اللہ تعالی کی طرف سے انسان و حیوان میں ایک صفت جنسی سکون و راحت کا حاصل کرنا ودیعت کردی گئی ہے۔اس کا بدیہی ثمرہ ہے کہ انسان و حیوان اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل کے لئے مصروف عمل ہوجاتے ہیں بصورت دیگر ان جنسی ضروریات کی عدم تکمیل سے چڑچڑا پن،اور انگنت بیماریوں کیے لاحق ہوجانے کا سخت اندیشہ پیدا ہوجاتاہے۔ایسے میں حیوان چوں کہ عقل و خرد سے تہی دامن ہیں اور ان کو اپنے زندگی آزادانہ طورپر بسر کرنی ہوتی ہے تو وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کرنے میں بھی آزاد ہیں کوئی قانونی و شرعی گرفت ان پر نہیں ۔تاہم انسان چونکہ خیر و شر کا مجموعہ اور اس کے اختیار کرنے پر جزاء و سزاء کا مستحق ہے تو لازم ہے اس کو اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے قاعدہ و قانون کا پابند بنادیا جائے۔اسی لئے اسلام نے رشتہ ازدواجیت کو اختیار کرنے کی اجازت دی تاکہ انسان ذہنی و جسمانی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے ساتھ جانوروں کی طرح ہر جگہ منہ مارنے سے باز رہے۔نکاح و شادی ایک مقدس رشتہ ہے جس کو اسلام نے اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔
بدقسمتی سے لکھنا پڑ رہاہے کہ وائس آف امریکہ اور بی بی سی اور دیگر عالمی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں شادی سے محروم ہیں،ان میں دس لاکھ کے قریب شادی کی عمر ختم کرچکی ہیں اور چالیس لاکھ کے قریب بیوائیں اور طلاق یافتہ ہیں جن کی دوبارہ شادی نہیں ہوپارہی۔اس خبر کو پڑھ کر ہر ذی شعور انسان لرز اٹھتا ہے کہ اس کے گردو پیش میں یہ گناہ عظیم ہوررہاہے ۔اس کی وجوہات و اسباب کی تلاش اور حل ک جانب پیش رفت و متنبہ کرنے کی ضرورت ہے۔اسی سلسلہ میں یہ تحریر مرتب کی گئی ہے کہ” شادی اور اس کے شرعی تقاضے” ۔بدقسمتی کی بات ہے کہ برصغیر میں شادی کے معاملہ میں جاہلانہ رسوم و رواج کو اختیار کرکے بے جاسختی و پابندی اور شرائط کو اختیار کرلیا گیاہے اور اسی کے ساتھ ہی مغرب کی دیکھا دیکھی شادی کو ایک لذت پسندی کا ذریعہ سمجھنے کے ساتھ وقتی تعلق گردان لیا گیا ہے کہ من چاہے تو شادی کرلی جائے اور من چاہے تو بیوی کو چھوڑ دیا جائے ،مرد و عورت باوجود عقد نکاح میں بندھ جانے کے ایک دوسرے سے مادی تعلق استوار رکھتے ہیں قلبی و روحی تعلق سے تہی دامن رہ جاتے ہیں۔ان امور کی وجہ سے معاشرے میں شادی کی بجائے تجرد پسندانہ(انفرادی)زندگی کو پسند کرلیا گیاہے یا پھر حرام طریقوں کو اختیار کرکے اپنی خواہشات کی تکمیل کا انتظام کیا جاتاہے جس کے باعث لڑکا و لڑکی کے ساتھ اس کے والدین،علماء و مشائخ،حکمران،عدلیہ و میڈیااورمعاشرے کے ذمہ دار افراد و طبقہ سب کے سب گناہ گارہونے کی وجہ سے عنداللہ سزاوار و جوابدہ ہونگے۔
شادی کو مسلم معاشروں میں آسان کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شادی و نکاح کا نام سن کر لڑکا و لڑکی پر پتھر گرنے کی بجائے اطمینان کا احساس پیدا ہو۔پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں حیا سوز اشتہارات و ٹی وی پروگرام کو بند کیا جائے۔شادی شدہ افراد کے باعزت روزگار کی دستیابی یقینی بنائی جائے اور شادی کے شرعی تقاضوں کو اجاگر کرنے کے لئے علماء و مشائخ کو اپنا کردار اداکرنا چاہیے کہ وہ شادی کو آسان بنانے کے اسلامی اصولوں سے معاشرے کو روشناس کرانے کے ساتھ تجرد پسندانہ زندگی بسر کرنے اور طلا ق خلع کورواج دینے،ہواہوس کی تکمیل کے لئے شادی کرنے کی مذمت کو لوگوں پر واضح کریں۔مردوعورت پر باہمی حقوق و فرائض کو عدل و انصاف کے ساتھ بیان کیا جائے نہ کہ افراط و تفریط سے کام لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی من چاہی تفسیر بیان کی جائے۔ حسب ذیل میں انہی امور پر موجز گفتگو کی جارہی ہے۔دعاہے رب تعالیٰ ہمارے مسلم معاشروں کو قرآن و سنت کے مطابق پرمسرت زندگی بسر کرنے کی سعادت عنایت فرمائے۔آمین
فطرت انسانی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو تخلیق فرمانے کے بعد ان کی بائیں پسلی سے حضرت اماں حوا سلام اللہ علیہا کو پیدا فرمایا۔اس کے بعد حضرت آدم اور حضرت حواکے باہمی تعلق سے انسانیت کی توافزائش نسل سلسلہ کا آغاز ہوا۔یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور تاقیامت سلسلہ یونہی جاری و ساری رہے گا کہ عزت و عظمت کے ساتھ مردو عورت کا تعلق استوار ہو باہم رشتہ ازدواجیت میں مرتبط ہوجائیں اور ان سے نوع انسانی کی پیدائش کا سلسلہ جاری و ساری رہے۔یوم حساب کے دن سب انسانوں کو اپنے اعمالنامے تھمائے جائیں گے اور نیک و کار فرحت و سرور کے ساتھ جنت کے اعلیٰ علیین میں حوروں کے ساتھ استراحت بخش زندگی بسر کرینگے۔
منکرات سے بچنے کا اساسی ذریعہ
انسان و جانور کی سرشت میں جنسی تعلق کو قائم رکھنے کی صلاحیت ودیعت کردی گئی ہے جس کی وجہ سے ہر مذکر و مونث ایک دوسرے کی جانب ملتفت ہوتے ہیں تو انسانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ باہمی تعلق کو قائم کرنے کے لئے شرعی طریقہ نکاح کو رواج دیا گیا ہے۔اسلام نے خواہشات انسانی کو جائزطریقہ سے استعمال کرنے کے لئے شادی و نکاح کا حکم دیا ہے برخلاف اس کے کسی بھی طور پر جنسی تعلق قائم کرنے یا نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کو حرام قراردیا گیا ہے۔جانوروں اور انسانوں میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ انسان کے لئے حدبندی کردی گئی ہے اور جانور اس کے برعکس اپنی جنسی تسکین پوری کرنے میں آزادہیں ۔تاہم انسانوں کو ایسے تمام منکرات سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔کبیرہ گناہوں سے محفوظ رہنے کا اہم ترین ذریعہ شادی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شادی کرنے والے کے آدھے ایمان کے مکمل ہوجانے کی شہادت دی گئی ہے۔
نکاح کی اہمیت و ضرورت نکاح کی اہمیت و ضرورت مسلم ہے ۔ مردو عورت کو اگر جائز ذرائع سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جائے گا تو اس کا بدیہی نتیجہ یہ ظاہر ہوتاہے کہ معاشرہ کے افراد مادر پدر آزاد ہوکر اباحیت پسندانہ زندگی کو اختیار کرلیں گے جس کے باعث مسلمان مردو عورت کی زندگی دارین کی قعرمذلت بن جاتی ہیسورت نساء میںاللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بیک وقت چار عورتوں سے انسان نکاح کرسکتاہے تاکہ انسان اپنی نفسانی و جنسی راحت و سرور کاطبعی و شرعی انتظام کرسکے۔حضوراکرمۖ نے فرمایا ہے کہ نکاح میری سنت ہے جس نے اس سے اعراض کیا وہ ہم میں سے نہیں۔اسلام نے جہاں پر مرد کو چار شادیوں کی اجازت دی ہے وہاں پر اس امر کو بھی لازم قراردیا کہ ماسوائے فطرتی محبت و میلان کے خاونداپنی بیویوں میں برابری و انصاف کو قائم رکھے گا۔اگر وہ اس پر قدرت نہیں رکھتا تو وہ شادیاں کرنے سے باز آجائے چونکہ حقوق العباد میں کمی بیشی کرنے والے کی معافی نہیں۔نکاح کے مختلف مدارج ہیں فرض،سنت،مباح اور حرام۔یعنی جب انسان جنسی رغبت کا احساس رکھتا ہواور وہ نان نفقہ کا انتظام بھی کرسکتاہواس کے لئے شادی فرض و مسنون ہے اور جب انسان جنسی رغبت کا احساس نہ رکھتاہواور نان و نفقہ دینے سے بھی عاجز ہوتو ایسی صورت میں شادی حرام ہوجاتی ہے۔
نکاح کی شرائط نکاح نبی رحمتۖ کی سنت ہے۔نکاح کی شرائط میں سے ہے کہ مردو عورت جاہ و منصب اور مقام و شرف اور مالداری کے اعتبار سے ہم پلہ وبرابر ہوں ۔زوجین میں عمر کی تفاوت کوئی معنی نہیں رکھتی تاہم نوجوان لڑکاو لڑکی کا نکاح کرنا بہتر ہے۔رسول اللہۖ نے فرمایا ہے کہ رشتہ کرتے وقت عورت کے خاندانی پس منظر،اس کاحسن اور اس کی سیر ت(دینداری)اور اس کی مالداری وغیرہ کو دیکھاجائے تاہم افضل و بہتریہ ہے کہ انسان بہتر سیرت والی عورت سے نکاح کرے۔نکاح کے لئے ضروری ہے کہ ایجاب و قبول ہو،شادی کے گواہ موجود ہوں،مہر نکاح اداکیا جائے۔خطبہ نکاح بھی پڑھنا مسنون ہے۔مردوعورت عاقل و بالغ ہوں۔کنواری سے شادی کرنا افضل ہے۔ مطلقہ و بیوہ سے شادی کرنا مسنون عمل ہے البتہ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے لکھا ہے ثیبہ(بیوہ و مطلقہ) سے رشتہ استوار کرتے وقت حضر(احتیاط) سے کام لیا جائے کیونکہ وہ عیار ہوتی ہیں۔سورت طلاق میں ارشاد جل شانہ ہے کہ مرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ مالداری کی صورت میں کشادہ دلی اور غربت کی حالت میں حسب استطاعت نان نفقہ اداکرنے پر قادر ہو اورجنسی طورپر رشتہ کے قیام کا احساس و ادراک اور صلاحیت کا بھی حامل ہو۔شادی کے سلسلہ میں ایک قبیح رسم یہ بھی ہے کہ خاندان و قوم سے باہر رشتہ نہ کیا جائے کہ وہ ہمارے ہم پلہ نہیں یا پھر ہماری دولت دوسرے خاندان منتقل ہوجائے گی،اس رواج کا اسلام میں کوئی جواز نہیں کہ اس سے خاندان کی وجاہت و شرف کم ہوتی ہے ،جبکہ اسلام نے عربی و عجمی، کالے و گورے کے درمیان سب تفریق کو ختم کردیاہے ،فضیلت و احترام اسی کو ملے گا جو متقی و پرہیزگار ہوگا۔اس کے بجز تمام باتیں وہ جہیزکی طلبی، وٹہ سٹہ،سونا اور مالیت و اراضی کا پیشگی یا پھر بوجہ اختلاف و ناراضگی طلب کرنے کی شرائط رکھنا خلاف اسلام ہیں۔بہت سے خاندان رشتے کے قائم کرنے پر اس طرح کی بدی پر مبنی شرائط عائد کرکے اس رشتہ کے تقدس و بنیاد میں رخنہ اندازی کرتے ہیں۔
دوافراد نہیں دوخاندانوں کا ملاپ نکاح کی شرائط اور استطاعت رکھنے کی صورت میں رشتہ جب قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا جائے تو لازم ہے کہ زوجین اس بات کو صدق دل سے تسلیم کرلیں کہ اب یہ رشتہ صرف دوافراد کے درمیان قائم نہیں ہورہابلکہ لڑکا اور لڑکی کے خاندان بالخصوص قریبی رشتہ دار بہن بھائی،ساس سر وغیرہ کا باہم احترام کرنااور ان کی خدمت کرنا ضروری ہے۔میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے عزیز و اقارب کی دلجوئی کا انتظام کرنا چاہیے اور مرد یا عورت کی جانب سے عزیز و اقارب سے قطع تعلقی یا دوری اختیار کرنے کی تلقین یا تعویذ وغیرہ کا استعمال شرعاً حرام ہے۔اللہ تعالیٰ قطع رحمی کرنے والوں کو معاف نہیں فرماتا یہاں تک کہ وہ صدق دل سے توبہ کرلے۔مردو عورت پر لازم ہے کہ بہن بھائیوںاور ساس سسر کی دلجمعی کے ساتھ خدمت کرکے اپنے زوج کی محبت کو سمیٹ لے۔
والدین و بیوی میں اعتدال شادی کرنے والے جوڑے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام اور ادب و خدمت کرنے کے ساتھ والدین کی مراعت کا بھی انتظام کریں۔والدین کے لئے بیوی سے بدمعاملگی یا بیوی کی خاطر والدین سے قطع تعلقی و بے رخی اختیار کرنے کو اسلام نے کسی صورت قبول نہیں کیا۔حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص کو رسول اللہۖ نے نصیحت کی تھی کہ ہر حقدار کو اس کا حق پہنچادو یہاں تک خود انسان پر اپنی جان کا بھی حق ہے۔والدین کی دلجوئی و قدردانی اس لئے ضروری ہے کہ انہوں نے اپنا سب کچھ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خرچ کردیا اور بالغ ہونے پر اس کے نکاح کا انتظام کیا۔اوراب شعورکی عمر کو پہنچ جانے کے بعد انسان کے لئے ضروری ہے کہ ضعیفی کی حالت میں والدین کی خدمت میں تغافل پسندی سے کام نہ لے بلکہ ہر آن ان کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔قرآن کریم میں والدین سے حسن سلوک کی متعدد بار تلقین کی گئی ہے۔بیوی کے حقوق کی حفاظت کرنا اس لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا گھر بار قربان کرکے خاوند کے ساتھ رہنے پر راضی ہوجاتی ہے۔اور خوشی و غمی ہرحالت میں خاوند کی رفیق بننے پر راضی ہوجاتی ہے۔قرآن کریم میں مردو عورت کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کہ ان کو ایک دوسرے سے جدانہیں کیا جاسکتا۔لہذا والدین کی جانب سے بیوی کے ساتھ برابرتائوکی تلقین یا بیوی کی جانب سے والدین سے دوررہنے کا کہنا شرعاً حرام و ناجائز ہے۔
