کہتے ہیں عورت اگر کسی مرد سے مال کھائے تو اسے طوائف کہا جاتا ہے لیکن مرد اگر کسی عورت کا مال ڈھول بجا کر کھائے اور تاحیات کھائے تو اسے دولہا کہا جاتا ہے۔ لڑکے والوں کا خیال اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ لڑکی کے گھر والوں کے تن کے کپڑے تک اتروا لیئے جائیں۔
ہم ایک ایسے خاندان کو بھی جانتے ہیں جہاں بیرون ملک سے لڑکی والے بیٹی کی شادی کے لیئے پاکستان آئے اور بھوکے فقرے لڑکے والوں نے آخر دم رخصتی تک نئی نئی فرمائشوں اور مطالبات سے تو لڑکی والوں کے ناک میں دم کیئے ہی رکھا ۔ اور انتہا یہ رہی کہ لڑکی رخصت کرانے تک ان کے گھر کے پردے تک اتروا کر ساتھ لے گئے۔ اور یہ سب جان کر ہمیں تو اس لڑکی کی بے حسی اور بے غیرتی پر شیدید افسوس بھی ہوا اور غصہ بھی آیا کہ ایسے لالچی خبیثوں کی مرمت کرنے کے بجائے وہ ان کیساتھ کیا سوچ کر اور کون سی اچھی امید لگا کر رخصت ہوئی ؟ کیا اس کا خیال تھا کہ یہ آخری ڈاکہ ہے اسکے بابل کے گھر پر ۔اسکے بعد سب چین ہی چین ہو جائے گا ۔ جبکہ شادی کے بعد بھی یہ حریص خاندان انہیں نوچتا رہا ۔ اور خاص بات یہ کہ لڑکے کو اپنی سسرال کو نوچنے کے سارے نئے نئے گر اس لڑکے کی اپنی والدہ ہی سکھاتی رہیں۔
شاید لڑکی کے والدین کو زندہ بھی اس لیئے چھوڑ دیا جاتا یے کہ آگے بھی آہتسہ آہستہ ان کا خون چوسنے کا سلسلہ جاری رہے ۔ کبھی رسموں کے نام پر کبھی رواجوں کے نام پر ۔۔۔یہاں نہ تو وہ خود کو بےغیرت محسوس کرتے ہیں نہ ہی چھوٹا ۔ ایک لڑکی تاحیات اپنے آپ کو ایک مرد کی خدمت اور اطاعت میں پیش کر رہی ہے ۔ اپنی جوانی حسن، طاقت، صحت، عزت سب کچھ اس پر وار دیتی ہے لیکن یہ سب کچھ ایسے بے غیرت خاندانوں کی نظر میں ہیچ ہے جب تک ان کے مطالبات کا کنواں بھرا جاتا نہ رہے ۔ جو کبھی بھی نہیں بھر پاتا ۔ جب تک کہ لڑکی خود بغاوت نہ کر دے ۔ یا اپنا گھر بچانے کو مرد کو خود اپنی بیوی کے ساتھ کھڑا نہ ہونا پڑ جائے ۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو
اگر جہیز عذاب ہے تو لڑکے کی جانب سے ملنے والے تحائف اور سامان جسے بری کہا جاتا ہے اس بری کے نام پر ایک طوق لڑکے کی گردن میں بھی ڈال دیا جاتا ہے ۔ بری بھی لڑکوں کو سالوں کے لیئے مقروض کر دیتی ہے۔ بری کے نام پر ایک نوجوان جو ابھی نیا نیا کاروبار یا نوکری کا آغاز کر رہا ہے ، اس سے دس دس ، بیس بیس ، تولے کے طلائی زیورات، دس ، بیس ہزار کا ماہوار جیب خرچ اور لاکھوں روپے کا حق مہر لکھوانا کس جہان کی شرافت ہے؟
کیا یہ کھلی بدمعاشی نہیں ہے ؟
