تحریر : وقار احمد اعوان ہر سال 3 مارچ کو دنیا بھر میں عالمی یوم جنگلی حیات سرکاری وغیر سرکاری سطح پر بھرپور طریقے سے منایا جاتا ہے، جس کا مقصد موجودہ اور آنے والے نسلوں کو جنگلی حیات بارے مثبت پیغام دینا ہوتا ہے، چونکہ پاکستان میں جنگلی حیات بارے عام لوگوں میں دلچسپی ذرا کم ہی پائی جاتی اسلئے ملک خداداد میں یہ دن باقی ایام کی طرح خاموشی کے ساتھ گزر جاتا ہے، حالانکہ تعلیم حاصل کرتے وقت قریباً ہر پاکستانی بچہ بچی، لڑکا لڑکی نصاب میں جنگلی حیات اور اس کی افادیت بارے اچھی خاصی جانکاری حاصل کرلیتے ہیں لیکن عملی میدان میںکم کم طلبہ و طالبات دلچسپی لیتے پائے گئے ہیں، یا پھر یوںکہہ لیںکہ جنگلی حیات بارے کام کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے، ہو سکتا ہے طلباء وطالبات پاکستان میںکم یاب یاپھر نایاب جنگلی حیات کیو جہ سے عدم دلچسپی کا شکارہوں یاپھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جدید دور میںرہتے ہوئے دیگر ضروری امورکی طرح اس جانب بھی ان کی توجہ کم ہی گئی ہو۔کیونکہ اکثر طلباء و طالبات نصاب میں شامل جنگلی حیات بارے مضامین کو غیر ضروری نصاب گردانتے ہیں۔ یا پھر جنگلی حیات سے انہیں مستقبل میں خاطر خواہ ظاہراً فوائد حاصل ہونے کے امکانات چونکہ کم ہوتے ہیں اس لئے ہمارے پڑھے لکھے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس پر بات کرنا اپنے قیمتی وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔خیرجوبھی ہو قدرت کی پیداکردہ کوئی بھی چیز کبھی بے کار نہیں ہوئی۔
آج چونکہ دنیا بھر میںاس دن کو بھرپور طریقے سے منانے کی کوششیں جاری ہیںا سلئے ”بھاگتے چورکی لنگوٹی ہی سہی”کے مصداق ہم بھی اپنا تھوڑا حصہ ڈال کر آج کے دن کو منانے اوراپنے دوست واحباب کو جنگلی حیات بارے مثبت پیغام دینے کی ایک چھوٹی سی کوشش ضرور کریںگے۔باقی اللہ مدد کرنے والاہے۔یہاں افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہاہے کہ ہم سے اکثریت نہیںجانتی کہ ہمار اقومی جانور،قومی پرندہ ،قومی پھول اوراسی طرح دیگر قومی اشیاء کیاکیاہیں؟جیسے ہمارے ایک دوست جوکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اب تک مارخور کو ایک پرندہ سمجھ رہے تھے مگر جب ہم نے انہیں پشاور میںواقع محکمہ جنگلی حیات کے مرکزی دفتر کا یک روزہ دورہ کروایا تب وہاںجاکر انہیںمعلوم پڑاکہ مارخورپرندہ نہیں دراصل ایک جانور ہے جوکہ عام بکرے کے جیسے ہوتاہے صرف دونوں میں فرق بڑے بالوں اور سینگوں کا ہے۔صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقہ بلوچستان کی بلند وبالا برفیلی چوٹیوں میں قریباً 4000کی تعدا دمیں پایا جاتاہے۔ماضی میں بے دریغ اورغیر قانونی سے اس کی نسل معدومیت کا شکار ہونے کے قریب تھی،لیکن جب 80ء کی دہائی میں صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں محکمہ جنگلی حیات کا باقاعدہ آغاز ہوا،تب سے اب تک محکمہ ا پنے طور اس کی بڑھوتری کے لئے کوشاں ہیں۔
Wildlife in Pakistan
