تحریر: ابنِ نیاز آٹھ جون ١٩٨٢ء کو اس وقت کے گورنر سندھ لیفٹننٹ جنرل ایس۔ ایم عباسی نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے علاقہ فیڈرل بی ایریا میں ایک اسلامی، ثقافتی اور تہذیبی مرکز “المرکز اسلامی” کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اس مرکز کے قیام کا مقصد یہاں ایک عظیم الشان مرکز قرآن و سنة قائم کرنا تھا۔ اس مرکز کے قیام کا خواب اسی کی دہائی میں پندرھویں صدی ہجری کے آغاز کے موقع پر فیڈرل بی ایریا کے کونسلر اور جماعت اسلامی کے رہنما جناب اخلاق احمد نے دیکھا اور اس خواب کو تعبیر دینے کا فیصلہ اس وقت کے میئر کراچی جناب عبدالستار افغانی اور بلدیہ کونسل نے کیا۔ اس کی تعمیر کی لاگت کا ابتدائی تخمینہ ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ روپے لگایا گیا۔ جب کہ جو پلاٹ مختص کیا گیا اس کی قیمت بھی کئی کروڑ روپے تھی۔
اس “المرکز اسلامی” کے حوالے سے جب جناب اخلاق احمد سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: “اس سینٹر میں سیٹنگ ارینجمنٹ کی گئی وہ سات سو پچاس افراد کی تھی۔ مرد نیچے اور خواتین اوپر گیلری میں۔ اور جو مختلف ہال تعمیر کیے گئے تھے اس میں اسلامی ممالک میں جو کلچرل ڈویلپمنٹ ہوئی ہے ، اسکے ماڈلز، انکے نقشے، انکے چارٹس، اسکی رپورٹس یہاں رکھی جائیں گی۔ساتھ میں خیال یہ تھا کہ اس مرکز کو ریسرچ سینٹر کے طور پر بھی استعمال کیا جائے۔اسکے ایک کونے میں فلیٹس بنانے کی سکیم تھی اور دوسرے کونے میں مسجد۔یہ پراجیکٹ بن تو گیا تھا لیکن مسجد کا بننا، اور ریسرچرز کے لیے فلیٹس کی تعمیر، یہ کام نہیں ہو پایا۔”
Markaz-e-Islami
المرکز اسلامی کی بدقسمتی کہیں یا کچھ بھی کہ جب بھی اقتدارِ شہر بھائی لوگوں کے ہاتھ میں آیا، اس کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ ١٩٨٧ ء میں فاروق ستار صاحب کراچی کے میئر بنے۔ لیکن اس مرکز کی تعمیر کی طرف ان کا دھیان ہر گز نہیں گیا۔یا یوں کہیں کہ کراچی کے دیگر تعمیر و ترقی کے کام تو انکی ترجیحات میں شامل تھے، لیکن اس مرکز کو نظر انداز کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے تعمیراتی کام کی رفتار سست ہو گئی۔ لیکن پھر بھی اچھی بات یہ تھی کہ چونکہ بجٹ پہلے ہی پاس ہو چکا تھا اسلیے کام البتہ جاری رہا۔بالآخر٩٠ کی دہای میں اسکا تعمیراتی کام مکمل ہوا۔لیکن ارباب اختیار کی عدم دلچسپی اور توجہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک خالی عمارت ہی رہا۔اور لمبے عرصے تک اس عمارت میں مکڑیوں کا بسیرا رہا۔
آخر اس عمارت کی قسمت جاگی اور ٢٠٠١ ء میں نعمت اللہ خان صاحب کراچی کے پہلے ناظم مقرر ہوئے۔ شہر کی خوبصورتی کی طرف تو ان کی توجہ تھی ہی، اس عمارت کو بھی اسکا مقام دلوانے کے لیے انھوں نے دل سے کام کیا۔تعمیر میں جو کمی بیشی رہ گئی تھی ، اس کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔انھوں نے اس عمارت کو قرآن و سنہ کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا ۔ اس حوالے سے سٹی کونسل نے کئی اہم قراردادوں کی منظوری دی۔ایک خطیر رقم بھی منظور ہوئی جس کو اس عمارت کی تزین و آرائش کے لیے کام میں لایا گیا۔ بیش قیمت کرسیاں خریدیں گئیں، اے سی پلانٹ لگایا گیا۔
بالآخر اس عمارت کا سنگِ بنیاد جس مقصد کے لیے رکھا گیا تھا وہ خواب پورا ہوا۔ اس کو “المرکز اسلامی” کا روپ دیا گیا۔ اس کی گورننگ باڈی میں شہر کے مشہور اہلِ دانشوروں کو شامل کیا گیا۔ اس عمارت کے مختلف ہالوں میں ، آڈیٹوریم میں مختلف نوعیت کے اسلامی، تعلیمی اورثقافتی پروگرام منعقد کیے جانے لگے۔بہت عمدگی سے اس مرکز کو اسلامی تعلیمات سے آگاہی کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ لیکن پھر اس کو کسی بد بخت کی نظر لگ گئی ۔ اگست ٢٠٠٥ میں نعمت اللہ خان کا دورِ نظامت ختم ہوا اور ایم کیو ایم کے مصطفٰی کمال کے سر پر کراچی شہر کی نظامت کا ہما بٹھایا گیا۔کچھ ہی عرصے کے بعد انھوں نے نجانے کس کے کہنے پر اس عمارت کو بھانڈوں اور میراثیوں کے حوالے کر دیا گیا اور اس مرکز کا نام تبدیل کر کے شانزے آڈیٹوریم رکھ دیا گیا۔جو بیہودگی اس کے ذریعے عام کی گئی خدا کی پناہ۔ اسے لچر سٹیج ڈراموں اور فحش ناچ گانوں کا مرکز بنا دیا گیا۔
