تحریر : محمد صدیق پرہار اس تحریر میں ہم ایسے موضوع پر لکھ رہے ہیں جس کی ہمارے معاشرے میں اشد ضرورت ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جہاں بات کرنی ہوتی ہے وہاں نہیں کی جاتی اور جہاں نہیں کرنی ہوتی وہاں کر دی جاتی ہے۔ جہاں اعتراض کیا جا سکتا ہے وہاں نہیں کیا جاتا اور جہاں نہیں کرنا چاہیے وہاں اعتراض در اعتراض کیے جاتے ہیں۔
یوں تو معاشرے میں بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں ا صلاحات اوران کے متعلق عوام تک درست معلومات پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اس دنیا میں بہت سی تحاریک بھی چلیں اورکامیاب ہوئیں۔ بہت سی تحریکیں اب بھی چل رہی ہیں۔کسی بھی تحریک کے چلانے کاکوئی نہ کوئی مقصداوروژن ہوتا ہے۔کسی بھی تحریک کامقصدکب تک پوراہوتا ہے اس کاوقت نہیں بتایا جا سکتا۔کوئی بھی تحریک ہواس کی حمایت بھی ہوتی ہے اورمخالفت بھی۔اسے کامیاب اورناکام بنانے کی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے۔ معاشرے میں جتنے بھی اموراصلاح طلب ہیں ان میں ایک معاملہ شادی بیاہ کا بھی ہے۔
موجودہ دور میں اولادکی شادی کرنے کے سلسلے میںوالدین کوجو مشکلات پیش آتی ہیں اس سے تمام قارئین اچھی طرح واقف ہیں۔کتنی ہی ایسی لڑکیاں ہیں جن کے سروںمیں چاندی آگئی مگروہ اپناگھرآبادنہ کرسکیں۔کتنے ہی ایسے مردہیں جوجوانی کے دورسے گزرچکے ہیں مگروہ بھی اپناگھربسانے سے محروم ہیں۔کچھ لوگ اس کاذمہ دارجہیزکوٹھہراتے ہیں ، اس جہیزکے خلاف انہوںنے موومنٹ بھی چلارکھی ہے، حقیقت میںایسانہیں ہے، اکثرلوگ ا س صورت حال کاذمہ داردولہااوراس کے ورثاء کوسمجھتے ہیں یہ بھی درست نہیں ہے،کسی بھی معاملے کواچھی طرح سمجھنے میں ہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ہم اس معاملے کوتمام زاویوں سے نہ دیکھیں، اکثرایسا ہوتا ہے کوئی بھی معاملہ ہوہم اسے ایک ہی زاویے دیکھتے ہیں اوراپنی رائے قائم کردیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہماری رائے حقائق کے برعکس ہوتی ہے۔یہی معاملہ شادی بیاہ کابھی ہے اکثرلوگ اس معاملہ کوایک ہی زاویہ سے دیکھتے ہیں۔اب تک پارلیمنٹ میں اس حوالے سے جتنی بھی قانون سازی کی گئی ہے وہ اسی ایک ہی زاویہ کوسامنے رکھ کرکی گئی ہے۔یہ بات توسب جانتے ہیں کہ موجودہ دورمیں شادی کرناکتنامشکل ہے ۔یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ اس کے ذمہ داربھی ہم خودہیں۔ہم نے خودہی شادی بیاہ کومشکل سے مشکل بنایا ہوا ہے۔شادی بیاہ کے مواقع پربہت سے ایسے کام ہم کرتے ہیں وہ نہ کیے جائیں توشادی پرکوئی اثرنہیں پڑتا۔ہم نے ایسی بہت سی رسومات کو ضروری سمجھ رکھا ہے جوشادی بیاہ کے لیے کوئی ضروری نہیں ہیں