اسی کے ساتھ اللہ کے کرم سے قومی پرندہ یعنی (چکو رتیتر)بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں 8000کی بلندی پر پایا جاتاہے۔ قومی پھول چونکہ پورے پاکستان میں ہے ،لیکن قومی درخت (دیودار)زیادہ تر خیبرپختونخو امیں دیکھنے کوملتاہے۔ان کے علاوہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ دو قسم کے چیتے(تیندوے)کہ جن میں ایک قسم (برفانی )جبکہ دوسری قسم (گلدارچیتا)بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں قریباً 400کے قریب موجود ہیں۔انہی جنگلی حیات کے ساتھ ہرن،اڑیال،پاڑہ ہرن،نیل گائے، گیدڑ، لومڑی، گورال،مشک نافہ ہرن،کالا تیتر،بھوراتیتر،سی سی،سائبریا سے ہجرت کرکے آنے والے پرندے کہ جن میں تلو ر اور دیگر شامل ہیںصوبہ خیبرپختونخوا کے جنگلات کے ساتھ مل کر قدرتی خوبصورتی کو چارچاند لگادیتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا کہ ماضی میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور غیر قانونی شکار سے صوبہ خیبرپختونخوا میں جنگلی حیات معدومیت کا شکار رہی مگر محکمہ جنگلی حیات کے وجودمیںآتے ماضی کی تمام روایات دم توڑچکی ہیں۔
محکمہ کی جانب سے صوبہ میں قریباً9وائلڈ لائف پارکس تعمیر کئے گئے ہیںکہ جن میں مختلف قسم کے جانور اورپرندے چلتے پھرتے اور اڑتے دوڑتے نظرآتے ہیں۔اسی کے ساتھ صوبہ کے مختلف مقامات پر پرندوںکی افزائش نسل کے لئے باقاعدہ سینگچریز بھی بنائی گئی ہیں تاکہ جانور وںکے ساتھ نایاب پرندوںکی نسل میںبھی خاطر خواہ حدتک اضافہ کیا جاسکے۔یادرہے کہ پاکستان کا دوسرا بڑا میوزیم پشاور میںواقع محکمہ جنگلی حیات کے مرکزی دفتر میں ہے جوکہ اسلام آباد میںواقع میوزیم کے بعد دوسرے نمبر پرآتاہے۔یوں محکمہ جنگلی حیات کی اس کاوش کو بھی جتنا سراہا جائے کم ہوگا۔مگر پہلے ذکر کر چکاکہ ہمارے ہاں ان امورکو ضروری یا لازمی تصورکیاجاتاہے کہ جن میںچارپیسے ہاتھ آنے کے مواقعے موجود ہوں ،چونکہ جنگلی حیات کے بڑھنے یا کم ہونے سے ہمیں ظاہراً یاپھر دوسرے الفاظ میںمالی فوائد ذرا کم نظرآتے ہیں اسلئے ہم جیسوںکی توجہ یا اس بارے کوئی جانکاری نہ ہونے کے برابر ہے۔
حالانکہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے ماحول کو صاف کرنے والے کون کونسے جانور ہیں،جیسے کوااورچیل ہمارے ماحول کی گندگی کو ختم کرنے میںمعاون ثابت ہوتے ہیںاسی طرح کچھوے پانی میں موجود گندگی کو کھا جاتے ہیںیوں ہمارے اردگرد ،ہمارے گھروںکے آس پاس پائی جانے والی گندگی قدرت کی طرف عطا کئے گئے جانور اور پرندے کھا جاتے ہیں۔جیسے گزشتہ سال جب جرمنی میںکوڑاکرکٹ کچھ زیادہ ہوگیا تو وہاںکی انتظامیہ نے فرانس سے چیل منگواکر گندگی اور کوڑاکرکٹ کو ٹھکانے لگایا۔کیونکہ چیل کوئوںکی کمیابی سے کوڑاکرکٹ انتظامیہ کے لئے درد سر بن چکا تھا یوں پڑوسی ملک سے چیل درآمد کرکے اس مسئلے سے چھٹکارا حاصل کیاگیا۔ٹھیک اسی طرح ملک خداداد میںبھی بڑی عیدکے موقع ماضی کے مقابلے میں زیادہ گندگی پائی گئی کہ جس سے تعفن اور دیگر بیماریوںنے جنم لینے میںذرا برابر دیرنہیںکی۔یوں ہماری اپنی ہی غفلت ہمیں جانوروں اور پرندوں سے ملنے والے فوائد سے لاعلم رکھتی ہے،آئیے آج کے دن اس عزم کا اظہارکریں کہ ہم جنگلی حیات کی بڑھورتی میں اپنا بھرپور کرداراداکریںگے۔تاکہ ہماری آئندہ نسلیں صوبہ بھر میں نایاب ہونے والے جانوروں اورپرندوں کے تحفظ میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