آئیے نکاح آسان بنائیں

Nikah

Nikah

تحریر : عارف رمضان جتوئی

تیزی سے بیتتے وقت، گرتی، پھسلتی ، سنبھلتی اور سہارے لیتی اور ڈھلتی جوانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سرپرستوں کو بچوں کی جلدی اور وقت پر شادی کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جانے آپ کی کل ہو یا نہ مگر آپ اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ ویسے بھی دیر کس بات کی اور تاخیر کیوں کرنی جب بچے جوان ہوچکے ہیں تو ان کے ہاتھ پاﺅں پیلے کردینے چاہئیں۔ شادی کے معاملے پر جب بھی بات ہو تو جواب ملتا ہے یہ کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑے مسائل ہیں جن کو دیکھ کر آگے بڑھا جاتا ہے۔ آئیے ان مسائل پر بات کرتے ہیں۔ آخر کن وجوہات کی بنا پر شادیاں تاخیر کا شکار ہیں اور ان کا حل کیا ہونا چاہیے۔

شادی میں رکاوٹ کی پہلی وجہ مناسب رشتہ نہ ملنا ہے
بہتر سے بہتر رشتے کی تلاش سب کو ہوتی ہے اور یہ اچھی بات بھی ہے ،مناسب رشتہ مل جائے تو یقینا یہ اللہ پاک کا خاص کرم ہے۔ اگر رشتہ آپ کی عین سوچ کے مطابق نہیں بھی مل رہا تو کچھ خصوصیات کی کمی و بیشی کے ساتھ قبول کرلینا چاہیے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اور رشتہ نہیں ملے گا بلکہ وقت پر مل گیا یہ اچھا ہے۔ اللہ نے نصیب اچھے کرنے ہیں آپ بس اونٹ کی ٹانگ باندھیے۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ بالکل معمولی سی بات پر اچھے خاصے رشتے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ سوچیں اللہ نہ کرے اگر آپ کے پاس مختصر سا وقت ہو اور آپ کو اپنے بچے کی شادی کرنے ہو تو یقینا آپ کچھ ہی لمحوں میں ایسے رشتے کو قبول کرلیں گے وجہ یہ کہ تب آپ کے لیے وہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوگا مگر اب چونکہ آپ کو لگتا ہے آپ کے پاس بہت وقت تو ہے خواہ مخواہ کیڑے نکالتے جائیں اور رشتے سے انکار کردیں۔ رشتوں کے معاملات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبولیت والی سوچ رکھیں۔ ترجیح لینے دینے والی ہونی چاہیے نہ کہ ونڈو شاپنگ کے ارادے سے نکلے ہوں۔

شادی میں دوسرا اہم مسئلہ اخراجات کا ہے۔ اخراجات آپ کے اپنے اختیار میں ہیں۔ بڑھاتے جائیں تو بڑھتے جائیں گے۔ اگر کلچ دبا لیں بریک لگ جائے گی۔ دل تو بہت کچھ چاہتا ہے، حسرتیں بھی بہت ہوتی ہیں، ارمان ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتے مگر ان کے ساتھ زندگی الجھتی چلے جائے گی نہ کہ سلجھے گی۔ اس لیے ان خواہشات کو بڑھانے کے بجائے ”اینف“ بولیں اور میسر وسائل کے ساتھ مسائل کا حل نکالیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق جو ہے کریں کون کیا کہے گا اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ فرق پڑنا چاہیے تو اس بات سے کہ اگر آپ نے وقت پر شادی نہ کی اور آپ کے بچے نے کچھ غلط کردیا تب کیا ہوگیا اور کون ذمے دار ہوگا۔
ہم نے کئی بہترین ولیمے دیکھے مگر پھر بھی لوگوں نے اعتراض ہی کیا۔ لوگ کب خوش ہونے والے ہیں۔ لوگوں کی کسی بھی معاملے میں فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ باتیں تو ہونی ہیںوہ ہوتی رہیں گی، چاولوں میں بوٹی ہو یا چنے اعتراضات کبھی ختم نہیں ہوتے۔ آپ کو فکر اپنے اخراجات کی کرنی ہے نہ کہ لوگوں کی باتوں اور دکھلاوے کی ۔

