تحریر : رشید احمد نعیم۔پتوکی ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک آدمی سمندر سے ایک مچھلی پکڑ کے لایا اور اسے اپنے گھر میں موجود کنویں میں ڈال دیا۔اُس کنویں میں مینڈک بھی رہتے تھے۔ مینڈکوں نے جب ایک نئی چیز دیکھی تو پہلے تو وہ ڈرے، گھبرائے، دُور دُور گھومنے لگے۔ آخر ایک بڑے مینڈک نے ہمت دکھائی اور مچھلی کے تھوڑا قریب گیا اورپوچھا”تم کون ہو؟” مچھلی نے جواب دیا”میں مچھلی ہوں”مینڈک نے پوچھا” تم کہاں سے آئی ہو؟”مچھلی بولی” سمندر سے”مینڈک نے حیران ہو کر پوچھا ”وہ کیا ہوتا ہے؟” مچھلی ”وہ بہت بڑا ہوتا ہے اور اس میں پانی ہوتا ہے۔”مینڈک نے کہا” کتنا بڑا؟”مچھلی ”بہت بڑا”یہ سن کر مینڈک نے اپنے گرد چھوٹا سا گول چکر کاٹا اور مچھلی سے پوچھا”کیا اتنا بڑا ہوتا ہے؟”مچھلی مسکرائی اور بولی” نہیں بڑا ہوتا ہے۔”مینڈک نے تھوڑا بڑا چکر لگایا اور کہا” اتنا بڑا؟”مچھلی ہنسی اور کہا نہیں” بہت بڑا ہوتا ہے”مینڈک اب جوش میں آ گیا اور اس نے آدھے کنویں کا چکر لگا کر مچھلی کی طرف دیکھا، جیسے پوچھ رہا ہو کہ اب؟مچھلی نے پھر نفی میں سر ہلایااب تو مینڈک نے پوری رفتار سے پورے کنویں کا چکر لگایا اور مچھلی سے کہا کہ” اب اس سے بڑی تو کوئی چیز نہیں ہے۔”مچھلی مسکرائی اور مینڈک سے کہا” تمہارا قصور نہیں ہے کہ تمہاری سوچ ہی اس کنویں تک محدود ہے۔”اِسی طرح موجودہ حکومت اور وزراء کی باتوں پر تعجب کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کی سوچ ہی محدود ہے۔
پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں اپنی بھر پور طاقت کا مظاہرہ کیا۔ جس میں تمام مرکزی راہنمائوں نے شرکت کی۔ عوام کی پر جوش حاضری جلسے کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک کامیاب جلسہ تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ تعصب کی عینک لگانے والے وزراء کو دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جلسے میںشریک شرکاء کی تعداد غیرجانبدار حلقوں کے مطابق35 سے40ہزار، پولیس ذرائع کے مطابق 18سے 20 ہزار،سپیشل برانچ کے مطابق 22 ہزار جبکہ خفیہ ایجنسیوں کے مطابق 25سے27ہزار تھی جبکہ وزیرمملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کیا خوب فرمایا کہ ” میں عمران خان کو فلڈ لائٹس میں خالی کرسیوں سے خطاب پر مبارک باد پیش کرتی ہوں”محترمہ کی اس بات پر سنجیدگی سے سوچنے کی اس لیے ضرورت نہیں ہے کہ محترمہ نے جو ”مفاداتی چشمہ” لگا رکھا ہے اس سے شرکاء نظر نہیں آتے بلکہ صرف اورصرف اپنے مفادات ہی نظر آتے ہیں ورنہ ان کو ریاستی اداروں کی طرف سے بتائی گئی تعداد ہی نظر آ جاتی مگر محترمہ تو اپنے ہی اداروں کی رپورٹس کے برعکس شعلہ بیانی فرما رہی ہیں۔اب بندہ ان کی عقل و دانش پر ماتم کرے یاقہقے لگائے کہ پاکستان وہ ملک ہے جس کے وزراء سچ کو دبانے اور جھوٹ بولنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔شہر اقتدار میں پی ٹی آئی کے تحت منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ 10 ارب روپے کی پیشکش کرنے والے کا نام اس وقت نہیں بتا رہا ہوںکیوں کہ خطرہ ہے کہ شریف برادران انتقامی کارروائی کرکے اس کا کاروبار بند کردیں گے مگر وقت آنے پر عدالت میں وہ نام ضرور بتاؤں گا اور عدالت سے اس شخص کو تحفظ دینے کی درخواست بھی کروں گا۔اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اور سب کو معلوم ہے کہ آپ لوگ سیاست دان نہیں بلکہ ایک مافیا ہیں۔
اگر میں نے 10 ارب روپے کی پیشکش لانے والے کا نام بتا دیا تو آپ اسے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا کر اس کا کاروبار بند کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت انہیں عدالت میں لے کر گئی تو وہاں 10 ارب کی پیشکش کرنے والے کا نام ضرور بتایوں گا اور عدالت سے درخواست بھی کروںگا کہ اسے تحفظ فراہم کیا جائے کیوں کہ یہ لوگ اسے نہیں چھوڑیں گے۔ جب کہ عدالت کو یہ بھی بتایاجائے گا کہ دبئی میں شریف برادران کا کون سا خاص آدمی بیٹھا ہے جس سے ان کے اور رشتے دار بھی جال میں پھنس جائیں گے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ عوام کے سامنے ایک پیشکش کرتا ہوں کہ شریف برادران قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر بولیں کہ ہم نے کسی کو رشوت نہیں دی اور اگر ایسا کرلیا تو میں مان جاؤں گا، لیکن مجھے ڈر ہے یہ ہاتھ رکھ بھی لیں گے اور پھر میں 10 ارب روپے کا ہرجانہ کیسے دوں گا، اس کے لیے مجھے شریف برادارن کے ارب پتی بیٹوں سے قرضہ لینا ہوگا البتہ مریم نواز سے نہیں مانگوں گا کیوں کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب اپنی ہی فوج کو بدنام کرتے ہیں جب کہ وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی صنعتکار جندال کے ذریعے باہر پیغام بھجوایا کہ وہ دوستی چاہتے ہیں مگر فوج نہیں چاہتی اور ڈان لیکس کے ذریعے بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی مگر مودی ہرموقع پر پاکستان کے خلاف مہم چلارہا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ کشمیری مسلمان نہ ہوتے تو پوری دنیا بھارت کے پیچھے پڑجاتی لیکن میں ہر فورم پر کشمیریوں کے حق کے لیے آواز بلند کرتا رہوں گا۔
چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی دنیا بھر میں ایک حیثیت تھی اور ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہوتا تھا لیکن آج بیرون ملک پاکستانی جیلوں میں پڑے ہیں جن کو کوئی پوچھنے والا نہیں، بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ جو بھی سلوک ہو کوئی بھی حکومت انہیں نہیں پوچھتی، یہاں تک کہ مجھے بھی ایک بار امریکا میں 6 گھنٹے کے لیے روکا گیامگر کسی نے نہیں پوچھا تاہم اللہ سے دعا ہے ہماری قوم کو عظیم قوم بنادے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی وزراء نے بہت کوشش کی کہ عوام پاناما کیس بھول جائیں مگر لوگوں کے باہر نکلنے کی وجہ سے نواز شریف پاناما کیس میں پھنستے چلے گئے جب کہ اب نوازشریف کے لیے وزیراعظم رہنا بہت مشکل ہوجائے گا اور نوازشریف کی استعفیٰ دیے بغیر جان نہیں چھوٹے گی۔ عمران خان نے عوام سے نوازشریف کا سوشل بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ میں پرسوں کراچی، جمعہ کو نوشہرہ، اتوار کو سیالکوٹ جارہا ہوں اور میرے ساتھ عوام بھی نکلے گی جب کہ پہلی بار عوام کی جدوجہد کی وجہ سے وزیراعظم کو کرپشن کیس میں پکڑوائیں گے۔عمران نے کہا کہ قومیں اخلاقی قدار کی پاسداری سے بنتی ہیں میٹرو یا پل تعمیر کرنے سے نہیں۔حقیقت بھی یہی ہے کہ وہی معاشرے کامیابی و کامرانی کی منازل طے کرتے ہیں جہاں انصاف پر مبنی نظام قائم ہو۔کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا، ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا”کس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟”طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ہے”جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے،عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا۔اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو،آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،میرے ساتھ کھانا کھاؤ،اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی،کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..تم کہاں جا رہی ہو ؟طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے،میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔،الو یہ سن کر ہنسا..اور کہا ..یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟تم تو میری بیوی ہو.اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تواُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا”اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے،،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی،”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ”طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو،یہ اب میری بیوی کہاں ہے،عدالت نے تو اسے تمہاری بیوی قرار دے دیا ہے”اُلو طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا،نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہےـمیں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے …..