تحریر: شفقت اللہ خان سیال ہوٹل پر بیٹھے میں چائے پی رہا تھا۔وہاں پر موجود کچھ لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ تم کو معلوم نہیں کہ اللہ کے حکم سے ہم مسلمان ہیں ہمارے پیارے نبی ۖ نے فرمایا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے خواہ وہ گورا ہے یا کالا امیر ہے یا غریب مگر آج کے مسلمان بھائیوں کو دیکھوں کہ وہ کوئی زن کے پیچھے اپنے ہی مسلمان بھائی سے لڑ رہا ہے کوئی زر کے پیچھے کوئی اور زمین کے پیچھے اپنے ہی مسلمان بھائی کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے ۔کیا یہ بھول گئے ہے کہ ہم مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے دوسرا بولا بھائی آپ کو معلوم ہیں جگہ جگہ عطائی اور نان کوالیفائیڈ لوگ ڈاکٹروں کے بھیس میں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصرف ہے یہ عطائی لوگ دیدہ دلیری سے عطایئت کو اپنا فرض منصبی سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔
ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے علاج سے ان کے مسلمان بھائیوں کو نقصان ہے کہ فائدہ ان لوگ میں جسے خدا ترسی ختم ہو چکی ہے عطائی اور نان کوالیفائیڈ ڈاکٹر وں کے بھیس میں عوام کو دونوں ہاتھو ں سے لوٹ نے میں مصرف ہے جن میں جھنگ سٹی اسٹیشن چوک نزدبستی ملاح والی۔بستی گھوگھے والی۔وارڈ نمبر5محلہ گلاب والہ۔بستی مور والی۔اڈا چنڈبھروآنہ۔پیر کوٹ۔مسن۔حویلی شیخ راجو۔رسول پور۔شاہ جیونہ۔موڑمنڈی۔منڈی شاہ جیونہ۔رتہ۔وغیرہ میں جگہ جگہ عطایئت دن رات پھل پھول رہی ہیں اس عطا یئت کو ختم کرنے کی بجائے تھوڑا بہت چالان کر دیئے جا تے ہیں ان کو ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ان لوگوں نے اپنے ہی غریب بھائیوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔کیا یہی مسلمانیت ہے کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر ان کو موذی امراض میں مبتلا کر رہے ہیں کیا یہ ان کی مسلمانیت ہے یا فرعونیت یہ عطائی ڈاکٹرز اپنے ہسپتالوں یاکلینکوں کے باہر بڑے بڑے ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کے بورڈ لگا کر اپنے غریب مسلمان بھائیوں کو بیوقوف بنا کر دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف عمل ہیں ان میں چندایک تواسے ہسپتال یا کلینک ہے جو کئی دفعہ سیل ہو چکے ہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی بھی ہوئی ہے مگر نہ جانے کس مصلیحت کے تحت دوبارہ ہسپتال یا کلینک چلا رہے ہے ان میں تو کئی عطائی ڈاکٹروں نے لیبارٹریاں اور میڈیکل سٹور بھی بنا رکھے ہے نان کوالیفائیڈ اور عطائی ڈاکٹروں نے ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کے بڑے بڑے بورڈلگوا کر ہسپتال قائم کر رکھے ہیں