Karachi
اپریل ٢٠١٢ میں کراچی کے ایڈمنسٹریٹر محمد حسین سید نے اہلِ علاقہ کے احتجاج پر اس شانزے آڈیٹوریم کو سیل کرا دیا۔لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد اس سیل کو توڑ کر اسکو مرکز علم و ثقافت بنا دیا گیا۔ اور باہر المرکز اسلامی کی جگہ مرکز علم و ثقافت کا بورڈ آویزاں کیا گیا۔سچ تو یہ ہے کہ یہ بات بھی قابلِ برداشت تھی کہ ناچ گانوں سے تو بدرجہا بہتر تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد اس مرکز علم و ثقافت کو سینما ہال میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ ایک انتہائی افسوس ناک، شرمناک اور دردناک بات تھی۔اہلِ علاقہ کے لوگوں کی پیشانی پر یہ ایک بدنما داغ تھا۔جب یہ “المرکزاسلامی ” تھا تو اسکی پیشانی پر کلمہ طیبہ تحریر تھا۔ خدا کے گناہگاروں نے، ظالموں نے اس کلمہ طیبہ کو سفید رنگ سے چھپا کر اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی لایعنی کوشش کی۔افسوس! المرکز اسلامی کو سنے پیکس سینما میں تبدیل کر دیاگیا۔ شہر کے وسط میں واقع سرکاری عمارت میں پاکستان دشمن پڑوسی ملک بھارت کی فحش اور نیم عریاں فلموں کی نمائش کا آغاز کیا گیا۔
یہ ساری باتیں اس فیڈرل بی ایریا کے مکینوں کو معلوم ہیں۔ جو ادھیڑ عمری میں قدم رکھ چکے ہیں وہ اسکو تعمیر ہوتے دیکھ چکے ہیں اس کے عروج و زوال سے واقف ہیں۔لیکن باہر کا شاید ہی کوئی فرد اس بات پر یقین کرتا ہو۔ اس کو یہ ساری بات ایک کہانی لگتی ہے۔ ایک فسانہ لگتا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسی عمارت کو جس میں قرآن و سنت کا درس ہوتا ہو، جس میں اسلامی تعلیمات کی تعلیم دی جاتی ہو، آج اس میں اسلام کی تعلیمات کے بالکل برعکس فلمیں چل رہی ہوں۔یہ یقین صرف عوام کو ہی نہیں آتا بلکہ اس عمارت کے درو دیوار میں بنے محرابوں اور چھت پر بنے گنبد بھی سوچ میں مبتلا ہیں کہ یہ کیا ہو گیا کہ اس مملکت خداداد میں ایسا ظلم بھی ہو سکتا ہے کہ مرکز قرآن و سنہ کو سینما گھر میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہ سارا ظلم روا رکھنے کے ذمہ دار وہ لوگ جو خود کو بانیانِ پاکستان کی اولاد کہتے ہیں۔ وہ بانیان پاکستان، جنھوں نے پاکستان کا مطلب کیا ۔ لا الہ الااللہ کا نعرہ بلند کرکے پاکستان حاصل کیا تھا۔
میرا سوال یہ ہے کہ بابری مسجد کے گنبدوں کو تو شہید کرنے والے جنونی ہندو تھے۔ لیکن اس المرکز اسلامی کے گنبدوں کی حرمت کو پامال کرنے والے ظالم کون لوگ ہیں؟ کوئی دین سے محبت کرنے والا محب وطن تو یہ کام نہیں کر سکتا۔ پاکستان کے لوگو، خاص طور پر کراچی کی عوام کو کہنا چاہتا ہوں کہ وہ عمارت شانزے آڈیٹوریم ہر گز نہیں تھا۔ شادی لان اور سینما گھر بھی نہیں تھا۔ تاریخ شاہد ہے۔ ریکارڈ نکال کر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ عمارت “المرکز اسلامی” کی تھی۔ کراچی کے لوگو! یہ عمارت تم سے پوچھتی ہے کہ گنبد چودہ سو سال سے اسلامی طرزِ تعمیر کی علامت ہے۔ سینما گھروں پر گنبد نہیں ہوتے۔ یہ بات ہر کوئی جانتا ہے۔ کیا آپ اس عمارت کی شناخت کی بحالی کے لیے آواز اٹھائیں گے؟ “جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہوں میں فحاشی پھیلے، وہ دنیا و آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ” (سورة النور، آیت۔19)