کسب معاش کی ذمہ داری اسلام نے مردکو اس بات کا پابندبنایا ہے کہ وہ مالدار ہونے کی صورت میں کشادہ دلی کے ساتھ اہل و عیال پر خرچ کرے اور وہ بیوی بچوں کے طعام و شراب اور لباس اور تعلیم و تربیت کا بہتر انتظام کرے۔تاہم فقیری و غربت کی حالت میں حسب استطاعت نان نفقہ دینے کا مرد کو حکم دیا گیاہے(سورت طلاق)۔یہاں ایک اہم پہلوکی جانب نظر ملتفت کرنا ضروری ہے کہ مردکے رزق میں وسعت و تنگی میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ یہ اللہ جل شانہ کا امر ہے کہ جس انسان کو مالدار اور جس کو غریب بنادے اس پر انسان ماسوائے محنت و جدوجہد اور دعامناجات کے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔اسی طرح رزق کی فراوانی بیوی کی قسمت و نصیب سے بھی مرتبط ہے۔لہذا باوجود محنت و مشقت کے اگر انسان کے رزق میں وسعت پیدا نہیں ہوتی تو اس پر شکوہ بلب ہونے کی بجائے صبرکیا جائے اور اللہ تعالیٰ سے استعانت کی دعاکا اہتمام کیا جائے۔اور رزق صرف مال و دولت کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی میں سکون کا میسر آجانا ،اولاد کا مطیع ہونا اور اللہ کی رضا کا حاصل ہوجانابہترین رزق میں سے ہے۔اللہ تعالیٰ کا بین ارشاد ہے جو شکر اداکرتاہے اس کے رزق میں اضافہ کیا جاتاہے اور جو ناشکری و شکوہ بلب رہتاہے اس کو دردناک عذاب دیا جائے گا۔
امور خانہ کی ذمہ داری بیوی کے فرض منصبی میں سے یہ ہے کہ وہ گھر میں رہ کر افزائش نسل،اولاد کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر اپنی صلاحیت کو صرف کرے اور امور خانہ کے جملہ امور کی انجام دہی کرے۔موجودہ انسانی معاشرہ میں فطرت کے اصولوں سے انحراف کرلیا گیا ہے اور کچھ معاشی و معاشرتی حدود و قیود کو اس انداز سے مرتب کرلیاگیا ہے کہ مرد سے اولاد کی پرورش اور عورت سے اخراجات کی تکمیل کرائی جاتی ہے جوکہ مستحسن و مطلوبامر نہیں ۔تاہم میاں بیوی کا برضاورغبت باہم ایک دوسرے کے کام میں حسب استطاعت معاونت کرنا جائز ہے اور سنت رسول اللہۖ بھی ۔ خود ہادی عالمۖ امہات المئومنین کاامور خانہ داری میں ہاتھ بٹاتے تھے۔اس سے کسی بھی مرد کی شان میں کمی واقع نہیں ہوتی اور اس طرح عورت اگرگھر کے اخراجات میں شراکت داری یا انتظام سنبھالتی ہے تو اس پر بھی لازم ہے کہ وہ خاوند پر اپنی مالداری کا رعب قائم کرنے کی بجائے سنت ام المئومنین حضرت خدیجہ کو اختیار کرے۔انہوں نے باجود مکہ کی امیر ترین عورت ہونے کہ اپنا سب کچھ آقائے دوعالمۖ کے قدموں پر نثار کردیا۔مکہ کے مشکل ترین دور میں سفر و حضر اور تنگی و کشادگی میں آپۖ کے ساتھ معاونت کرتی رہی ہیں۔
تربیت اولاد اولاد کی تربیت کا انتظام کرنا مردو عورت دونوں پر لازم ہے البتہ جنس کے اختلاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے مرد بیٹوں اور عورت بیٹیوں کی تربیت کا انتظام کرنے کی ذمہ دارہے۔اولاد کی تربیت کا اہتمام اس لئے کرنا ضروری ہے کہ کل یہی نسل نوجوان ہوکر معاشرے کے دھارے میں شامل ہوگی تو اس کی اچھائی اور برائی کا اثر اس کے والدین کی نیک نامی یا بدنامی کی صورت میں ظاہر ہونے کے ساتھ آخرت میں بھی اجر و زجر کا سبب بنے گی۔حدیث نبویۖ ہے کہ انسان اپنی اولاد کا نگران ہے اوراس سے اس کی اولاد کے بارے میں استفسار کیا جائے گا۔یعنی والدین سے اولاد کے بارے میں اساتذہ سے طلبہ کے بارے میں اور حکمران سے رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ ایسے گھروں میں جہاں پر والد سے زیادہ ماں کی آمدنی ہے اور وہ بچوں کی جائز و ناجائز خواہشات(ٹی وی،موبائل ،کمپیوٹر،لیپ ٹاپ،فحش لباسی وغیرہ) پر روک نہیں لگاتی بلکہ خاوند کے منع کرنے پر خود خاوند کو معتوب و تشددکا نشانہ بناتی ہے تو یقیناً اس گھرکی تباہی و بربادی اس کا مقدر ٹھہر چکی ہے،الا ماشاء اللہ۔