جہیز جیسی لعنت بھی اس وقت شادیوں کے معاملات میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ بیٹی کے جہیز کی وجہ سے بعض اوقات کئی سال شادی کا معاملا لٹکا رہتا ہے۔ جہیز آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ آپ لازمی نہیں گھر بھر کر دیں۔ آپ کے پاس جو ہے وہی دے دیں۔ چار برتن دو کپڑے اور ایک بیگ بھی بہت ہے۔ الیکٹرونکس سے لے کر فرنیچر تک بائیک سے لے گھر، فلیٹ اور گاڑی تک یہ سب ایسی چیزیں ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ مرد کی ذمے داری دینا لڑکی کیوں دے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ایک مرد یعنی شوہر کیسے گوارہ کرتا ہے کہ وہ اپنے پیسے کے پلنگ کے بجائے بیوی کے والدین کے دیے گئے پلنگ پر سوئے۔ بیوی کو دیا گیا ٹی وی دیکھے اسی کے فریزر سے ٹھنڈا پانی پیے اسی کو ملی گاڑی پر گھومے۔ ایک باغیرت مرد کبھی یہ سب نہیں کرسکتا۔ تو یہ سب اپنی حیثیت میں رہ کر کیجیے اور بعد میں بھی دیتے رہیے کونسا منع ہے۔

ایک اہم مسئلہ لڑکے کا اپنے قدموں پر کھڑے ہونا یا بیٹی کا تعلیم مکمل کرنا بھی ہے۔ دونوں کے لیے دونوں چیزیں بہت اہم ہیں لیکن شادی بھی اسی طرح اہم ہے۔ تو ان دونوں باتوں میں درمیانی راہ نکالی جانی چاہیے۔ تعلیم کو ایک خاص مقام پر روک کر شادی کردی جائے اور پھر سے جاری رکھا جائے۔ اسی طرح سے لڑکے کو خاص عمر کے گزرتے ہی یہ احساس دلایا جائے کہ وہ اب اپنی ذمے داریاں خود اٹھائے جب شادی کی عمر ہوگی وہ یقینا اس فریضے کو باخوبی سرانجام دینے کے لیے تیار ہوگا۔ اسے پتا ہونا چاہیے دال چینی کے بہاﺅ کیا چل رہے ہیں اور کیسے ان کو پورا کیا جاتا ہے۔ اپنے بچوں کو پیراشوٹر مت بنائیے کہ وہ دنیا کے لیے اجنبی ثابت ہوں۔ انہیں 15 سال کی عمر میں گھر کی ذمے داری کا احساس دلا دیا جائے تو 21 سال کی عمر میں وہ گھر چلانے کے قابل ہوں گے۔

دیکھا جائے تو 80 فیصد شادیوں میں رکاوٹ ہمارے بزرگ طبقے کی سوچ یا نظریات ہوتی ہے۔ وہ اپنی جگہ درست سوچتے ہیں اور دور اندیشی بھی ہوتی ہے مگر کہیں تھوڑا سا توجہ کریں تو دور اندیشی اے زیادہ انا آڑے ہوتی ہے۔ ان کی میں یا ناک مسئلہ بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس پر تھوڑا سا نرمی کی پالیسی اپنائیے۔ آپ کی لچک سے اگر زندگیوں میں آسودگی آجاتی ہے تو ممکن ہے بعد میں آپ کو اعتراض نہیں ہو۔ شادی کو آسان بنائیے ورنہ سچی بات تو یہ ہے سوشل میڈیا پر دعوت گناہ اور سیاہ کاری ہر دوسرے لمحے میسر ہے۔ محفوظ جگہ چند روپے اور آپ کی نسل کا دامن ہمیشہ کے لیے داغدار ہوجائے گا۔

یاد رکھیے شیطانی خیالات انسان کے جسم پر ہر وقت حاوی رہتے ہیں۔ گناہ کے لیے کسی بھی وقت آمادہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ آپ کی تربیت پر شک نہیں پر شیطان بہت خطرناک ہے کچھ بھی کرسکتا ہے۔

شادی میں رکاوٹ کی کئی دیگر وجوہات ہوسکتی ہیں۔ طے آپ کو کرنا ہے کہ ان مسائل کو حل کیسے کیا جائے۔ ہر مسئلے کا ہوتا ہے۔ آپ نے طے کرلیا کہ شادی کرنی ہے تو اسباب خالق کائنات نے پیدا کر دینے ہیں۔ مسائل سے بھاگنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے حل نکالنا ہوگا اور وہ کوئی باہر سے آکر نہیں نکالے گا۔ مسئلے کا حل بھی آپ کو ہی نکالنا ہے۔ اللہ آپ کے لیے آسانی پیدا فرمائے۔دعاﺅں کے ساتھ ساتھ اپنے مسائل کے لیے تگ و دو بھی جاری رکھیں۔ معاشرتی برائیوں اور اپنے بچوں کی تربیت کو بہتر بنانے کے لیے شادیوں کا وقت پر ہونا بہت ضروری ہے۔ اس پر خصوصی توجہ دیں تاکہ قبل اس کے دیر ہوجائے آپ اپنی ذمے داری ادا کرچکے ہوں۔

Arif Jatoi

Arif Jatoi

تحریر : عارف رمضان جتوئی