آج 23 مارچ ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی یوم پاکستان ہم اسی ”روایتی” جوش و جذبہ سے منارہے ہیں جیسا کہ ہم گذشتہ 74 برس سے مناتے آرہے ہیں۔ 23 مارچ 1940 کے دن کوہماری ملی تحریک وتاریخ میں جواہمیت حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے، آج سے 74سال قبل اس عظیم دن اقبال پارک لاہورمیں قرارداد لاہور منظور ہوئی جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے ،جب بھی ہر سال 23مارچ کی سپیدہ سحرنمودارہوتی ہے تواسکی کرنیں قوم کو ایک واضع پیغام دیتی ہیں کہ غلامی کے ماحول کو پس منظر دھکیلنے کیلئے جرات و ہمت ،پختہ ارادہ اور اپنے موقف اور اصولوں پر ڈٹے رہنا چاہیے اس دن مسلمانوں کے سمندر بے کراں نے ایک آزاد مسلم وطن حاصل کرنے کاعزم مصمم کیا اور پھر اسکوحاصل کرنے کیلئے قربانیاں دینے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ،انگریز کی منافقت اور ہندوکی عداوت کے باوجود عزم و ہمت کے عوض اپنے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہوئے۔
کیا ہم 23 مارچ کواس انداز اور طریقے سے مناتے ہیں جیسا کہ اس کے منانے کاحق ہے ؟تومیرے خیال میں بالکل نہیں۔اگرچہ ہم اس دن کو مناتورہے ہیں لیکن اس دن کے پس منظر کوسامنے رکھے بغیر۔جب 23مارچ قریب آتاہے تو حکومت سرکاری تعطیل کااعلان کردیتی ہے اور پھر اسکے مناسبت سے ملک بھر میں مختلف پروگرامات کاانعقاد کیاجاتاہے جبکہ عوامی سطح پرہماری لاپرواہی کاعالم یہ ہے کہ ہم اس انتہائی اہم دن کو ”نعمت غیر مترقبہ”تصور کرکے یاتوسارادن آرام کرتے رہتے ہیں یاپھر سیروتفریح کی نیت سے سیاحتی مقامات کارخ کرلیتے ہیں ،حالانکہ اگرہم تھوڑ اساغور کریں تو23مارچ کایہ دن چیخ چیخ کرہم سے ایک مطالبہ کررہا ہے یہ دن ہمیں اس مشن کی یاد دلاتاہے جوہمارے بزرگوں نے شروع کیاتھا اور جسے پایہ تکمیل تک پہنچاناہم پر واجب ہے یہ دن ہمیں وہ وعدے بھی یاددلاتاہے جوہمارے اکابرین نے مسلمانان ہند سے کیے تھے وہ مشن اور وعدے کیاہیں ؟یہ جمعرات 22 مارچ 1940 کی بات ہے جب آل انڈیا مسلم لیگ کاستائیسواں اجلاس اقبال پارک (منٹوپارک ) لاہور میں شروع ہوا جمعتہ المبارک 23 مارچ کومولوی ابوالقاسم فضل الحق”شیربنگال”نے وہ تاریخی قراردادپیش کی جو آج ”قرارداد پاکستان”کے نام سے جانا جاتا ہے اس قرارداد میں وہ کونسی خاص بات تھی جس پر چل کر مسلمانان ہند نہ صرف سات سال کے قلیل عرصے میں ایک آزاد اسلامی مملکت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؟یہ قائدین کے دلوں مسلمانوں کی فلاح وبہبود کیلئے فکر اور اسلام سے محبت کاجذبہ تھا ،جس پر چل کروہ اپنے مشن میں کامیاب رہے۔اس بات کااندازہ ہم قرارداد پاکستان کے اجلاس میں قائدین کے خطابات سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔
Quaid-e-Azam
بابائے قوم قائد اعظم نے 22مارچ کے اپنے صدارتی خطاب میں دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ ہندو اور مسلمان صرف دو مختلف قومیں ہی نہیں بلکہ دو الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں ،ہندو اور مسلمانوں کے مذاہب الگ ،انکے طرز معاشرت ،رسم و رواج الگ،انکے آداب الگ ،نہ تو یہ دونوں اکٹھے کھانا کھاسکتے ہیں اور نہ ہی آپس میں شادیاں کرسکتے ہیں ۔بلکہ خیالات و تصورات سے لیکر زندگی کے ہر پہلواور ہرزاویے سے ہندو اور مسلمان آپس میں ایک نہیں ہوسکتے ۔ان دونوں اقوام میں کسی ایک کاہیرو دوسرے کادشمن اور کسی ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہوتی ہے،لہذا مسلمانوں کیلئے ایک ایسے وطن کوحاصل کرنااب ناگزیر ہو چکا ہے جس میں وہ اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزار سکے۔
