تحریر : حفیظ خٹک 23 مارچ 1940 کومنٹو پارک، لاہور میں برصغیر کی مسلمان نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ عام ہے اور اس روز بانی پاکستان سمیت مسلم لیگ کے دیگر تمام رہنماؤں کی موجودگی میں اک قرار داد پیش ہونے کے بعد منظور ہوتی ہے جس قرار داد مقاصد و قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ وہ دن تھا جب مسلم لیگ کے رہنماؤں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے اک الگ ملک کے حصول کیلئے راہ متعین کی۔ اس قرار داد کے بعد سات برسوں کی انتھک محنت کے بعد برصغیر دو حصوں میں منقسم ہوگیا اور 14اگست 1947کو پاکستان معرض وجود میں آگیا ۔یہ سب کچھ بظاہر بہت آسان سے الفاظ اور جملوں میں لکھا، پڑھا ، پڑھایا، بتایا اور سمجھایا جاتاہے لیکن ان سات برسوں کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے جن احساسات کی کمی ہے وہ ناقابل بیان ہے ۔ گذشتہ صدی کی اس یوم پاکستان کی تاریخ سے متعلق بزرگوں ، بچوں ، نوجوانوں سمیت مختلف پیشہ ورانہ عوام سے ان کی رائے معلوم کرنے کیلئے اک سروے کیا گیا جس کے بعد یہ نتیجہ احذکیا گیا کہ قربانیوں کو بعد معرض وجود میں آنے والے ملک کیلئیاب احساسات و جذبات کی کمی ہے اور اس کے ساتھ یہ بات کہ اگر کسی حد تک یہ موجود بھی ہیں تو وہ مقاصدوطن سے دور ہیں۔
77برسوں کے چوہدری نذر کا کہنا تھا ہم نے میری پیدائش اسی برس ہوئی جب لاہور میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی ۔ اور جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت میری عمر 7برس تھی ۔ ہماری رہائش بہار کے دور افتادہ دیہات میں تھی اور بچپن میں ہی ہم نے سفر کیا وہ سفر اس عمر میں بھی بھلانہیں پا ہوں ۔ کس طرح قربانیوں سے ہو کر ہم یہاں تک پہنچے وہ اک داستا ن ہے لیکن افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ اس وقت کے حکمران ہمیں غافل لگتے ہیں یہ پاکستان بنانے کے مقاصد کو بھلا بیٹھے ہیں۔ اس عمر میں بھی ہمیں اللہ سے امید ہے کہ ایسے لوگ آئیں گے جو قیام پاکستان کے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے آگے بڑھیں گے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ اک استانی کا کہنا تھا کہ اسکولوں میں روز بچے قومی ترانہ پڑھتے ہیں ، اس دوران ان کے جذبات قابل تعریف ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد بچے پاکستان کے لئے کچھ کرنے اور کر دیکھانے کے جذبات سے عاری نظر آتے ہیں ۔ جس کے ذمہ دار میری نظر میں ذرائع ابلاغ ہیں۔ ہماری قوم ہر طرح سے باصلاحیت ہے اور ہم کسی بھی طرح سے اقوام عالم سے کم نہیں لیکن انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم قیام پاکستان سے منازل کو بھولتے جا رہے ہیں۔
یونیورسٹی کے طالبعلم اطہر نے کہا کہ جس طرح ہم یوم آزادی کو مناتے ہیں اسی طرح ہم اس قرار داد پاکستان کے دن کو بھی مناتے ہیں تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دن کسی بھی عزم کو منانے سے وہ عزم پورا نہیں ہوتا بلکہ وہ عز م چند دنوں تک ، کچھ وقت تک اپنے کے ذہن میں رہتا ہے اور اس کے بعد آپ اسے بھلادیتے ہیں ۔ انکا کہنا تھا کہ آپ یہ دیکھیں کہ اس سال اس دن ملکی سطح پر عام تعطیل کر دی گئی ہے اور قابل تنقید اور اس سے بھی بڑھ کر حالت یہ ہوگئی ہے کہ مغرب کی ثقافت کو عام کرنے کیلئے حکومتی سطح پر بھی اقدامات کئے جارہے ہیں۔
