تحریر : علی عمران شاہین ماہ مارچ کے آغاز سے ہی ہی جماعة الدعوة نے گزشتہ برسوں سے بڑھ کر یوم پاکستان 23 مارچ کے حوالے سے خصوصی مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کا مقصد عوام میں اس ملک کے نظریہ اور اس مقصد کا احیا تھا، جس کے تحت یہ وطن حاصل کیا گیا تھا۔ 23 مارچ 1940ء کے روز اسلامیان ہند نے مشترکہ و متفقہ طور پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں یہ قرارداد پیش کی تھی کہ ان کا ہندو اکثریت کے ساتھ رہنا ممکن نہیں وگرنہ وہ اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل نہیں کر سکیں گے۔ اس قرارداد کو جو پہلے قرارداد لاہور تھی، بعد میں قرارداد پاکستان بنی اور پھر اسی سے پاکستان بن گیا ۔انگریز نے تقسیم سے پہلے ہی ایسی چالیں چلیں کہ پاکستان ہر طرف سے مسائل میں ہی الجھتا چلا گیا۔
مصور پاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان قائداعظم کے بے شمار فرمودات دنیا کے سامنے ہیں کہ وہ آزاد ملک صرف اس لئے چاہتے تھے کہ یہاں اسلام کا ہی ہر شعبہ زندگی اور ہر موقع پر عملی طور نفاذ اور راج ہو۔ اسی وجہ سے تو پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ کا نعرہ ہر مسلمان بچے، بوڑھے، مرد خاتون کی زبان پر ورد کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اس وجہ سے تو قائداعظم نے پاکستان بنتے ہی سودی نظام معیشت کو ختم کر کے اسلامی نظام معیشت لاگو کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو ان کی وفات کے باعث ایسا تشنہ رہا کہ آج تک پورا نہ ہو سکا۔ پاکستان بننے اور حضرت قائداعظم کی وفات کے بعد بھی اسے بنانے والے موجود تھے اور انہوں نے قرارداد مقاصد کی شکل میں ایک دستاویز تیار اور منظور کی جس کے تحت اسلام کو ریاست کی بنیاد اور اللہ تعالیٰ کی ذات کی حاکمیت اعلیٰ تسلیم کی گئی۔
افسوس صد افسوس کہ اس کے بعد ملک ایسے ہاتھوں میں جاتا چلا گیا، جنہوں نے اسلام کو سب سے بڑا بوجھ سمجھا اور اسے ملک کے عملی دستور اور ایوان سے نکالنے پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔ اس کا سب سے بھیانک نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں نکلا۔ وہ بنگالی عوام جو ملک کے قیام میں سب سے پیش پیش تھے اور جنہوں نے ساری جدوجہد میں ہر وقت سرگرم کردار ادا کیا تھا، اب اقتدار کے ایوانوںسے ہی باہر تھے۔ دونوں خطوں میں اگر فاصلہ ہزار میل تھا تو بھارت کی جانب سے فضائی ناکہ پابندی کے بعدیہ فاصلہ کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا رہن سہن، بودوباش، نسل و رنگ، زبان و ثقافت سب کچھ ہی ہم سے الگ تھا، بس ایک کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ ہی تھا، جو ہم دونوں کو جوڑے ہوئے تھا اور اس کلمے پر ہی دونوں بازو ایک رہ سکتے تھے کہ اس سے بڑا نہ کوئی تعلق تھا اور نہ رشتہ لیکن جب ہم نے اس کلمے سے کوتاہی برتی تو نتیجہ ملک کے دولخت ہونے کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔
آج ایک بار پھر ملک کے اندر لسانی، علاقائی، صوبائی اور کئی طرح کے جھگڑے پنپ رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار دن رات قوم کو ایک بنانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن ساری قوم جس بنیاد پر ایک ہو سکتی اور ساری دنیا سے لوہا منوا سکتی ہے اس کی بات کرنے کو تیار نہیں۔ سارے ملک کو جوڑنے اور ایک لڑی میں پرونے والا آج بھی وہی کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ ہی ہے جس سے ہم دوری کا ہمیشہ نقصان اٹھا چکے ہیں لیکن آنکھیں کھولنے کو تیار نہیں۔ انہی حالات کو دیکھتے ہوئے جماعة الدعوة نے ملک گیر سطح پر ”نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے” کے بینر تلے عظیم الشان مہم لانچ کی اور ملک کے کروڑوں عوام کو یہ باور کرایا ان کی عزت و فلاح اور بقا و دفاع اس کلمہ طیبہ میں مضمر ہے۔ اس کو جتنا مضبوط کریں گے ملک اسی قدر مضبوط ہو گا اور دشمن کے سارے حربے، چالیں ناکام ہونگی۔ ملک کے ہر طبقہ زندگی تک اسی دعوت کو پہنچانے کے لئے ہرممکن ذریعہ اور وسیلہ استعمال کیا گیا اور قوم نے اس کا شاندار نتیجہ بھی دیکھا کہ پہلی بار 23 مارچ کے دن کو قومی سطح پر جس طرح سبز ہلالی پرچم اٹھا کر منانے کی روایت کا آغاز ہوا وہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ ہمارے دشمن ہمارے اندر نقب لگا رہے ہیں اور ہمیں کلمہ طیبہ سے دور کرنے کے لئے ہرممکن زور لگا رہے ہیں۔ جن دنوں یہ مہم عروج پر تھی انہی دنوں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے امریکی میڈیا میں کالم چھپے جن میں حسین حقانی نے انتہائی خوفناک انکشافات کئے۔