قاضی محمدعیسی جوکہ قائد کے ایک بااعتماد ساتھی تھے ،انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب مسلمان آزادی حاصل کر لیں گے تو ان صوبوں کے مسلمانوں کوجواقلیت میں ہیں ،کبھی فراموش نہیں کریں گے بلکہ انکے قبضہ قدرت میں جوکچھ بھی ہوگا اس سے ان انکی ضرورکرینگے،سید عبدالرئوف شاہ جو قائد اعظم کے خاص ساتھیوں میں شمارہوتے تھے،انہوں نے اپنے خطاب میں کہاکہ میراتعلق ایک ایسے صوبے سے ہے جہاں مسلمان چند فیصد ہیں ،جن پر آزادی کے بعدکانگریس ظلم کے پہاڑ ضرورتوڑینگے لیکن ان تمام مصائب پر صبر کرکے ہم صرف اس لیے پاکستان کی حمایت کررہے ہیں کہ ہمارے بھائی تو آزادی کے نعمت سے بہر ورہوں گے اور پاکستان میں دین اسلام کابول بالاہوگا،سرعبداللہ ہارون جوکہ تحریک پاکستان کے ایک اہم رہنما تھے انہون نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر ہندو صوبوں میں مسلمانوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کیاگیا تو مسلم صوبوں کے مسلمان اس پر خاموش نہیں رہیں گے بلکہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کاپوراپوراساتھ دیں گے ۔اپنے بزرگوں کے بیانات میں سے چند آپ نے ملاحظہ فرمالئے ہیں کہ وہ کیوں اور کس مقصد کیلئے ایک آزاد مسلم مملکت حاصل کرناچاہتے تھے انکامقصد صرف اور صرف یہی تھا کہ آزاد پاکستان میں مسلمان نہ صرف اللہ تعالی کے احکام اور نبی مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے پرزندگی بسرکرینگے ،ہمارے قائدین نے جوبھی وعدے کیے وہ انہوں نے پورے کردکھائے ،لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ لکھناپڑرہاہے کہ بزرگان ملت کے جانے کے بعد ہم نے انکے سب خواب چکناچور کردیے، ہم نے اپنے بزرگوں کے وہ تمام اقوال ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے جن پر چل کر ہم اقوام عالم کی رہنمائی کرسکتے تھے ،ہم بھارتی و کشمیری مسلمانوں کی کیامدد کریں گے؟ہم نے تو اپنی ناعاقبت اندیشیوں سے اپناآدھے سے زیادہ ملک گنوادیا نہ صرف آدھے سے زیادہ ملک گنوایا بلکہ جوبچ گیاوہ بھی امریکی احکامات کی روشنی میں چلانے لگے جس کے نتیجے میں آج پورے ملک میں ہر طرف افراتفری کاعالم ہے۔
گوادرسے کشمورتک،پشاورسے کراچی تک اور گلگت سے مظفرآباد تک نہ کسی کی جان ومال محفوظ ہے اور نہ ہی عزت و آبرو۔اسکاسبب حکمرانوں کی ضمیر فروشی کے ساتھ ساتھ ہمارے اعمال بھی ہیں ،کیونکہ ہم ایک تاریخی پس منظر رکھنے والی نظریاتی قوم ہیں اور جب تک ہم اپنے نظریئے سے وفاداری نہیں کریں گے اسلام سے محبت ،لگائو نہیں رکھیں گے تب تک مسائل کے دلدل سے نکلنا ہمارے لیے ممکن نہیں ،لہذااگرہم چاہتے ہیں کہ ہم مسائل کے دلدل سے نکل کردنیا میں ایک باوقار مقام حاصل کریں تو پھر23مارچ سے ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ماضی میں ہم سے جوغلطیاں ہوچکی ہیں ہم اسے دہرانے کی بجائے ان غلطیوں کاازالہ کریں گے۔ اگر ہم ایسا کرلیں تو بہت جلد نہ صرف ہم اپنے مسائل پر قابو پالیں گے بلکہ دنیا میں ایک باعزت قوم بھی کہلائیں گے۔(ان شاء اللہ )