۔ہم نے لڑکے کی شادی کرنی ہویالڑکی کی توسب سے پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ دوسرافریق کسی اچھی ملازمت کاوسیع کاروبار یا وسیع جائیدادکامالک ہو،اس کے افعال وکردارسے ہیںکوئی غرض نہیںہوتی، جرائم پیشہ کوتورشتہ دے دیاجاتا ہے کہ اللہ ہدایت دے گا،مگرغریب کوانکار کردیا جاتا ہے، فیس بک پردرست ہی لکھاہواہے کہ جواللہ تعالیٰ جرائم پیشہ کوہدایت دے سکتا ہے کیاوہ غریب کواس کی ضروریات کے مطابق رزق نہیں دے گا۔ یقینا دے گا۔امیرہویاغریب سب کواللہ تعالیٰ ہی رزق دیتا ہے۔ہم جس طرح نکاح کاپیغام قبول یامستردکرتے ہیں اس کے بارے میں سرکاردوعالم کا فرمان عالیشان پڑھیں اورغورکریں کہ ہم کیاکررہے ہیں اور کیا کرنا چاہیے۔
کتاب تحفة العروس کے صفحہ ٤٤پرلکھا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے پاس کوئی ایساشخص نکاح کاپیغام بھیجے جس کے دین اوراخلاق سے تم راضی ہوتواس سے نکاح کرادو!اگرتم ایسانہ کروگے توزمین میں فتنہ اورلمباچوڑافسادہوگا۔اسی صفحہ پرایک اورحدیث شریف درج ہے وہ یہ کہ کسی بھی عورت سے ان چارچیزوںکے سبب نکاح کیاجاتاہے ١۔ اس کے مال کی وجہ سے ،٢۔حسن نسب کی وجہ سے،٣۔اس کے دین کی وجہ سے،٤۔اس کے حسن وجمال کی وجہ سے لیکن دیکھوتم دین والی عورت سے نکاح کرناتمہارے ہاتھ مٹی میںمل جائیں۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شادی بیاہ کرتے وقت دولت، کاروبار،ملازمت، جائیدادنہیں اخلاق اورکردارکودیکھناچاہیے۔شادی بیاہ کے سلسلے میںجوامورضروری ہیںان میں نکاح کے ساتھ حق مہرکی ادائیگی ہے۔ یہ حق مہرموقع پربھی دیاجاسکتا ہے اوربعدمیں بھی۔حق مہرکے سلسلے میں چند احادیث مبارکہ لکھنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں تاکہ یہ بات ذہن نشین ہوجائے نبی کریم اورصحابہ کرام نے کتناکتناحق مہراداکیا اورکتنااداکرناضروری ہے۔
کتاب تحفة العروس کے صفحہ ٦٩ پریہ حدیث مبارکہ لکھی ہے کہ مبارک عورت وہ ہے جس سے منگنی کرناآسان ہو،جس کامہردیناآسان ہواورجس کے ساتھ حسن سلوک کرناآسان ہو۔کتاب تحفة العروس کے صفحہ نمبر٧١ اورکتاب انوارالحدیث کے صفحہ ٢٩٥پرہے کہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میںنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیاکہ نبی کریم علیہ الصلوة والتسلیم کامہرکتناتھا؟انہوںنے فرمایاحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کامہرآپ کی اکثر بیویوںکے لیے بارہ اوقیہ اورایک نش تھاپھرحضرت عائشہ نے فرمایاجانتے ہونش کیاہے ،میںنے کہانہیں فرمایانصف اوقیہ توسب مل کرپانچ سودرہم ہوئے ۔ پانچ سودرہم ایک سوپینتالیس تولہ دش ماشہ چاندی بنتی ہے ،تحفة العروس کے صفحہ ٧١ پرہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خاتون جنت سے نکاح کیا تو حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایااسے کچھ مہراداکرو،عرض کی میرے پاس توکچھ بھی نہیں ،آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاتمہاری تانت والی زرہ کہاں ہے چنانچہ آپ نے وہی زرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کوعطافرمائی۔انوارالحدیث کے صفحہ ٢٩٦ پرہے کہ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مہرچارسودرہم یعنی ایک سوساڑھے سولہ تولے چاندی تھی۔
Marriage
اسی کتاب کے اسی صفحہ پرلکھا ہے کہ کم سے کم مہر دس درہم یعنی دوتولہ ساڑھے گیارہ ماشہ چاندی ہے،زیادہ کی کوئی حدمقررنہیں ۔کتاب قانون شریعت کے صفحہ نمبر٨٧، سنی بہشتی زیورکے صفحہ ٤٠٥ پربھی یہی مقدارلکھی ہے۔حق مہراوراحادٰیث مبارکہ اورصحابہ کرام کے طرزعمل بھی موجودہیںجوکسی اورتحریرمیں لکھے جائیں گے۔شادی کے لیے دوسری بات جہیزکی ہے۔ اس جہیزکولکھنے والوںنے لعنت لکھا ہے انہیںایسالکھنے پرتوبہ کرنی چاہیے ،جہیزلعنت نہیں سنت ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکوجہیزمیں ایک کمبل ایک تکیہ دیاجوازخر،خشک گھاس سے بھراہواتھا۔حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی شادی میںہم شریک تھے اس سے بہترشادی کی تقریب ہم نے نہیں دیکھی،ہم نے ان کے بسترمیںپتیاںبھردیں ۔پھرکھجوراورکشمش اکٹھاکیااوراس کوہم نے تناول کیا۔شادی کی رات ان کابسترمینڈھے کی کھال کا بنا ہوا تھا۔
کتاب جنتی زیورکے صفحہ ١٠٣پرلکھا ہے کہ ماں باپ کچھ کپڑے، کچھ زیورات کچھ سامان برتن ،پلنگ، بستر،میز،کرسی، تخت،جائے نماز، قرآن مجید،دینی کتابیں وغیرہ دے کرلڑکی کواس کے سسرال بھیجتے ہیں ۔یہ لڑکی کا جہیزکہلاتاہے ،بلاشبہ یہ جائزہے بلکہ سنت ہے کیونکہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اپنی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں کچھ سامان دے کررخصت فرمایاتھا،لیکن یادرکھوجہیزمیں سامان کادیناماں باپ کی محبت وشفقت کی نشانی ہے اوران کی خوشی کی بات ہے ،ماں باپ پرلڑکی کوجہیزدینافرض یاواجب نہیں ہے۔لڑکی اوردامادہرگزہرگزیہ جائزنہیں ہے کہ وہ زبردستی ماں باپ کومجبورکرکے اپنی مرضی کاسامان جہیزمیں وصول کریں۔ قانون شریعت کے صفحہ ٩٤ پرمسئلہ لکھاہے کہ لڑکی والوںنے نکاح یارخصت کرتے وقت شوہرسے کچھ لیاہویعنی بغیرلیے نکاح یارخصت سے انکار کردیا ہو اور شوہرنے دے کرنکاح یارخصت کرایاہوتوشوہراس چیزکوواپس لے سکتاہے اوروہ نہ رہی تواس کی قیمت لے سکتاہے یہ رشوت ہے۔
جہیز کے بعدشادی بیاہ کے سلسلے میں ولیمہ ہے۔تحفة العروس کے صفحہ نمبر١٥٧پرہے کہ حضرت بریدہ بن حصیب کہتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے نکاح کیاتوحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاشادی(ایک اورروایت میں ہے کہ شادیوں)کے لیے ولیمہ ضروری ہے۔حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے کپڑوں پرزردی کانشان دیکھاتوتوفرمایایہ کیاہے انہوںنے عرض کی کہ ایک گٹھلی بھرسونے کے بدلے میںنے ایک خاتون سے نکاح کیاہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایاخداتمیںبرکت دے ایک بکری ہی کاولیمہ کرو۔انوارالحدیث کے صفحہ ٢٩٨پرہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰ ة والسلام نے فرمایاسب سے براکھاناولیمہ کاوہ کھانا ہے جس کے لیے صرف مالدارلوگ بلائے جائیں اورغریب محتاج لوگوںکونہ پوچھاجائے۔تحفة العروس کے صفحہ ١٥٨پرہے کہ حضورعلیہ الصلوٰةوالسلام نے ایک چھوٹے سے دسترخوان پرمالیدہ (کھجور ،پنیر اور گھی)بنوایا۔