اولاد مرد کا نصیب انسان رشتہ ازدواج میں اس لئے بھی منسلک ہوتاہے کہ وہ شادی کرنے کے بعد اولادنرینہ کا خواہشمند ہوتاہے۔نیک اولاد انسان کے لے بہترین صدقہ جاریہ ہے ۔ حدیث نبویۖ کا مفہوم ہے کہ انسان کے دنیا سے چلے جانے پر بھی اس کو اجرو ثواب ملتارہتاہے،جب وہ نیک و صالح اولاد چھوڑجائے یا پھر انسان صدقہ و خیرات کا اہتمام کرجائے اور علم حاصل کرکے اس کو دوسروں میں منتقل کرجائے۔قرآن کریم میں اللہ جل شانہ کا فرمان ہے کہ چاہے تو مذکر دے اور چاہے تو مئونث اور چاہے تو دونوں دے دے اور چاہے تو کچھ بھی نہ دے یعنی بانجھ پن کا شکار ہوجائیں مردو عورت۔یہاں اس بات کو پیش نظر ضرور رکھنا چاہیے کہ اولاد مرد کا نصیب ہے اور باوجودزوجین کے علاج و دعاکے اولاد نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو معتوب ٹھہرانا کسی صورت درست نہیں۔البتہ بیماری کے دور نہ ہونے کے یقین کے بعد دوسری شادی کرلینے میں مضائقہ نہیں۔لیکن بیوی کو طعن و تشنیع یا بازاری زبان سے تکلیف دینے کو اسلام نے قبول نہیں کیا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اولاد کا نہ ہونا یہ امر ربی ہے اور حکم الٰہی پر کسی انسان کو سزا دینا جائز نہیں۔بلکہ اللہ تعالیٰ سے رجوع اور انابت اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مال و دولت عورت کا مقدر ماسبق میں بیان کیا گیا ہے کہ نان نفقہ کی ادائیگی مرد کی ذمہ داری ہے ۔تاہم مال و دولت میں کمی بیشی یہ انسان کے اختیار میں نہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا ارشاد فرمایا ہے کہ جسے چاہوں رزق میں وسعت عطاکروں اورجس پر چاہوں معیشت تنگ کردوں ۔چنانچہ ایسے میں حاصل شدہ رزق پر شکر اور کمی پر صبر سے کام لینے کے ساتھ رجوع الی اللہ کا اہتمام کیا جائے۔ رسول اللہۖ کے پاس ایک صحابی نے غربت کی شکایت کی تو آپۖ نے اس کو نکاح کا حکم دیا ،پھر شکایت کی تو پھر نکاح کا حکم دیا اور پھر تیسری مرتبہ شکایت کی تو آپۖ نے پھر شادی کا حکم دیا اور بلآخر تیسری شادی کے بعد اس کے رزق میں وسعت پیدا ہوئی۔اسی بناپر دانابزرگوں کا کہنا ہے کہ مرد کا مالدار ہونا یہ عورت کے نصیب و بخت سے ہے۔چنانچہ مرد کی جانب سے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے عورت کو کوسنا اور عورت کی جانب سے غربت و افلاس پر مرد کو کوسنا اور معتوب کرنا محبوب و مقبول امر نہیں۔البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ مرد کے پاس اگر مال و دوولت کی فراونی ہے اور وہ بخل یا بدی کے امور میں خرچ کرتاہے یا پھر وہ رزق کو تلاش نہیں کرتا تو اس پر ضرور مرد کا مواخذہ ہوگا۔
طلاق و خلع کے اسباب موجودہ انسانی معاشرے میں بے اعتدالیوں کی اس قدر فراوانی ہوچکی ہے کہ الامان والحفیظ۔یہاں تک کہ جائز راستوں اور طریقوں کو یاتو اختیار کرنے میں تامل کیا جاتاہے یا پھر اختیار کرنے کے بعد معمولی باتوں پر دوری اختیار کرلی جاتی ہے۔ایسے ہی ایک نیک و جائز کام نکاح کرنا بھی ہے۔ مسلم معاشرے میں مغربی معاشرے میں نکاح کو مذاق بنالیا گیا ہے جبکہ مسلم معاشرے میں نکاح کو مشکل ترکردیا گیا ہے ،اول تو اس کو رواج نہیں دیا جاتاہے اور جہاں کہیں شادی بیاہ کا تعلق قائم ہوجاتاہے تو وہاں پر طلاق اور خلع کی تلوار لٹک جاتی ہے۔ماسبق میں بیان ہوچکاہے کہ حال ہی کے سروے کے مطابق چالیس لاکھ کے قریب خواتین مطلقہ اور بیوہ پاکستان میں موجود ہیں جن کی شادیاں اب نہیں ہورہی۔
