ماہ فروری کو تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ میں بہت نمایاں مقام حاصل ہے۔ 5 فروری کو دنیا بھر میں یوم یکجہتی کشمیر کے بعد اب 9 سے 11 فروری تک مقبوضہ کشمیر میں قائد کشمیر جناب سید علی گیلانی نے بھارت کے خلاف ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ وہی بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار ہے لیکن نہ تو وہ کشمیریوں کی آواز سننے پر تیار ہے اور نہ ہی ان کشمیریوں کے حق میں دنیا کے کسی کونے سے آنے والی آوازپر کان دھرنے کو تیار ہے۔اس بھارت کا ایک رخ تو یہ ہے کہ اس نے سال رفتہ یعنی 2013ء میں اس نے دنیا میں ایک اور اعزاز حاصل کیا۔ یہ اعزاز دنیا میں سب سے زیادہ جنگی سازوسامان خریدنے کا تھا۔ بھارت ہی وہ ملک ہے جسے امریکہ افغانستان میں اپنے 48 اتحادیوں سمیت نامراد ہونے کے بعد وہاں کا انتظام و انصرام دینا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کے لئے اب یہی ایک سہارا باقی رہ گیا ہے۔ بھارت ایک طرف سلامتی کونسل میں چھٹے ممبر کے طور پر مستقل رکنیت اور ویٹو پاور کے حصول کا برسوں سے خواہشمند ہے تو جنوبی ایشیا کا تن تنہا تھانیدار بننے کے لئے بھی بے قرار ہے۔
لیکن… دوسری طرف اسی بھارت کی اصل حالت یہ ہے کہ یہی بھارت دو کشمیریوں میں سے ایک کی لاش کے ساتھ گزشتہ 30 سال جبکہ دوسرے کی لاش کے ساتھ ایک سال سے جان چھڑانے کے لئے لڑ جھگڑ رہا ہے اور یہ لاشیں ہیں کہ اس کا ”پیچھا” نہیں چھوڑ رہیں۔ جان چھڑانے کے لئے تو بھارت نے جو ممکن تھا کر ڈالا تھا۔ پہلے اس نے دونوں نوجوانوں کو پھانسی چڑھایا اور پھر جیل کے اندر ہی دفنا دیا لیکن جان ہر روز پھنستی ہی جا رہی ہے۔ان دو لاشوں میں سے ایک لاش شہید مقبول بٹ کی ہے تو دوسری شہید افضل گورو کی 11 فروری 1984ء کو بھارت کی تہاڑ جیل میں پھانسی پانے والے مقبول بٹ آزاد کشمیر سے ملحقہ ضلع کپواڑہ کی تحصیل ہندواڑہ کے علاقہ ترہگام میں 18 فروری 1938ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ہوش سنبھالتے ہی انہیں احساس ہوا کہ ان کے گلے میں بھارت کا طوق غلامی پڑا ہوا ہے جسے اتارنا سب سے اولین فریضہ ہے۔ دور شباب میں قدم رکھتے ہی انہوں نے کشمیر کی تحریک آزادی کے لئے اسی دور میں سرگرم جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ میں شمولیت اختیار کی جسے آج ”جموں کشمیر لبریشن فرنٹ” کہا جاتا ہے۔
14 ستمبر 1966ء کو سرینگر میں بھارتی پولیس پر ایک حملہ ہوا جس میں امرچند نامی سی آئی ڈی پولیس انسپکٹر کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ معرکے میں اورنگزیب نامی مجاہد بھی شہید ہوا، یہ تحریک آزادی کا پہلا مسلح حملہ تھا۔ حملے کے بعد مقبول بٹ کو ایک ساتھی کالا خان کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا اور پھر انہیں اسی الزام میں مقدمہ چلا کر سزائے موت سنا دی گئی۔ لیکن 1968ء میں مقبول بٹ اپنے ایک دوست کے ہمراہ ایک سرنگ کھود کر سرینگر جیل توڑ کر باہر نکلنے اور پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ 30 جنوری 1971ء کو ان کے دو ساتھیوں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی نے تحریک آزادی کے سلسلہ میں ہی قدیم ترین بھارتی طیارہ گنگا اغوا کیا اور اسے لاہور لے آئے۔ طیارے کے عملے اور مسافروں کو تو چھڑا لیا گیا لیکن جہاز کو آگ لگا دی گئی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس طیارے کی بازیابی کے لئے ہونے والے مذاکرات میں ذوالفقار علی بھٹو نے ہی مرکزی کردار ادا کیا تھا اور اس کے بعد جہاز کو آگ لگی تھی۔ پھر اس کے ساتھ ہی بھارت نے مشرقی پاکستان جانے والے پاکستانی جہازوں کے اپنے ملک کے اوپر سے گزرنے پر پابندی عائد کر دی۔
یہ وہ دن تھے جب مشرقی پاکستان میں بھارت کی سلگائی بغاوت کی چنگاری شعلہ بن رہی تھی اور اس آگ لگانے کے واقعہ نے پاکستان کے لئے مشکلات دو چند کر دی تھیں۔ انہی دنوں مغربی پاکستان میں مقبول بٹ اور ان کے ساتھی گرفتار کر کے جیل ڈال دیئے گئے، جہاں سے انہیں 1974ء میں رہائی ملی۔دو سال بعد اس وقت کی پاکستانی حکومت کے ہاتھوں بار بار تنگ کئے جانے کے بعد وہ دوبارہ بھارت میں داخل ہو گئے اور وہاں صدر ذیل سنگھ کو درخواست دی کہ انہیں جس مقدمے میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی اس میں انصاف نہیں ہوا لہٰذا یہ مقدمہ دوبارہ سنا جائے۔ اسی دوران 3 فروری 1984ء کو برطانیہ کے شہر برمنگھم میں بھارتی سفارت کار روندرا مہاترے کو اغوا کر کے مقبول بٹ کو رہا کرنے کا مطالبہ ہوا تو 6فروری کو اسے قتل کر دیا گیا۔ اس کے 5 دن بعد مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید کر کے وہیں دفن کر دیا گیا۔ ان کا جسد خاکی آج بھی وہیں دفن ہے تو کشمیری نہ انہیں بھولے اور نہ یہ مطالبہ کمزور پڑا ہے کہ ان کا جسد خاکی ان کے حوالے کیا جائے۔
