بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے بھی اپنے ایک تازہ بیان میں کہہ دیا ہے کہ وہ پاکستان میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کافی حد تک پیش رفت کر چکے تھے اور معاملات کافی نزدیک پہنچ چکے تھے۔ من موہن سنگھ کے اس بیان سے پہلے پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز دو بار کھلے لفظوں اس حوالے سے بیان دے چکے ہیں کہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ خفیہ مذاکرات اور بیک چینل ڈپلومیسی جاری ہے۔ انہوں نے من موہن سنگھ کے بیان کے بعد ایک بار پھر اعادہ کیا کہ خفیہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ کئی ممالک نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کی پیشکش کی اور دلچسپی دکھائی ہے لیکن مزید پیش رفت بھارت میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کے بعد ہی سامنے آئے گی۔
مسئلہ کشمیر پر خفیہ مذاکرات، بیک چینل ڈپلومیسی اور تھرڈ آپشن سمیت کئی طرح کی اصطلاحات دنیا سالہا سال سے سنتی آ رہی ہے لیکن مسئلہ حل کیسے ہو گا؟ یہ کبھی کوئی نہیں بتاتا۔ من موہن سنگھ نے بھی یہ کہا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کافی پیش رفت کر چکے تھے لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ پیش رفت کس نوعیت کی تھی اور مسئلہ کا حتمی نتیجہ یا حل کیا ہونا تھا۔ یہی کچھ پرویز مشرف اور ان کے دور کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بارہا کہہ چکے ہیں لیکن وہ بھی اپنی اپنی پٹاریوں سے وہ سانپ نہیں نکالتے کہ جس کو دیکھنے کے لئے سبھی لوگ بے تاب ہیں کہ آخر وہ کون سا، حل ہے کہ جسے ساری دنیا سے چھپا کر نکالا جا رہا ہے، کیونکہ مسئلہ کشمیر کا حل تو بھارت سمیت ساری دنیا نے کھلے عام اور دنیا کے سب سے بڑے کھلے فورم اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ انہیں حق خودارادیت دیا جائے گا ۔5جنوری کو ہر سال دنیا بھر میں ساری کشمیری قوم اسی حوالے سے تو خصوصی طور پر یہ دن مناتی ہے کہ انہیں ان کا پیدائشی حق دیا جائے کہ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کر سکیں۔ کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں سے تو کچھ بھی خفیہ نہیں تھا اور نہ آج ہے۔
کشمیری قوم کیسے بھول سکتی ہے کہ لگ بھگ 65 سال قبل 5 جنوری کے دن ہی اقوام عالم نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کر کے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر آج تک یہ وعدہ اقوام عالم کی خاموشی اور بھارتی ہٹ دھرمیوں اور اس کی عالمی حمایت سے دنیا کا طویل ترین اور نہ حل ہونے والا مسئلہ بن چکا ہے۔ 5 جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کی کہ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق اور مستقبل کا فیصلہ آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے سے طے کیا جائے گا، اس قرارداد کی شق نمبر 2(ب) میں واضح درج ہے کہ وہ تمام اشخاص (ریاستی باشندوں کے علاوہ تمام) جو 15 اگست 1947 ء کے بعد ریاست میں داخل ہوئے ہیں کے واپس جانے کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی۔ 17 جولائی 1949ء کو کراچی میں اقوام متحدہ کے کمشنر جنرل ڈلوائی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں ریاست جموں و کشمیر کو عملاً دو حصوں میں تقسیم کر کے صدیوں تک کشمیریوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا۔ دونوں ممالک کے زیرقبضہ و زیر کنٹرول علاقے کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر کے سینے پر کبھی نہ مٹنے والی لکیر (لائن آف کنٹرول) کھینچ دی گئی ہے۔
Jammu Kashmir
