اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں چھوٹی مارکیٹیں ہفتے اور اتوار کو بھی کھلی رکھنے اور شاپنگ مالز بھی کھولنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور کمشنر کراچی سمیت دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ کچھ مارکیٹس کو ایس او پیز پرعمل نہ کرنے پر سیل کیا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور کمشنر کراچی کو ہدایت دی کہ چھوٹے دکانداروں کو کام کرنے سے نہ روکیں، آپ دکانیں بند کریں گے تو دکاندار تو کورونا کے بجائے بھوک سے مرجائے گا، سیل کی گئی مارکیٹس کو بھی کھولیں اور انہیں ڈرانے کے بجائے سمجھائیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کراچی میں 5 بڑے مالز کے علاوہ کیا سب مارکیٹیں کھلی ہیں؟ اگر باقی مارکیٹس کھلی ہیں تو شاپنگ مال کیوں بند رکھے ہیں؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں منطق بتائی جائے، کیا وبا نے حکومتوں سے وعدہ کر رکھا ہے وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آئے گی، کیا حکومتیں ہفتہ اتوار کو تھک جاتی ہیں، کیا ہفتہ اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے، ہم تحریری حکم دیں گے ہفتے اور اتوارکو تمام چھوٹی مارکیٹیں کھلی رکھی جائیں۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ عید پر رش بڑھ جاتا ہے، ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کرائی جائیں، آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے لیکن دوسرے لینا چاہتے ہیں، بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں۔
اس موقع پر عدالت نے پورے ہفتے بھی ملک بھر کی تمام چھوٹی مارکیٹیں کھولنے کا حکم دیا جب کہ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ایس او پیز کے مطابق شام 5 بجے تمام مارکیٹس بند کی جائیں گی۔
اس کے علاوہ عدالت نے کمشنرکراچی سے شہر میں شاپنگ مالز کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ملک بھر کے شاپنگ مالز کھولنے کا حکم دے رہے ہیں، ایس او پی پر مالز میں زیادہ بہتر عملدرآمد ہوسکتا ہے۔
عدالت نے ملک بھرکے شاپنگ مالزکھولنے کے حوالے سے صوبوں کو وفاق سے اجازت لینے کی ہدایت کردی۔
دورانِ سماعت این ڈی ایم اے نے امداد کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں۔
این ڈی ایم اے کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی 123 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے ادارے کے لیے 25 ارب 30 کروڑ روپےمختص کیے، وزارت صحت کی جانب سے 50 ارب روپے مختص ہوئے جو تاحال جاری نہیں کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے این ڈی ایم اے کو 8 ارب روپے ملے جب کہ چینی حکومت کی جانب سے 64 کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی۔
این ڈی ایم اے کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ امداد صرف سامان کی صورت میں وصول کی جاتی ہے، نقد رقم کی صورت میں نہیں۔
این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اربوں روپے کی رقم ماسک اور دیگر چھوٹی اشیا پر خرچ کی گئی ہے، کورونا کے حوالے سے اربوں روپےخرچ ہوچکے ہیں، یہ کہاں جا رہے ہیں؟ رقم کا حساب رکھا جائے۔
نمائندہ این ڈی ایم اے نے بتایا کہ ہمارے لیے 25 ارب مختص ہوئے ہیں، یہ تمام رقم ابھی خرچ نہیں ہوئی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 25 ارب تو آپ کو ملے ہیں، صوبوں کو الگ ملے ہیں اور احساس پروگرام کی رقم الگ ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ 500 ارب روپے کورونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہرمریض کروڑ پتی ہوجائے گا، یہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ اتنی رقم لگانے کے بعد بھی اگر 600 لوگ جاں بحق ہوگئے تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ؟ کیا 25 ارب کی رقم سے آپ کثیر المنزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں؟
نمائندہ این ڈی ایم اے نے عدالت کو بتایا کہ یہ رقم ابھی پوری طرح ملی نہیں اور اس میں دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں اخراجات کی کوئی واضح تفصیل موجود نہیں ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ملک کے وسائل بہت غلط طریقے سے استعمال ہورہے ہیں، ہمارا ملک کورونا ٹیسٹنگ کٹ بنانے کی صلاحیت ابھی تک حاصل کیوں نہیں کرسکا؟ اس ملک کے عوام صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے غلام نہیں ہیں، آپ قرنطینہ کے نام پر لوگوں کو یرغمال بنا رہے ہیں، عوام کے حقوق کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے، آپ کسی پر احسان نہیں کررہے۔
اس پر نمائندہ این ڈی ایم اے نے کہا کہ اس کا جواب وزارت صحت زیادہ بہتر طریقے سے دے سکتی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہےکہ کورونا وائرس بظاہر پاکستان میں وبا کی صورت میں ظاہر نہیں ہوا اور پاکستان ایک ایسا ملک نہیں جو کورونا وائرس سے زیادہ بری طرح متاثر ہو۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہےکہ ملک میں ہزاروں افراد دل، جگر،گردوں ، برین ہیمرج اور دیگر امراض کے سبب مرجاتے ہیں، حکومت کورونا کے علاوہ دیگر بیماریوں اور مسائل پر بھی توجہ دے۔
عدالت کا اپنے حکم میں کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پورا ملک بند نہ کیا جائے، ایس او پیزکی خلاف ورزی کی صورت میں دکان سیل نہیں کی جائے گی اور نہ کسی کو ہراساں کیا جائے گا، صرف ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
تحریری حکم میں مزید کہا گیا ہےکہ اربوں روپے ٹین کی چارپائیوں پر خرچ ہو رہے، نہیں لگتا کورونا پر پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جا رہا ہے، ایک مریض پر لاکھوں روپے خرچ ہونے کا کیا جواز ہے؟ کورونا اس لیے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ اٹھا کرلے جائے۔
عدالت نے ہفتہ اور اتوارکو کاروبار بند رکھنے کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دو دن کاروبار بند رکھنے کا حکم آئین کے آرٹیکل 4، 18 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ پنجاب میں شاپنگ مال فوری طور پر آج ہی سے کھلیں گے جب کہ سندھ شاپنگ مال کھولنے کے لیے وزارت صحت سے منظوری لے گا اور وزارت صحت کوئی غیر ضروری رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی، کاروبار کھول دے گی، تمام مارکیٹوں اور شاپنگ مالز میں ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے، ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے متعلقہ حکومتیں ذمہ دار ہوں گی۔
عدالت نے کورونا وائرس از خود نوٹس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