اس کے خلاف بھی آوا اٹھائی جانی چاہیئے۔ جہاں بیٹی والے جہیز سے جان چھڑانا چاہتے ہیں وہاں انہیں یہ بات بھی اپنی دماغ میں بٹھا لینی چاہیئے کہ ایک لڑکا تمام عمر عزت آبرو کیساتھ ان کی بیٹی کو بیاہ کر بیوی بنانے کو آیا ہے ۔ جو ساری عمر اس کے اخراجات خوشی غمی پوری کرنے کا وعدہ کر رہا ہے ، تو اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈال کر اس رشتے میں قرض اور پریشانیوں کا زہر مت گھولیں ۔
کیونکہ وقتی طور پر لڑکا جب مقروض ہو کر یہ سارے چونچلے پورے کر بھی لے گا تو شادی کے بعد یہ ہی قرض اتارنے کا موقع اس جوڑے کے لیئے ایک دوسرے سے نفرت اور بیزاری کا باعث بن جائے گا ۔
لڑکے سے راستہ روکنے ، دودھ پلائی ، جوتا چھپائی اور جانے کون کونسی رسموں کے نام پر منہ مانگی رقمیں بٹوری جاتی ہیں ، تو لڑکی سے قران کھولنے ، گود میں بچہ ڈالنے ، دیور کی گوڈا بٹھائی اور جانے کس کس ڈرامے کے نام پر موٹی رقمیں اینٹھ لی جاتی ہیں ۔
بزرگوں نے یہ رسمیں شادی کے مواقع پر ہونے والے سٹیریس اور دباو کو کم کرنے کے لیئے ، ہنسی مذاق سے ان گھرانوں کو ریلیکس کرنے کے لیئے بنائی تھیں ۔ لیکن آج ہم لوگوں نے انہی چھوٹے چھوٹے ہنسنے مسکرانے اور چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مذاق کے مواقعوں کو بھی مقابلہ بازی اور پیسہ کمانے کی موقع پرستی میں بدل کر اپنے لیئے اور دوسروں کے لیئے بھی سردردی میں بدل دیا ہے ۔ ہر گھرانہ سمجھتا ہے کہ یہ کاروبار اور اپنے اخراجات وصول کرنے کا سنہری موقع ہے سو دوسرے خاندان سے جو بھی خرچ نکلوایا جا سکتا یے نکلوا لیا جائے ۔سوچنے کی بات ہے کہ آخر اتنے اخراجات کیئے یا کروائے ہی کیوں جائیں کہ جو۔نکلوانے کے لیئے اتنے منصوبے بنانے پڑیں ۔ جو۔ہے جتنا ہے اسی میں خوشی کے موقع کی خوشی کو۔کیوں نہ دوبالا کیا جائے ؟
اس کے بعد چاہے وہ نیا جوڑا ساری عمر ایک دوسرے کو طعنے دے دیکر ہی چھلنی کرتا رہے ۔ انہیں اس کا اسوقت کوئی احساس نہیں ہوتا ۔ جبکہ ان حالات کو دونوں طرف بھگتنا سارے ہی خاندان نے ہوتا ہے ۔
نکاح کو آسان کرنا دونوں خاندانوں کی ذمہ داری ہے نہ کہ کسی ایک کی۔
پھر رخصتی اور ولیمے کے موقع پر ایکدوسرے سے من چاہی تعداد میں مہمانوں کو لانے کا مطالبہ اور پھر من چاہے پکوانوں کی فرمائش ۔۔کونسی انسانیت اور شرافت یے یہ ؟ دوسرے کے ہاں اس کی طرف سے جو تعداد مہمانوں کی آپ سے کہی جائے ۔ کوشش کیجیئے اس سے بھی دو چار کم ہی لیکر جائیں ۔ باقی مہمان آپکی اپنی دعوت میں بلا لیئے جائیں ۔ تاکہ دونوں گھرانوں کو آسانی مل سکے ۔ اپنے بچوں سے دوستی کیجیئے دشمنی نہیں ۔ یاد رکھیئے آپ کے آج کے فیصلے انہیں ساری عمر بھگتنا پڑیں گے۔