آخری اور حتمی طور پر اقوام متحدہ نے مارچ 1950ء میں اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے کی غرض سے پاکستان اور بھارت سے ریاست جموں و کشمیر کا نظم ونسق لینے کی آخری کوشش کی، اور ایک سینئر آسٹریلین جج سرونڈ ڈکسن کو کشمیر کے لئے نمائندہ مقرر کیا جس نے پوری ریاست کا تفصیلی دورہ اور زمینی حقائق پر مبنی رپورٹ مرتب کی جس میں وہ عوامل اور عناصر بیان کئے گئے جو کشمیری عوام کو حق خودارادیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں، لیکن اس بار بھارت نے ڈکسن کو مایوس کر دیا۔ مقصد تو صاف اور واضح تھا کہ بھارت مسئلہ حل ہی نہیں کرنا چاہتا اور آج تک اس کی ساری کی ساری کوشش یہی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کسی صورت اس کے ہاتھ سے نہ جائے، اگرچہ کہ کشمیری قوم کا آخری فرد بھی مٹ جائے۔ کشمیر میں بھارت اس وقت دس لاکھ فورسز تعینات کئے ہوئے ہے۔
وہ یہاں گزشتہ 25 سال میں اس قدر فوج مروا چکا ہے کہ جتنی اس کی پاکستان کے ساتھ ساری جنگوں میں نہیں ماری گئی۔ وہ یہاں اس قدر پیسہ برباد کر چکا ہے کہ جتنا اس نے آج تک کسی محاذ اور کسی جنگ میں خرچ نہیں کیا۔ آخر کیوں؟ صرف اس لئے کہ وہ کشمیر کو کسی صورت چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہے، پھر ہمارے لوگ آخر کیوں اور کیسے اس کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرتے ہیں؟ کیا اس طرح وہ کشمیر دے دے گا ؟ہرگز نہیں…بلکہ ہم تو اس انداز میں بھارت کے ساتھ بات چیت کر کے اپنا وقار کھو رہے ہیں اور بھارت ہمیں بے وقوف بنا کر نہ صرف وقت گزار رہا ہے بلکہ وہ ہماری بنیادی وسائل خاص طور پرہمارے پانیوں پر ہر روز اپنا قبضہ مضبوط تر کر رہا ہے۔
ہم نہیں بلکہ ساری دنیا کو یہ بات بھی اچھی طرح ازبر کر لینی چایئے کشمیر کے مسئلہ پر بھارت اور پاکستان کی بطور فریق حیثیت ثانوی ہے۔ اولین اور اصل حیثیت اور مقام اس کشمیری قوم کا ہے کہ جو اپنے حق خودارادیت کیلئے 66 سال سے خون کے دریا پار کر رہے ہیں۔ انہوں نے لاکھوں قربانیاں دیں، عزتیں کھوئیں، ان کی نسلیں مٹ گئیں لیکن وہ اپنے حق کے حصول کی آواز پست کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔ اس لئے مسئلہ کے اصل فریق تو یہی کشمیری عوام اور ان کی حریت قیادت ہے۔ پھر ان کے بغیر کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کشمیر کی بات کرے یا اس پر مذاکرات کرے۔ کیا کشمیری قوم کوئی بھیڑ بکریاں یا کوئی اور جانور ہیں کہ ان کی خریدوفروخت کا فیصلہ یا انہیں ذبح کرنے، زندہ چھوڑنے کا فیصلہ انہیں پوچھے بغیر کیا جائے گا ؟ہرگز نہیں یہ بات قطعی طور پر اور کسی صورت قابل قبول نہیں کہ کشمیریوں کو ایک طرف اور اندھیرے میں رکھ کر پاکستان اور بھارت اس مسئلہ پر کوئی مذاکرات کرتے پھریں۔
پھر اس کے حل کے قریب پہنچنے، بیک چینل ڈپلومیسی وغیرہ کے نام دیئے جائیں۔ کشمیر کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ اور قدم کشمیری قوم سے پوچھے اور انہیں اس مسئلہ پر باقاعدہ طور پر ہر موقع پر شامل کئے بغیر کرنا بلکہ سوچنا بھی جرم ہو گا جسے کبھی اور کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔کشمیری قوم اور ان کی قیادت کو بھی اس حوالے سے بالکل خاموش نہیں رہنا چائیے اور اپنے حق کے لئے اپنی آواز پر زور انداز میں بلند کرنی چائیے تاکہ کوئی بھی ان کی قربانیوں کا نہ سودا کر سکے اور نہ ہی اپنی مفت میں دکان چمکا سکے۔وزیر اعظم پاکستان نے اقتدار سنبھالتے ہی س انداز میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیااور کر رہے ہیں وہ ہر لحاظ سے خوش آئند ہے اور اس کی تحسین کرنا بھی لازم لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی زیر غور رہے کہ کہیں کوئی ایسی خطا نہ کو جائے کہ ہم کشمیری قوم کا اعتماد کھو بیٹھیں۔ یہ ہمارا سب سے بڑا نقصان ہو گا۔ جس سے بہر صورت ہمیں بچنا ہے۔