پھرفرمایاآس پڑوس والوںکوبلوالوحضرت صفیہ سے نکاح کے وقت یہی آنحضرت کاولیمہ تھا۔حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول خداصلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کوولیمہ کرنے کاحکم دیاتوان کی استطاعت نہ تھی تب سعدنے کہامیںبھیڑلاتاہوں فلاں فلاں نے کہامیں اس قدرجولاتاہوںایک اورروایت میںہے کہ انصارکے ایک گروہ نے چندسیرجوحاضرکیے۔یہ ہیںوہ امورشادی بیاہ کے مواقع پرانجام دے دیے جائیں تونکاح ہوجاتاہے۔
جہیز لڑکیوں والوںکی مرضی پرہے جتناچاہیںدیں اس کی کم یازیادہ کی کوئی مقدارمقررنہیں۔حق مہردولہاکی ذمہ داری ہے کم سے کم کی حدمقررہے زیادہ کی نہیں۔ولیمہ دولہاکی ذمہ داری ہے اس کی مقدار احادیث مبارکہ میں پڑھ چکے ہیں۔اس کے علاوہ رسم حناحاورمیل سمیت جتنی بھی رسمیں اوررواج ہیں وہ سب غیرضروری ہیں۔ان رسموںسے اجتناب کیاجائے توبہترہوگا۔شادی بیاہ کے مواقع پردولہااوردلہن والوںکاایک دوسرے مطالبات کرنابھی مناسب عمل نہیں۔اولادکی شادی کرنافریقین کی ذمہ داری ہے ۔موجودہ دورمیں اس ذمہ داری کودوسرے فریق پراحسان لگاکراوراس کی قیمت وصول کرکے اداکیاجاتاہے۔جوکہ انتہائی نامناسب عمل ہے۔بہترشادی وہ ہے جس پرکم سے کم اخراجات آئیں۔راقم الحروف نے شادی بیاہ کی فضول رسموں، فریقین کے بے جامطالبات اور بھاری اخراجات کوختم کرنے اورمسلمانوںکواسلامی تعلیمات کے مطابق شادی بیاہ کے معاملات سے آگاہ کرنے کے لیے ” شادی آسان کرو تحریک ”شروع کردی ہے۔تمام مشائخ عظام، علماء کرام، سیاستدانوں، وکلائ، پروفیسرز، ٹیچرز، صحافیوں، کالم نویسوں، سماجی راہنمائوں ،مذہبی،سماجی تنظیموں اورمعاشرے کے دیگرسرکردہ طبقات و شخصیات کو دعوت ہے کہ وہ اس تحریک کے ممبربنیں اوراپنے اپنے دائرہ کارودائرہ اختیارمیں رہتے ہوئے مسلمانوں کوفضول رسموں ،بے جااخراجات اور بے جامطالبات کے بغیرخالصتاً اسلامی تعلیمات کے مطابق شادی بیاہ کرنے کی ترغیب دلائیں۔کیونکہ یہ تحریک شادی بیاہ کے اخراجات کوکم کرنے کے لیے بنائی گئی ہے ا س لیے اس تحریک پربھی کم سے کم اخراجات کیے جائیں گے۔
شادی آسان کروتحریک کی ممبرشپ فری ہے۔راقم الحروف کے آرٹیکل کیونکہ ملک بھربلکہ بیرون ملک بھی پڑھے جاتے ہیں۔ اس لیے تمام پاکستانی مسلمانوں کودعوت ہے کہ اس تحریک کے ممبربنیں۔پھرلکھ رہاہوںکہ ممبرشپ کی کوئی فیس نہیںہے۔ممبربننے کے لیے اپنانام ،ولدیت،قوم،پتہ، شعبہ، ذمہ داری،سماجی خدمات اگرہوں سادہ کاغذپرلکھ کربذریعہ ڈاک یاکوریئرسروس اس پتہ پربھیج دیں ” محمدصدیق پرہار ساحل فوٹو سٹوڈیو نزدریلوے پھاٹک چوبارہ روڈ لیہ۔خط میںیہ بھی لکھیں کہ اس تحریک میں آپ کیاکرداراداکرسکتے ہیں اورتحریک کوکس طرح کامیاب بنایا جا سکتاہے۔موبائل پرمیسج بھی کرسکتے ہیں نمبرہے ٠٣٠٦٧٩٩٩١٥٥،اس سلسلہ میں راقم الحروف کی تحقیق جاری ہے۔اس تحقیق سے مناسب وقت پرممبران اورقارئین کوآگاہ کیاجاتارہے گا۔مناسب وقت پرتحریک کی تنظیم سازی بھی کی جائے گی۔