مردان (جیوڈیسک) کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے آر پی او مردان کا کہنا تھا کہ گرفتار 15 سالہ ملزم محمد نبی نے بچی کا گلہ دبایا جو مقتولہ کا قریبی رشتہ دار ہے اور ایک ریسٹورنٹ میں کام کرتا ہے۔
انہوں بتایا کہ 15 جنوری کو دوپہر 3 بجے ملزم نے بچی کو دیکھا اور کھیتوں سے گنے لانے کا کہا، بچی دو مرتبہ کھیتوں میں گئی اور تیسری مرتبہ ملزم بھی اس کے پیچھے گیا۔
آر پی او نے مزید بتایا کہ ملزم نے ننھی بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی اور بچی کے شور مچانے پر ملزم نے گلا دبا کر اسے قتل کیا اور فرار ہوگیا، بچی کی گردن پر انگلیوں کے نشان تھے۔
آر پی او نے بتایا کہ جو سیمپل ڈی این اے کی غرض سے لیے گئے وہی میچنگ کے لیے بھجوائے گئے، مختلف ٹیکنیکل اور سائنسی ٹیمیں کیس پر کام کرتی رہیں اور گزشتہ روز ڈی این اے کے 2 سیمپل میچ ہونےکی رپورٹ ہمیں دی گئی جس کے بعد ملزم کو گرفتار کیا۔
آئی جی خیبرپختونخوا نے مزید بتایا کہ کوہاٹ میں میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی قتل کیس میں بھی لڑکی کے اہلخانہ نے ہم پر اعتماد کیا، عاصمہ کے کیس میں 2 ملزمان گرفتار ہیں جب کہ آلہ قتل اور جس گاڑی سے ملزم اسلام آباد گیا وہ بھی برآمد کرلی ہے۔
صلاح الدین محسود نے کہا کہ پوری دنیا میں تفتیش مکمل ہونے کے بعد کیس کی تفصیل بتائی جاتی ہے، حساس مقدمات میں پولیس تیز کام کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اسماء کے کیس میں بھی گوجر گڑھی کے عمائدین پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی تاکہ شفاف تحقیقات کی جاسکے۔
صلاح الدین محسود کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس ایک صوبے کی نہیں بلکہ پورے ملک کی پولیس ہے جو دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر ہے۔
یاد رہے کہ مردان کے گاؤں گوجر گڑھی کے علاقے جندر پار کی 4 سالہ بچی اسماء کی لاش 15 جنوری کو گھر کے قریب کھیتوں سے برآمد ہوئی تھی، جس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں تصدیق ہوئی کہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔
بعدازاں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بچی کے قتل کا ازخود نوٹس لیا۔
26 جنوری کو ڈی جی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے بھی تصدیق کی تھی کہ ڈی این اے کے ذریعے اسماء سے زیادتی ثابت ہوگئی ہے۔
بچی کے قتل کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے 145 افراد کے ڈی این اے کے نمونے پنجاب فرانزک لیب بھیجے جس کی رپورٹ گزشتہ روز خیبرپختونخوا پولیس کے حوالے کی گئی جس کے فوری بعد پولیس نے مقتول اسماء کے تین رشتہ داروں کو حراست میں لے لیا تھا۔