جہاں مریض کو علاج کی بجائے مزید مہلک امراض میں مبتلا کیا جا رہا ہے ایک نئی سرنج کو بار بار استعمال کرنے اور مضر صحت آلات جراحی کو بھی بہت بار استعمال کیا جاتا ہے اکثر عطائیوں نے توزچہ بچہ سنٹر بھی کھول رکھے ہیں ان زچہ بچہ سنٹر کی حالت سب سے زیادہ خطرناک ہے جہاں پر ان پڑھ اور نا تجربہ کار عورتیں ڈاکٹرز اور نرسیں بن کر آپریشن سے بھی گریز نہیں کرتیں اور چند روپے کی خاطر اپنے ہی مسلمان بہن ۔بھائیوں کی جان خطرے میں ڈال دیتی ہے جو جو محکمہ ہیلتھ کے لوگ ان کا ساتھ دیئے رہے ہیں یا جو کوئی اور ان عطائیت کو فروغ دیئے رہے ہیں ان کے خلاف اور عطائی ڈاکٹرزوعطائی لیڈی ڈاکٹرزونر سیزکے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے۔
Inflation
نہ جانے کتنے عطائی اپنے ہی مسلمان بھائی۔بہینوں کوموت کے منہ میں دھکیل چکے ہیں اور نہ جانے کتنے لوگوں کو موذی امراض میں مبتلا کر چکے ہیں ۔یہ مسلمانیت ہے یا فرعونیت دوسرا بولا بھا ئی تو عطائیوں کا رونا رو رہا ہے یہاں آپ کو معلوم ہے کہ مہنگائی نے غریب آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہیں اگر آ پ صبح صبح کسی چوک پر جائے تو آپ کو لوگوں کا ہجوم نظر آئے گا ان میں کسی کے ہاتھ میں تسلہ ہو گا کسی کے ہاتھ میں تیسی کانڈی ہو گئی اور کئی خالی ہاتھ کھڑے ہو گئے اور اس انتظار میں ہو گئے کہ کوئی ان کوئی آئے گا اور ان کو مزدوری پر لیے جائے گا اور اس کے ساتھ جا کر کام کرے گئے
اگر کوئی گاڑی والا یا موٹر سایئکل والاان کے پاس سے بھی آکر کھڑا ہو جائے تو اس کے پا س سب لوگ آجاتے ہے اور سب ہی ایک دوسرے سے کم مزدوری بتائے گئے کیا معلوم اس کے گھر صبح اس کے بچوں کے لیے ناشتے کے لیے کچھ تھا بھی کہ نہیں کیا اس کے دودھ پیتے بچوں نے دودھ پیا کے نہیں کیا اس کے پاس یا اس کے گھر والی یا اس کے بچوں کے پاس تن ڈھکنے کو کپڑا بھی ہے کہ نہیں تم کو کیا معلوم اس سے پوچھ جس نے نہ جانے کتنے دن بھوکھا رہا اور اس کے بیوی بچے ۔اگر ان میںسے کسی کی ایک دن بھی دہاڑی نہ لگے پوچھ اس سے۔
جو اپنا ہاتھ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے آگے ہاتھ پھیلتا ہے اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کو کچھ مانگتا ہے۔ کسی کو پتا ہے کہ آج اس کے ہمسائے کے گھر میں کھانا پکا ہے اس کے چھوٹے بچوں نے دودھ پیا ہے نہیں نہیں کسی کو نہیں پتہ کیوں کہ ہم نام کے مسلمان رہے گئے ہیں اگر ہم ایک دوسرے کا احساس کرئے تو شاہد کسی بھی ہمارے مسلمان بھائی کا بچہ بھوکھا نہ سوئے نہ اس کا مسلمان بھائی بہین بھوکھے رہے۔ مگر یہ سب احسا س کی بات ہے جو ہم میں نہیں رہا پھر ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہے نہیں نہیں ہم صرف اورصرف نام کے مسلمان رہے گئے ہیں خدا نہ کرئے کسی کو یہ دن دکھنا پڑے۔
پہلا بولا بھا ئی سنا ہے کہ باہر کے ممالک میں تو جانور کو بھی کوئی بھوکھا نہیں رہنے دیتا ان کو بھی سرکار کی طرف سے کھانا مل جاتا ہے نہیں تو اس کھانا دینے والے سے بھی پوچھا جاتا ہے کہ آج جانور وں کو تو نے کیوں بھوکھا رکھا ہے مگر یہاں مسلما ن بھائی ایک دوسرے کو نہیں پوچھتے ۔اگر مسلمان بھائی ایک دوسرے کا خیال کرئے تو شاہد ہی کوئی مسلمان بھوکھا رہے ۔امید ہے شاہد پھر کوئی ہی ایسا ہو جس کو کام نہ ملے کیوں ۔اگر ایسا ہو تو پھر تو کسی بھی مسلمان بھائی کے بیوئی بچے ماں باپ بھائی بہن بچے بھوکھے نہیں سوئے گئے۔