طلاق و خلع کی اسلام نے باامر مجبوری اجازت دی ہے اور اس کو حلال چیزوں میں سے اللہ کے نزدیک سب سے مبغوض و ناپسندیدہ قراردیا گیاہے اور میاں بیوی کے درمیان دوری پر شیطان لعین خوش ہوتاہے۔طلاق و خلع کے واقع ہونے کے یوں تو بہت سے اسباب و علل ہیں ۔جدیددور میں ٹی وی پروگرام،موبائل اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں بے اعتدالی کی وجہ سے رشتوں کی قدر کا عنصر مفقود ہوگیاہے اور بے جاتوقعات و مطالبات ،والدین و بیوی کی جانب سے غیر شرعی تقاضے وغیرہ طلاق و خلع کا موجب ہیں۔رسول اللہۖ کا ارشاد ہے بلاوجہ یا معمولی بات پر طلاق مانگنے والی عورت جنت میں داخل ہونا تو درکنار جنت کی خوشبوبھی نہیں سونگھ سکے گی۔تاہم ان اسباب میں سے تین اہم سبب یہ بھی ہیں:
پہلا سبب:محبت،مغربی دنیاکی دیکھا دیکھی مسلم ملکوں میں بھی لڑکا اور لڑکی بذریعہ سوشل میڈیا یااختلاطی معاشرت جو کہ تعلیمی اداروں یا دفتروں میں کام کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کی بدولت دوستی و محبت کا تعلق استوار کرلیتے ہیں ،اول تو اس میں بات چیت تک سلسلہ محدود رہتاہے بعد ازاں یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوتاہے کہ خلاف شریعت و اخلاق حسنہ کے میل جول اور اباحیت تک بات بڑھ جاتی ہے،اسی طرح کورٹ میرج کو اختیار کرلیا جاتاہے،یا پھر من گھڑت جھوٹی و فرضی محبت کے جال میں گرفتار ہوکر والدین کو بلیک میل کرکے شادی کرلی جاتی ہے ۔ان سب صورتوں میں حقیقی محبت چونکہ مفقود ہوتی ہے صرف حسن انسانی یا پھر مال و دولت کی فراوانی اس کا موجب بنتی ہے جیسے ہیں مقدس رشتے کے تقاضوں کی ادائیگی کا وقت آتاہے یا پھر مقصد اصلی مال و دولت حاصل ہوجاتاہے تو یہ رشتہ سوئی کے دھاگے سے بھی جلدی ٹوٹ جاتاہے۔مثالوں سے وضاحت کی ضرورت نہیں ہمارے معاشرے میں اس طرح کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں۔
دوسرا سبب :وٹہ سٹہ،شرح طلاق میں زیادتی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ وٹہ سٹہ کی شادی ۔مطلب یہ ہے کہ رشتہ دیکر بدلہ میںرشتہ لیا جائے۔ایک ایسی قبیح رسم ہے جو مسلم معاشرے میں زور و شوار سے جاری ہے اس کے بجز رشتہ کرنے سے بہت سے لوگ پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔اس میں دولہا کی عمر،دولہن کی عمر کا لحاظ و پاس بھی نہیں رکھا جاتا۔کیونکہ جہلا کا یہ خیال ہوتاہے کہ ہم نے اپنی بیٹی کسی کورضاکارنہ طورپر عقد میں دیدی تو ہمارے بچوں کو بیٹی کون دیگا؟؟؟۔یہاں تک بسا اوقات باپ دوسری شادی کے لئے اپنی بیٹی کا وٹہ سٹہ کرتاہے۔اس سبب سے طے پانے والے رشتہ سے برکت اٹھ جاتی ہے اسلام میں اس کو جائز قرارنہیں دیا۔کیونکہ دونوں خاندانوں میں سے کسی ایک کی غلطی کی سزا دوسرا گھرخود بخود برداشت کرتاہے ،کہا یہ جاتاہے کہ اگر ہمارا بیٹا یا بیٹی خوش نہیں تو ہم ان کو کیسے سکون سے رہنے دیں۔چنانچہ معمولی اور نیچ باتوں کی وجہ سے شروع ہونے والا اختلاف طلاق و خلع پر منتج ہوتاہے۔جہالت کی اس بدترین رسم کے سبب بال بچوں کا مستقبل تاریک تر ہوجاتاہے ۔
تیسراسبب :لالچ،اسلام میں رشتہ داری کے قیام کے سلسلہ میں بین ہدایت دی ہے کہ شادی و نکاح کے وقت خاندان کی وجاہت و لیاقت اور مال و دولت اور سیرت و صورت کا جائزہ لے لینا چاہیے ۔ترجیح کے طورپر یہ حکم ہواہے کہ حسن سیرت والی اور کنواری کو رشتہ کے لئے پسند کیا جائے۔لڑکی والوں سے جہیز کی طلبی کی رسم عجمی ممالک میں مشہور ومعروف ہے اسلام نے لڑکی کے گھر والوں سے کچھ بھی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے حضور نبی اکرمۖ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی المرتضی سے طے کیا تو حضرت علی کی زرہ فروخت کرواکر ان سے حاصل شدہ رقم سے ضرورت کا سامان جہیز میں عنایت کیا۔نبی رحمتۖ کے اسوہ حسنہ سے ہمیں یہ معلوم ہوجاتاہے کہ لڑکی والوں نے جہیز نہیں دینا اور نہ ہی لڑکے والوں پر اس قدر بوجھ ڈالنا ہے(ماسوائے حق مہر کی ادائیگی،نان و نفقہ کے) کہ وہ بعد ازاں اس رشتہ میں فطرتی محبت و مودت کا احساس کرنے کی بجائے بیوی کو زرخرید نوکرانی سمجھ لے اور جس طرح چاہے اس کے ساتھ برامعاملہ روارکھے اوراس کی گرفت نہیں ہوسکتی۔