مدرسے کے اک طالبعلم اسامہ کا کہناتھا کہ دو قومی نظریئے کا مقصد یہی تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور یہ دونوں ایک جگہ ،ایک ملک میں نہیں رہ سکتے اس لئے قرار پاکستان منظور کر کے برصغیر کے مسلمانوں نے اک الگ ملک کیلئے جدوجہد کی اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کے بعد پاکستان بن گیا لیکن آج تک اس ملک میں اسلام کا نظام نافذ نہیں ہوسکا ہے ۔ اس ملک کے وزیر اعظمنواز شریف کا تو حال یہ ہے کہ وہ اب ہندوؤں کی رسموں کو مناتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ عیسائیوں کے معاملات کو بھی آگے بڑھاتے ہیں۔
جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ آج بھی اسی طرح کے مظالم ہوتے ہیں جس طرح قیام پاکستان سے قبل ہوا کرتے تھے ان کا وزیر اعظ نریندر مودی بھارت کے اندر مسلمانوں کا ہی سب سے بڑا دشمن ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود ہم یہی کہتے ہیں کہ قرار داد پاکستان کا دن ہو یا قیام پاکستان کا دن اس روز ہمیں ان باتوں کو نہ صرف یا د کرنا چاہئے بلکہ انہیں پورا کرنے کیلئے اپنے آپ سے وعدہ کرنا چاہئے ۔ اک مذہبی جماعت کے کارکن عصید خان کا کہنا تھا کہ ہمارا اس دن کے حوالے سے ایک یہی پیغام ہے کہ نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے ۔ اس ملک کو بنانے کیلئے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور اس سے بھی بڑھ کر مظالم کی تاریخ موجود ہے ہم ان کی قربانیوں کے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے اپنی کاوشیں جاری رکھیں گے۔
Dr. Aafia Siddiqui
انعام اللہ خان کا کہنا تھا کہ انسان کے اندر احساسات و جذبات ہوتے ہیں تو وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے تن دہی سے آگے بڑھتا ہے اس کی اک چھوٹی سی مثال یہ دیتا ہوں کہ ہم سے اپنی ساتھیوں کے ساتھ سینکڑوں کلومیٹر پیدل سفر کیا اس سفر کا مقصد صرف یہ تھاکہ ہم اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کی قید سے باعزت رہائی دلواکر واپس لانا چاہتے ہیں ۔ اس بات کا وعدہ وزیر اعظم نے اس قوم سے کیا تھا لیکن وہ ابھی تک اپنا وعدہ پورا نہیں کر پائے ہیں ہمارے احساسات نے ہمیں ان کو یہ وعدہ یاد دلانے کیلئے لکی مروت خیبر پختونخواہ سے اسلام آباد تک پیدل سفر کرا یا ۔ اب ہمیں نے تو اپنا کام ایک طرح سے پورا کر دیا لیکن وزیر اعظم کب اپنا کام کریں گے ، یہ تو وہی بتائیں گے ؟ کل اسلام آباد میں افواج پاکستان کی پریڈ ہوگی ہم جی جان سے اس ملک کو پیار کرتے ہیں بس یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم قرار داد پاکستان کے مقاصد کو یاد رکھیں اور قیام پاکستان کے مقاصد کو بھی پورا کرنے کیلئے اپنی ذمہ داری پوری کریں اس کے ساتھ اس قوم کی بیٹی کو واپس لانے کیلئے اپنا وعدہ پورا کریں ۔ یہی اس دن23مارچ کا تقاضا ہے۔ سروئے میں اکثریت کی رائے یہی تھی کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر ایک کو اس ملک کے قیام کے مقاصد کو پور ا کرنے کیلئے اپنا اور صرف اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ جب ایک ایک فرد آگے بڑھ کر قدم اٹھائے گا تو امید ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک اک ترقی یافتہ اسلامی پاکستان بنے گا۔