تحریر : وقار احمد اعوان موجودہ حالات اوپر سے ہوش اڑادینے والی مہنگائی ،بے چارہ پاکستانی کرے تو کیا کرے۔آئے روز کے نرخنامے، قیمتوں کا آسمان کو چھونا، پھل سبزیاں عام آدمی کی پہنچ سے باہر۔بے چارہ پاکستانی جائے توجائے کہاں؟ بازار کا رخ کرے تو جیب اجازت نہ دے،ایسے میں کوئی اپنی معمولی خواہش کو بھلا کیسے پورا کرے؟اس پر شاعر نے کیا خوب کہاں ہے کہ
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں بازارسے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
ملک میں عام آدمی جس مشکل سے زندگی بسر کررہاہے،اس بارے حکمران سو چ بھی نہیں سکتے ،انہیں کیا معلوم کہ آج سبزی کس بھائو فروخت ہورہی ہے؟بے چارہ غریب اپنے اور اپنے عیال کے لئے دو وقت کی روٹی لے جا پائے گا بھی یا گزشتہ کل کی طرح آج بھی اسے اور اس کے بچوںکو بھوکے پیٹ سونا ہوگا۔اس پر ستم ظریفی کہ بازاروںمیں ملنے والے اشیائے خوردونوش پہلے سے ہی انسان کی جانی دشمن ہیں۔جس چیز کو اٹھا کردیکھ لیں ،ملاوٹ کی بو دور سے سونگھنے کوملے گی۔مگر مرتا کیا نہ کرتا بے چارہ پاکستانی خریدنے پر مجبور۔پاپی پیٹ کی بھوک مٹانے کے لئے اپنی قیمتی زندگی بھی دائو پر لگانے کو تیار ہوچکا ہے آج کا پاکستانی۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ملنے والے ہر دس میںسے نو اشیاء خوردونوش ملاوٹ سے بھرپور ہیں البتہ وہ الگ بات ہے کہ ہماری قسموں کی بوریا ں مذکورہ اشیاء کو بیچنے میں ہماری پوری پوری مددگار ثابت ہوتی ہیں۔بہرکیف بات ہورہی تھی مہنگائی کی ،جیسے آج کل چالیس سے پچاس دنوں میں بڑھنے والی بوائلر مرغی کو بھی ”سرخاب کے پَر”لگ چکے ہیں۔ظالم آسمان سے اترنے کی زحمت ہی نہیںکرتی۔ایک طرف بازاروں میں پانی ملا ،بیمار اورلاغر جانوروںکے گوشت کی کھلے عام فروخت جاری ہے۔ تو دوسری جانب سو روپے کلو میںملنے والی مرغی دوسو میں فروخت ہورہی ہے۔
یہ الگ بات کہ ”غالب کو خدا یادنہیں”۔تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ ایک تو بوائلر اور اوپر سے دوسو روپے کلو ۔۔غضب خداکا ۔لگتا ہے کہ ہم نے سیدھا دوزخ جانا ہے۔خیر مرغی خریدی تو خریدی ۔اب ذرا پھلوں اور سبزیوں کابھی حال ملاحظہ ہو۔اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ملک خداداد میںپھلوں اور سبزیوںکی بہتات ہے ،مگر سوچنے والی بات کہ اس پر پھلوں اورسبزیوںکا ”کال”دیکھنے کوملتاہے۔کبھی ٹماٹر اتنا مہنگا کہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر تو کبھی اتنا سستا کہ جانور بھی منہ نہ لگائے۔اسی طرح کبھی پھلوں کی قیمت پوچھنے پر آدمی شرم سے اپنا سر جھکا لے تو کبھی اتنا سستا جانوروںکے چارے کے کام آئے۔
کچھ یہی حال دالوں کا بھی ہے حالانکہ پاکستان کا ہر تیسرا شخص بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان میں ملنے والی دالیں کن چیزوں کا نتیجہ ہیں۔تاہم ان باتوں سے بھی ہرگز انکا رنہیںکیا جاسکتا کہ لوکل انتظامیہ بھی اس گھنائونے کاروبار میںملوث افراد کی برابر کی شریک ہے۔ ملک کے ہر شہر میں پرائس کنٹرول کمیٹیاں موجود ہیں جنہیں سرکار ماہانہ ہزاروں روپے تنخواہ صرف اس کام کے لئے دیتی ہے کہ روزمرہ اشیائے خوردونوش کو عا م آدمی کی پہنچ ہی میںرہنے دے۔ناکہ عام آدمی مہنگی اور چمچاتی دکانوںمیں سجے کپڑوں اور جوتیوںکے جیسے سبزی ،پھل اور دیگر اشیائے خوردونوش کی دل میں حسرت لئے اپنے شب وروز بسر کرتا جائے۔
کیونکہ اب تو یومیہ پانچ سو کمانے والا مضر صحت اشیائے خوردونوش کھانے پر مجبور ہے،دن بھر چلچلاتی دھوپ میں چار سے پانچ سو وہ بھی قسمت ساتھ دے ، وگرنہ بھوک وافلا س تو اس کا مقد ر بن چکی ہوتی ہے کو اگر سورج ڈھلے پیٹ بھرنے کے لئے مناسب خوراک میسر نہ ہو تو زندگی کا پہیہ چلے تو چلے کیسے؟بہرکیف حکومت کی اولین ذ مہ داری بنتی ہے کہ عام آدمی کو آئے روز کی خود ساختہ مہنگائی سے مستقل چھٹکار ادلائے تاکہ دن بھر کی تھکان شام کو اپنے عیال کے لئے چند کھانے کی چیزیں لے جاکر دور ہوسکے۔ اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ بے چارے پاکستانی کو ذہنی سکون فراہم کیا جائے۔تاکہ عرصہ دراز سے بے چینی کاشکار پاکستانی اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے کی کوشش نہ کر سکے۔