اس طرح کی شادیوں میںلڑکا یا لڑکے والے گاہے بگاہے لڑکی والوں سے مال و دولت کی طلبی میں مصروف رہتے ہیںاور لڑکا کام کاج کی محنت سے جی چرالیتاہے کہ سسرالیوں سے اس کے گھر کا خرچ چل جائے گا۔اسی طرح لڑکا سونا و زمین یا رقم کے بدلہ میں حاصل ہونے والی بیوی کو عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھنے سے قاصر ہوجاتاہے بعدازاں اس مقدس رشتہ میں حرص و لالچ کی ہوس دراڑیں ڈالدیتی ہے جس کے نتیجہ میں طلاق و خلع واقع ہوجاتی ہے۔
مردکی جانب سے رشتہ ازدواجیت میں بے اعتدالی شادی شدہ مر دحضرات جب رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد بھی ان کی کوشش و جستجو ہوتی ہے کہ اس کی بیوی اس کی نوکرانی بن کرزندگی بسر کرے ،شام و سحر اس کی اطاعت گزار رہے اور اس کی ہر آواز پر بلا چوں چرا لبیک کہے۔امورخانہ داری تو اپنی جگہ مرد کی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل میں بھی ہمہ وقت تیار رہے۔بعض رشتے گھر والوں کے اصراریا سماج کی رسومات قبیحہ کی بنا پر قائم کرلیے جاتے ہیںلیکن انسان طبعاً اس کو قبول نہیں کرتاجس کے سبب وہ اپنی بیوی سے ازدواجی سلسلہ تو استوار کرلیتاہے مگر اس کا یہ تعلق صرف مباشرت تک قائم رہتاہے جبکہ بیوی کی دلجوئی و خدمت اور اس کی ضروریات و جذبات کا لحاظ و پاس رکھنا مفقود ہوجاتاہے یہاں تک کہ اولاد بھی ہوجاتی ہے مگر میاں بیوی میں محبت و عزت کا رشتہ مفقود رہتاہے یہ ظالمانہ و وحشیانہ حرکت ہے ،کسب معاش میں پس و پیش سے کام لینا،بیوی کو عزت و تکریم کی نگاہ سے محروم کرنا،اور معمولی بات پر جھگڑا کرنا،شراب و جوا اور امور فاسدہ میں مشغول ہونا وغیرہ جیسی وجوہات کی وجہ سے گھرکو آتش کدہ بنادیا جاتاہے۔
عورت کی جانب سے رشتہ کی بے توقیری عورت جب رشتہ ازدواج میں منسلک ہوجاتی ہے تو وہ اپنی ماسبق زندگی کو فروگذاشت کرکے اب خاوند کے گھرمیں دنیا جہاں کی سب آسائش و راحت حاصل کرنے کے درپے ہوجاتی ہے،طلاق یافتہ و بیوہ کو گذشتہ زندگی کی غلطی و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا موقع میسر آجاتاہے جب اس کا دوسرا عقد ہوجاتاہے،اس کو غنیمت جان لینا چاہیے نہ کہ ازدواجی زندگی کو قعر مذلت بنالے۔جو عورت برسرروزگار ہوتی ہے اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کا خاوند اس کا تابع فرمان ہوکر زندگی بسر کرے۔بعض عورتوں کی جانب سے اس قدر ترش مزاجی اختیار کی جاتی ہے کہ فطرتی طورپر مرد کی عزت نفس تک کو بھی مجروح کردیتی ہے۔اس سبب سے مرد و عورت میں دوریاں واقع ہوتی ہیں۔بعض اوقات مرد و عورت ایک دوسرے پر زبان کی درازی کے ساتھ ہاتھ بھی بڑھاتے ہیں یہ امر اس گھر کے تباہ ہونے کی طرف دلالت کرتاہے۔نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد کی ہے ،تغیرات وحوادث زمانہ کے سبب اگر عورت مال دار ہویاملازمت پیشہ تو اس کو خاوند کی ہمدردی و دلجوئی کرنی چاہیے نہ کہ متحکمانہ انداز اختیار کرکے زوج کو تکلیف و اذیت پہنچائی جائے،عورت کا مرد پر خرچ کرنا لازم نہیں اگر وہ امورخانہ داری میں شراکت داری کرتی ہے تو احسان جتلاکر اپنی نیکی کو خود ضائع کردیتی ہے اور مرد پر لازم ہے بحالت صحت و عافیت اول اپنے فرائض کی انجام دہی کرے اور اس کے ساتھ امور خانہ میں حسب استطاعت معاونت سے منہ نہ موڑے اور یہ سنت رسول اللہۖ سے ثابت ہے کہ آقائے دوعالمۖ امہات المئومنین کا امورخانہ میں ہاتھ بٹاتے تھے۔
