تحریر : ایم ابوبکر بلوچ 23 مارچ ملک پاکستان بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک روشن دن ہے اس روز برصغیر کے چپے چپے سے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے اپنے عظیم قائد محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کے چونتیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کی اور مسلمانوں کی آزادی اور علیحدہ ریاست کے حصول کیلئے منٹو پارک لاہور میں قرارداد پیش کی جسے قرارداد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ 1940ء کو یہی قرارداد مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بالآخر سات سال کی تگ و دو کے بعد 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آیا۔
23 مارچ صرف اسی وجہ سے اہمیت کا حامل نہیں بلکہ 1956ء میں اسی دن کو ملک پاکستان میں پہلا آئین نافذ کیا گیاجس کے نتیجے میںیہ ملک دنیا کا پہلا اسلامی جمہوریہ بنا۔ قیام پاکستان کے 13سال بعد 23مارچ کو ہی 1960ء میںقرارداد پاکستان کی یاد میں منٹو پارک لاہور میں بالکل اسی جگہ ایک یادگار مینار پاکستان کا سنگ بنیاد رکھا گیا جس جگہ بانی پاکستان نے 1940ء میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کا مطالبہ پیش کیا تھا۔
23 مارچ 1940ء کو عظیم قائد محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے اجلاس کی صدارت کی اور فضل الحق نے تاریخی قرارداد پیش کی ۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ ،،لفظ قوم کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک الگ قوم ہیں (جبکہ ہندو علیحدہ قوم)اور اس لحاظ سے مسلمانوں کا اپنا ایک علیحدہ وطن ہونا چاہئے جس میں رہ کر اپنے عقائد، تہذیب کے مطابق آزاد زندگی گزار سکیں ۔برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے علیحدہ وطن کے حصول کیلئے بے شمار قربانیاں دیں۔
کتنے بھائیوں کے لاشے تڑپے،کتنی بہنوں کی عزتیں تار تار ہوئیں ،نجانے کتنے معصوم بچے یتیم ہوئے ،بے شمار مائوں کے مقدس آنچل سروں سے چھینے گئے حتیٰ کہ نا صرف ہمارے بزرگوں نے اپنی وراثتی جائیدادوں کو ہمیشہ کیلئے خیرآباد کہا بلکہ اپنے خاندانوں سے بچھڑ گئے لیکن جو لوگ پاکستان بننے کے بعد بے سروسامانی کی حالت میں اس پاک زمین پہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے انہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کیا۔
Mohammad Ali Jinnah
پاکستان میں ہر سال 23 مارچ کو حکومت کی طرف سے عام تعطیل ہوتی ہے جسکا مقصد نئی نسل کو اس دن کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے سکولز،کالجز میں مختلف پروگرامز پیش کئے جاتے ہیں جن میں طلباء وطالبات کو ملک پاکستان کی تاریخ سے روشناس کرایا جاتا ہے ۔ 23مارچ 2015ء کو وفاقی حکومت نے سرکاری سطح پہ ایک پروگرام کا انعقاد کیا جس میں پاکستان کی چاروں افواج نے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور دشمنان اسلام کو یہ پیغام دیاگیا کہ ہم بحثیت پاکستانی قوم اپنے ملک ، اپنے مذہب اسلام کی حفاظت کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے کیونکہ ہم ایک باہمت ، بہادر قوم ہیں۔
اس سال بھی وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر 23 مارچ کو اس کے اصل مقاصد کے تحت منانے کی سفارشات کی تیاری کیلئے کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس کے کنوینر عطاء الحق قاسمی ہیںبلاشبہ حکومت وقت کی جانب سے اس موقع پہ یہ سب احسن اقدام ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس مقصد کی خاطر یہ ملک قائم کیا گیا تھا کیا آج ہم اسی با مقصد ملک میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟؟؟کیا پاکستان کی قانونی کی بالا دستی قائم ہے ؟؟؟ کیا پاکستان میں ایک شریف شہری کی عزت،جان ، مال محفوظ ہے؟؟؟ کیاسارا دن خون پسینے کی کمائی کرنے والا مزدور پیٹ بھر کے کھانا کھا سکتا ہے ؟؟ اگر نہیں تو ہم کیسے آزاد ہیں؟؟؟ ہماری بدقسمتی کہ آج انصاف کھوٹے داموں فروخت ہوتا ہے ،یہ معقولہ عام ہے کہ کسی دور میں وکیل بکا کرتے تھے لیکن آج کے معاشرے میں ججوں کو خریدا جا رہا ہے۔
پوچھیئے اس ماں سے جسکا نوجوان اکلوتا بیٹا صبح گھر سے نکلتا ہے لیکن شام کو اس کی لاش ملتی ہے ۔آخر کیوں؟؟ جن ہندوئوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے ہمارے بزرگوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا اور ایک الگ وطن حاصل کیا آج اسی وطن میں ہندوستانی ایجنسی کا مکمل ہولڈ ہے ۔آج الطاف حسین کی پارٹی، ایم کیوایم ، پر ،،را،، کے ایجنٹ ہونے کیلئے ثبوت اسی کی پارٹی کے سابق رہنماء بڑے فخر سے پیش کرتے پھر رہے ہیں۔
Pakistan
افسوس صد افسوس ہمارا آج کا 23 مارچ ان موجودہ حالات سے گزر رہا ہے۔ کیا کسی دشمن ملک کی تنظیم کے ایجنٹ یا اس کے کارکنوں کو پاکستانی انتخابات میں حصہ لینے اور حکومتی اداروں پر کنٹرول دیا جا سکتا ہے ۔ملکی معیشت پہ چند خاندان مسلط ہیں ،غریب دن بدن غریب ہوتا جا رہا ہے جبکہ امیر دن بدن امیر۔ ملک و قوم میں دہشت ،خوف کی فضا قائم ہے۔حالات حاضرہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سب پہ بحثیت پاکستانی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایک مخلص پاکستانی ہونے کے ناطے حکومت کا پورا ساتھ دیں اپنے معاشرے میں اردگرد کے ماحول پہ نظر رکھیں اور مشکوک افراد کو بے نقاب کریں ،ہمیشہ اپنے حق کی خاطر اٹھ کھڑے ہوں ،ہم میں سے ہر کوئی اپنے اپنے شعبہ میں ایمانداری اور محنت سے کام کرے کیونکہ تبدیلی کا آغاز ہمیشہ اپنی ذات سے ہوتا ہے۔
حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ریاست کو صحت، تعلیم، امن اور انصاف جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرے۔تحفظ حقوق نسواں کی بجائے غریب عوام کے معاشی مسائل پہ توجہ دے ،رنگین بسوں کی بجائے عوام کو روزگار مہیا کیا جائے۔ آج ہمارا ملک جن مسائل سے دوچار ہے یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں بھی جلد از جلد دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو نا چاہئے جس کیلئے ہم سب کا ایک ہونا ضروری ہے۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین