر2014 میں 4ہزار ٹن اور 2015 میں 6ہزار ٹن رہی۔ دوسری جانب پاکستان میں یورپی یونین اور برطانیہ کو ایکسپورٹ کے لیے رجسٹرڈ باغات ایکسپورٹ کے لیے خدشہ بن گئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ رجسٹر کیے جانے والے باغات میں سے بیشتر بااثر افراد اور سیاسی شخصیات کی ملکیت ہیں جن کی سندھ اور پنجاب میں تعداد 150کے قریب بتائی جاتی ہے۔
آم کی تجارت سے وابستہ افراد کے مطابق رجسٹرڈ باغات نے اپنی مناپلی قائم کرلی ہے اور رجسٹرڈ باغات کے مالکان دیگر باغات کے مقابلے میں75فیصد تک زائد قیمت طلب کررہے ہیں۔ یورپ اور برطانیہ کو آم ایکسپورٹ کرنے والے برآمد کنندگان کو رجسٹرڈ باغات کے مالکان کی بلیک میلنگ کا سامنا ہے۔ اس بارے میں ایکسپورٹرز نے بھی سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ رجسٹرڈ باغات کے مالکان آم کی من مانی قیمت طلب کررہے ہیں حالانکہ ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ کی شرط کو لازمی قرار دیے جانے کے بعد رجسٹرڈ باغات سے حاصل کیے گئے آم ایکسپورٹ کرنے کی شرط بلاجواز ہے۔
ایکسپورٹرز نے بتایا کہ رجسٹرڈ شدہ باغات انڈسٹری میں کرپشن کو فروغ دینے کا بھی سبب بن رہے ہیں رجسٹرڈ باغات کے مالکان غیررجسٹرڈ باغات سے حاصل کیے گئے آم رجسٹرڈ باغات کے نام پر فروخت کرنے کے لیے اپنے باغات کے سرٹیفکیٹ فروخت کررہے ہیں جس سے انڈسٹری میں بدعنوانی کو فروغ مل رہا ہے۔ایکسپورٹرز نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یورپ اور برطانیہ کو ایکسپورٹ کے لیے رجسٹرڈ باغ سے آم حاصل کرنے کی شرط ختم نہ کی گئی تو اس سال بھی یورپی یونین اور برطانیہ کو پاکستان سے آم کی ایکسپورٹ محدود رہے گی۔