انفرادی و معاشرتی زندگی کی طرح عائلی زندگی کو خوشگوار بنانے کے رہنما اصول قرآن کریم میں مردو عورت کو باہم ایک دوسرے کا لباس قراردیا ہے۔یعنی میاں بیوی کو جمیع امورزندگانی میں باہم معاونت و مساندات سے کام لینا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کی معمولی غلطیوں کو بنیاد بناکر زندگی کو مصنوعی مشاکل و گرداب میں ڈال دیا جائے۔میاں بیوی پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کی اچھائیوں کی جستجو کریں اور اچھے کام کی تعریف اور برائیوں کی چھان بین اور بے جا شک و شبہ سے احتراز کرنا چاہیے۔بشری تقاضوں سے جانبین میں سے کسی سے غلطی سرزد ہوجائے تو اول اس کو سدھارنے کی سعی کی جائے ،بستر کی علیحدگی کے ذریعہ غصہ کو نرم کرنے کی کوشش کی جائے۔میاں بیوی میں جھگڑا کے وقت شیطان خوش ہوتاہے اور وہ اس آگ کو مزید بھڑکاتاہے ایسے میں سمجھداری کا تقاضہ ہے دونوں میں سے ایک دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کرلییاد رہے میاں بیوی کے درمیان ایک دوسرے سے الگ رہنے کی معاشی و کاروباری یا کسی بھی وجہ سے الگ الگ رہتے ہوں تو اس کی مدت شریعت نے چارماہ رکھی ہے اس سے زیادہ سالہاسال تک میاں بیوی کا جداجدا رہنا جائز نہیں ۔انتہائی درجہ پر علیحدگی اختیار کرنے کی اسلام نے اجازت دی ہے تاہم اس امر کو ضرور پیش نظر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کو طلاق کا عمل سب سے ناپسند ہے۔اور طلاق بیک وقت تین دینے سے احتراز کریں بالخصوص جب اولاد بھی ہوتاکہ غصہ کی کیفیت ختم ہونے پر ندامت و تاسف کے ساتھ رشتہ دوبارہ مستحکم ہوجائے۔۔میاں بیوی کے جھگڑے اور لڑائی اوروالدین کی علیحدگی کے برے اثرات بچوں کی تربیت پر بھی پڑتے ہیں۔
حضورۖ اور امہات المئومنین کی زندگیوں میں میاں بیوی کے لئے رہنما سبق حضورنبی رحمتۖ کی زندگی کو قرآن کریم میںمسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور نمونہ قراردیا گیاہے ۔لہذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے عائلی زندگی و معاشرتی زندگی میں آقائے دوعالمۖ کی زندگی سے درس حاصل کریں۔ازدواجی زندگی کو گذارنے کے لئے بھی سیرت رسولۖ کے مثالی گوشوں سے رہنمائی حاصل کی جائے۔حضورۖ کافرمان عالیشان ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں۔نبی اکرمۖ نے جتنے بھی عقد کیے ان میں سے صرف ایک نکاح کنواری (حضرت عائشہ)اور باقی تمام نکاح بیوہ و مطلقہ سے کیے۔آپۖ کی شادیوں میں حکمت و مصلحت کے بے شمار پہلوپنہاں ہیں جو کتب سیرت میں مطالعہ کیے جاسکتے ہیں۔معلوم ہوتاہے بیوہ و مطلقہ سے شادی کرنا معیوب نہیں بلکہ کارثواب اور سنت رسولۖ کی ادائیگی بھی ہے۔آنحضرت بسااوقاتۖ امہات المئومنین کے ساتھ گھر کے امور انجام دیتے تھے۔حضرت عائشہ کا فرمان ہے کہ آپۖ کے تندورمیں روٹی لگائی،گمشدہ سوئی آپۖ کے رخ انور کی تابناکی سے ملی۔اسی طرح امہات المئومنین کی زندگی بھی مثالی ہے کہ انہوں نے سب کچھ ہوتے ہوئے اور کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی آپۖ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔حضرت خدیجہ نے اپنا سارامال و متاع آنحضرتۖ پر نثار کردیا۔مکی و مدنی زندگی میں آپۖ کے گھر میں متعدد ایام تک فاقے رہتے تھے۔یہاں تک کہ جب ریاست مدینہ قائم ہوگئی اور مال غنیمت حاصل ہونا شروع ہوا تو بعض امہات نے پرسکون زندگی گذارنے کے لئے مال حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تو رسولۖ کو ان کا یہ طرز پسند نہیں آیا تو سورت احزاب میں اللہ تعالیٰ نے امہات المئومنین کو متنبہ و خبردار کردیا کہ اگر مالی فائدہ چاہتی ہو تو تمہیں دیکر رخصت کردیتاہوں اور اگر دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو ترجیح دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔حضرت خدیجہ مشکل ترین دور مکی میں آپ کی رفاقت کا شرف حاصل کیا اور سخت سے سخت حالات میں آپۖ کی دلجوئی و خدمت انجام دیتی رہیں۔یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرمۖ تمام امہات المئومنین سے زیادہ حضرت خدیجہ سے محبت فرماتے تھے اور ان کے تذکرہ فراق سے حزین و غمگین ہوجایا کرتے تھے۔