Afzal Guru
بھارت جس مقبول بٹ کو دنیا سے مٹانا چاہتا تھا اسے کشمیریوں نے ”بابائے قوم” قرار دے دیا۔ اس شہید کی یاد کی شمع ہر روز پہلے سے زیادہ روشن تر ہے۔ بھارت کے لئے عذاب جان لیں۔ دوسری نعش شہید افضل گورو کی ہے جنہیں بھارت نے گزشتہ سال 9 فروری کو پھانسی دے کر اسی جیل میں دفنا دیا گیا۔ 1969ء میں بارہ مولہ ضلع کے علاقے سوپور میں پیدا ہونے والے افضل گورو بھی تحریک آزادی کے ساتھ دل و جاں سے وابستہ تھے۔ انہوں نے جہادی تربیت مکمل کرنے کے بعد سینکڑوں مجاہدین کی کمانڈ کی لیکن جب 1994ء میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے جہادی جدوجہد ترک کر کے سیاسی تحریک شروع کی تو وہ بھی اسی کے ساتھ اس راہ پر چل دیئے۔
13 دسمبر 2001ء کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا جس کا الزام لشکر طیبہ اور جیش محمد پر لگایا گیا۔ حملے کے دو روز بعد ہی 15 دسمبر کو افضل گورو کو جموں کشمیر پولیس نے گرفتار کر لیا اور پھر ان پر ریاست کے خلاف بغاوت و جنگ سمیت اس حملے میں ہر طرح سے ملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے اور ان کی سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ 20 اکتوبر 2006ء کو سزائے موت دینا طے پائی لیکن کشمیریوں کے غم و غصہ کو دیکھ کر بھارتی حکومت نے فیصلہ موخر کر دیا۔ کرتے کرتے 2013ء آیا اور 9 فروری کو سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا گیا۔
افضل گورو پھانسی چڑھ گیا… اس کی وصیت کے مطابق اس کی والدہ، بیوہ اور بچے نے ایک آنسو نہ بہایا لیکن کشمیری قوم نے خون کی ندیاں بہانا شروع کر دیں۔ شہید مقبول بٹ کو بھارت نے پھانسی دی تو کشمیریوں نے اس کا جواب 31 جولائی 1988ء کو سرینگر میں 2دھماکوں کے ذریعے وہ تحریک آزادی شروع کر کے دیا جس نے تاریخ عالم بدل دی۔ 10 لاکھ فورسز 26 سال بعد بھی کشمیریوں کا نہ سر جھکا سکیں، نہ ان کی زبان بند کر سکیں۔ بھارت کا کچھ عرصہ سے دعویٰ تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں جہادی جدوجہد کمزور پڑ کر ختم ہو چکی ہے لیکن افضل گورو کی پھانسی کے بعد اس نے خود تسلیم کر لیا کہ سال 2013ء میں جہادی حملوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا کہ گزشتہ کئی سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں معرکے گرمیوں میں ہوتے اور سردیوں میںخاموشی رہتی ہے لیکن اس وقت وادی کے درودیوار حیران کن طور پر سخت سردی میں بھی گولیوں کی گھن گرج سے گونج رہے ہیں اور بھارتی وزیر داخلہ کو یہ الفاظ کہنا پڑ گئے کہ کشمیری مجاہدین کنٹرول لائن پر اب ناقابل یقین راستوں سے ”دراندازی” کرتے ہیں۔ جس کے باعث ہمیں نئے نقشے بنانے پڑ رہے ہیں۔ بھارت نے آزادی کے ان متوالوں کو روکنے کے لئے جو بن سکتا تھا وہ کچھ کیا۔ بلند و بالا اور تہہ ور تہہ تار بندی، کیمرے، سنسرز، واچ ٹاورز، انتہائی تیز لائٹ ٹاور، پٹرولنگ، بارودی سرنگیں، ڈرون سے نگرانی اور سیٹلائٹ سے نگرانی اور نجانے کیا کیا…؟ لیکن بات نہ بنی… بھارت کی جانب سے دنیا بھر کی ٹیکنالوجی اور حمایت کے باوجود آر پار آتے جاتے کشمیریوں کو نہ روکا جا سکا۔
30 سال پہلے بھارت کی لڑائی ایک لاش سے شروع ہوئی تھی تو 29 سال بعد یہ لڑائی بڑھ کر دوسری لاش تک پہنچ گئی۔ ایک بعد دوسری نعش نے برہمنی سامراج پر لرزہ طاری کر رکھا ہے۔ بھارت ان دونوں کے اجساد خاکی ان کے لواحقین کو دینے پر تیار نہیں۔ پھر یہ کیسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے؟ اور کیا دو انسانوں کی لاشوں سے ڈرنے والے کو اس میں سے ذرا کچھ بھی کبھی ملنا چاہیے جس کا وہ آرزو مند ہے۔ہماری تو اب بھی یہی نصیحت ہے کہ بھارت کو جتنا جلد ہو سکے ،نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ تاخیر کشمیر کے ہاتھ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ ہزار گنا زیادہ خوفناک ہو سکتی ہے۔