تحریر : رانا ظفر اقبال ظفر 23 مارچ قائد ملت محمد علی جناح کی ان تھک محنت، کوشش اور آزاد وطن حاصل کرنے کے لیے کی گئی جدوجہد کو سلام کرنے، خراج تحسین پیش کرنے اور تجدید عہد کرنے کا دن ہے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک طویل عصابی، اور نظریاتی جنگ کے بعد علحدہ ریاست، ملک پاکستان کا تحفہ دیا۔
آج پاکستان کی کروڑوں عوام اگر آزاد سانس لے رہی ہے تو قائد اعظم محمد علی جناح اور شہیدوں کے خون کے طفیل ہے 23 مارچ1940کو لاہور جسے پنجاب کا دل کہا جاتا ہے لاہور کے منٹو پارک میں 22مارچ 1940سے 24 مارچ 1940تک آل انڈیا مسلم لیگ کا چونتیسواں سالانہ اجلاس زیر صدارت قائد اعظم محمد علی جناح منعقد ہوا ۔جسمیں بر صغیر بھر سے تقریبا ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے شرکت کی۔
اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل حق نے تاریخی قرار داد پیش کی جسمیں مسلمانوں کے لیے ایک علحدہ ریاست ،ایک علحدہ ملک کا مطالبہ کیا گیا پیش کی جانے والی قرارداد لاہور کو قرار داد پاکستان کا نام ملا ۔قرار داد میں مطالبہ کیا گیا کہ کوئی بھی دستوری خاکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت تک قابل قبول نہ ہو گا جب تک ہندوستان کے جغرافیائی اعتبار سے متصل،ملحق،یونٹوں پر مشتمل علاقوں کی حدبندی نہ کی جائے اور ضروری علاقائی ردوبدل نہ کی جائے ۔یہ کہ ہندوستان کے شمال مغربی،شمال مشرقی،علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے انہیں خود مختیار ریاستیں قرار دیا جائے۔
جسمیں ملحقہ یونٹ،خود مختار،اور مقتدر ہوں ۔یہ کہ ان یونٹوں کے اقلیتوں کے مذہبی،ثقافتی،اقتصادی،سیاسی،انتظامی،اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ان کے صلاح مشورے سے دستور میں مناسب اور موثر واضع انتظامات رکھے جائیں اور ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہوں وہاں ان کے اور دیگر اقلیتوں کے صلاح مشوروں سے ان کے مذہبی ،ثقافتی،اقتصادی،سیاسی،انتظامی،اور دیگر حقوق و نفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے ۔قرار داد کی منظوری کے بعد ہندئوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ قرارداد کو قرارداد پاکستان کہنا شروع کر دیا۔
Mohammad Ali Jinnah
۔قرارداد پاکستان بعد میں 1941 کو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بھی بنی جسکی بنیاد پر چودہ اگست 1947کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔آل انڈیا کانفرنس میں قائد اعظم محمد علی جناح کا پرتپاک اور تاریخی استقبال کیا گیا تھا اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے طویل ترین خطاب کرتے ہوئے ،ہندئوں اور مسلمانوں کی جداگانہ قومیتی وجود کو حقیقی فطرت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہندوئوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ اسلام اور ہندو ازم مذہب کے عام مفہوم ہی نہیں بلکہ دو جداگانہ اور مختلف اجتماعی نظام ہیں اور یہ محض خواب سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم بن سکیں گے ۔قائد اعظم نے فرمایا کہ ہندوستان کے مسلمان آزادی چاہتے ہیں مگر ایسی آزادی ہرگز نہیں جس میں ہندوئوں کے غلام بن جائیں۔
آپ کی تقریر کے دوران ایک لاکھ سے زائد انسانوں کے جم غفیر میں سناٹا چھایا ہوا تھا آپ نے دو قوموں کا نظریہ پیش کرتے ہوئے لالہ لاج پت رائے کا ایک خط پڑھ کر سنایا جو لالہ نے 1924میں بنگال کے مشہور لیڈر سی آر داس کو لکھا تھا کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قومیں ہیں انہیں ایک دوسرے میں مدغم کر کے ایک قوم نہیں بنایا جا سکتا لالہ لال پت رائے چونکہ ہندو قوم کی ذہنیت کے صیح علمبردار سمجھے جاتے تھے ان کے خط نے لوگوں کو ششدر کر دیا ملک برکت علی مرحوم سٹیج پر تشریف فرما تھے انکے منہ نکل گیا کہ لاج پت رائے نیشنلسٹ ہندو ہیں قائد اعظم نے زور دیکر کہا کہ ہندو نیشنلسٹ نہیں ہو سکتا ہندو اول آخر ہندو ہے اس پر پنڈال میں خوب تالیاں بجائی گئیں۔قائد اعطم محمد علی نے تاریخی خطاب میں فرمایا کہ یہاں مغربی جمہوریت کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ ہندوستان میں صرف ایک قوم نہیں بستی ہے ہندو اکثریت میں ہونے کی وجہ سے کسی بھی نوعیت کے آئینی تحفظ سے مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔
Quaid e Azam Speech
ان مفادات کا تحفظ صرف اس طرح ممکن ہے کہ ہندوستان کو ہندو اور مسلم انڈیا میں تقسیم کر دیا جائے ہندو ،مسلم مسلے کا اس کے سوا کوئی حل نہ ہے اگر مسلمانوں پر کوئی اور حل ٹھونسا گیا تو وہ اسے ہرگز قبول نہیں کریں ۔قائد اعظم کے اس تاریخی خطاب کے بعد اگلے روز قرارداد پیش ہوئی جس میں قابل ذکر بات تھی کہ برصغیر کے اکثریتی مسلمان راہنماء ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو چکے تھے ۔مولوی فضل حق کی پیش کردہ قرارداد کی تائید کرتے ہوئے، چوہدری عتیق الزمان،مولانا ظفر علی خان،سرحد اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر،سردار اورنگ زیب خاں،اور سردار عبداللہ ہارون نے بھی خطاب کیا اور قائد اعظم کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ۔23مارچ1940کے بعد برصغیر کے مسلمان قائد اعظم کی قیادت میں ایک تحریک کا روپ دھار کر بے خوف خطر منزل کی طرف بڑھنے لگے۔
آپس کے اختلاف ختم ہو چکے تھے اور علحدہ ملک کی ٹھریک دن بدن زور پکڑتی گئی جسمیں باآخر برصغیر کے مسلمان 14اگست 1947کو کامیاب ہوئے اس تحریک میں جہاں برصغیر کے مسلمان مردوں نے بھرپور حصہ لیا وہاں خواتین بھی پیچھے نہ رہیں اور مسلمانوں میں ایک علحدہ ریاست کے شعور کو بیدار کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔23مارچ کے حوالے سے بڑی قربانیوں،شہادتوں،جدوجہد کے بعد حاصل کیے گئے پاکستان میں ہم ہر سال تجدید عہد کرتے ہیں تو چلو آج ایک بار پھر تجدید عہد کریں کہ ہم ملک پاکستان کو حاصل کرنے میں دی گئی شہادتوں کو کبھی نہیں بھولیں گے ہم اپنے وطن عزیز کے لیے ہر قسم کی قربانی دیکر بھی چپے چپے کی حفاظت کریں گے ۔ہم لازوال قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے وطن عزیز کو مستحکم،،ترقی پذیر،اور خوشحال پاکستان بنا کر دم لیں گے۔