ان سب کا لب لباب یہی سمجھ آیا کہ حسین حقانی نے اپنے آقائوں کے اشاروں پر پاکستان میں امریکیوں کو داخلے کی کھلی چھٹی دی تھی حتیٰ کہ امریکی بغیر ویزا کے بھی آ سکتے تھے۔ اس عرصہ میں امریکہ نے پاکستان میں خطے کے اپنے سب سے بڑے سفارتخانے کی تعمیر کا آغاز کیا اور اسی عرصہ میں ایبٹ آباد میں امریکی فورسز نے گھس کر حملہ کیا اور بقول اپنے اسامہ بن لادن سمیت تین لوگوں کو شہید کیا تھا اور خود بحفاظت واپس نکل گئے تھے۔ جب موجودہ حکومتی حلقوں نے اس پر بیان بازی کی تواس وقت کی حزب اقتدار یعنی پیپلزپارٹی نے کہا کہ اصل ذمہ دار تو وہ ہیں جو اسامہ بن لادن کو پاکستان لائے تھے اور اس ایک جملہ سے انہوں نے اپنا دامن جھاڑ لیا جیسے اب یہ کہانی ختم ہو چکی ہے، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن نشانہ بنے یا نہیں، اس پر تو امریکی خود بھی اب تک متذبذب ہیں کیونکہ وہ دنیا کے سامنے اس حوالے سے کوئی ثبوت آج تک نہیں لا سکے۔
البتہ ان کا یہاں آنا تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ امریکی جس طرح اس عرصے میں یہاں دندناتے رہے، اس کا انکشاف واجد شمس الحسن کے بعد حسین حقانی کرتے جا رہے ہیں جن کا پاکستان میں کچھ لینا دینا نہیں۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ بدطینت اور امریکہ کے تنخواہ دار بلکہ زرخرید غلام تھے جن کا پاکستان میں مفاد پاکستان کو نقصان پہنچانا ہی تھا۔ ان سنگین حالات میں پاکستان کے محب وطن لوگوں اور اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وطن کے دفاع کے لئے یہ ہر وقت آنکھیں کھول کر رکھیں اور یہ فریضہ انجام دیں۔ جماعة الدعوة کی نظریہ پاکستان کے حوالے سے یہ مسلسل مہم بھی ایسے ملک دشمن عناصر کے خلاف ایک کارگر وار تھی جو ملک کو امریکی کالونی بنانا چاہتے تھے اور چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ملک تبھی بیرونی دبائو اور بیرونی قوتوں کے چنگل اور اثر سے آزاد ہو گا جب یہاں کلمہ طیبہ کا دور دورہ ہو گا۔ اس سلسلے میں ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 1924ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکی نے 80 سال تک لادینیت اور الحاد کا سامنا کیا اور گزشتہ 15 سال سے وہاں رفتہ رفتہ اسلام اور اسلامی شعائر، غیرت ملی کی بحالی و ترویج کا عمل شروع ہوا تو ترکی کا مقام دنیا کے مسلمانوں اور دنیا کے نقشے پر کہیں زیادہ بلند ہو گیا۔ آج اسی اسلام اور کلمہ طیبہ کو تھامنے اور اس کا نام لینے کی وجہ سے دنیا میں ترکی کی عزت و توقیر ہے اور یہ ترکی اس بنیاد پر یورپ اور امریکہ کو للکارتا اور ان کے خلاف عملاً میدان میں آتا ہے اور ساری دنیا کی طاقتیں اس کے خلاف ایکا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
اسی کلمہ کی بنیاد پر سعودی عرب کی دنیاا یں عزت و توقیر ہے وگرنہ بمشکل دو کروڑ آبای والے اس ملک کو کس نے پوچھنا تھا۔اسی کلمہ اسلام کی بنیاد پر انہیں اللہ تعالیٰ نے عزت عطا کی۔ اگر ہم نے اپنے ملک کو امریکی غلامی اور بیرونی ذلت کے پنجوں سے آزاد کروانا ہے تو ہمیں سعودی عرب اورترکی جیسے ملکوں کے ساتھ مل کر اس کلمہ طیبہ کی عزت و توقیر کے لئے کام کرنا ہو گا۔ یہی ہمارے ملک کے اتحاد اور مسلمانوں کو دنیا میں دوبارہ سے باعزت و باوقار مقام دلانے کی راہ ہے۔ اسی سوچ اور اس فکر کے تحت تو جماعة الدعوة نے یہ عظیم مہم لانچ کی اور جماعة الدعوة کے دشمن کو اگر کسی بات سے سب سے زیادہ پریشانی لاحق ہے تو یہی کہ یہ جماعة الدعوة کا ہی کردار ہے جو پاکستان کے دفاع کے لئے وہ ادا کر رہی ہے کہ اس سے ہم سرخرو ٹھہریں گے۔ ہمیں امریکیوں کی غلامیوں سے نجات ملے گی۔ ہمارا ملک یکجان و مضبوط ہو گا اور ہم امت مسلمہ کی صحیح معنوں میں ویسے ہی رہبری و قیادت کر سکیں گے جیسی وہ ہم سے توقعات رکھے بیٹھے ہیں۔ اگر ایسا ہو گا تو کوئی حسین حقانی یا شمس الحسن بھی غداری نہیں کر سکے گا کہ اسے اسلام کی بنیاد پر چلتے ملک میں داخلے اور پناہ کی جگہ ہی نہیں ملے گی اور ہم مضبوط بنیادوں پر دنیا میں اپنا مقام حاصل کر پائیں گے۔
Logo Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین ( برائے رابطہ:0321-464637)