دنیا میں معاشرتی بگاڑ کی بدولت ، نفسیاتی بیماریاں بھی جدت کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔جس کا باعث بنی نوع انسان خود ہے۔ ہمیشہ کی طرح پاکستان میں پھر سے مہنگائی کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔مانتے ہیں کہ ریاستی ادارے قصور وار ہیں۔البتہ! ہم لوگوں نے بھی معاشرے کی رسم و رواج اور فریضوں کی آڑ میں بہت سی پریشانیوں کو پروان چڑھایا ہے۔ اور یہ سلسلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔
شادی بیاہ کی فضول خرچیوں سے ہمیں اپنے اسراف ہونے کا باخوبی علم ہوگا۔شادی بیاہ ایک فطری عمل ہے۔ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق نکاح برائیوں سے روکتا ہے۔انبیاء اکرام کی سنت ہے۔شادی خاندان بڑھانے کی علامت ہے۔اسی لئے اس موقع پر خاندان کے افراد کی خوشی قابل دید ہے۔اسلام ہر گز ایسے موقع پر خوشی سے نہیں روکتا۔بلکہ نکاح کے بعد دلہے کی طرف سے ولیمہ کا اہتمام، شرعی طریقے سے خوشی کا اظہار کرنا ہے۔ ہم لوگ دیگر بہت سی رسموں کی طرح شادی کی تقریبات میں بھی حد سے تجاوز کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ سلسلہ منگنی سے شروع ہوتا ہے۔منگنی کی رسم، رشتہ طے ہونے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔جس میں لاکھوں کے زیورات اور مہنگے ملبوسات تحفے میں دیئے جاتے ہیں۔مختلف قسم کے پکوان اور مشروبات سے مہمانوں کی تواضح کی جاتی ہے۔اسے ہم شادی سے پہلے شادی کی تقریب بھی کہہ سکتے ہیں۔کیونکہ ایسی تقریب پر خرچ ہونے والی خطیر رقم سے متوسط طبقے کی ایک سے زائد شادیاں ممکن ہیں۔ہم لوگوں نے منگنی سے شادی تک کے دورانیے کو بھی درد سر بنا رکھا ہے۔اس درمیانی وقت میں بھی مختلف تہواروں پر قیمتی تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔ شادی سے چند دن قبل ہی مہمانوں کا جم غفیر اکٹھا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ہفتوں پہلے ہی مٹھائیاں اوردعوتیں اڑائی جاتی ہیں۔
مہندی کی رسم میں لاکھوں روپے ’اسٹیج‘ کی تزئین و آرائش میں صرف کئے جاتے ہیں۔مہنگے ترین ملبوسات پہنے جاتے ہیں۔مختلف اقسام کے مہنگے پکوانوں سے مہمانوں کی تواضح کی جاتی ہے۔آتش بازی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔بہت سے معززین شراب و شباب اور رقص و سرور کی محفلیں ترتیب دیتے ہیں۔ایسی پرکشش محفلوں میں خاص مہمانوں کی خاص قسم کی کرنسیوں سے تواضح کی جاتی ہے۔جیسے ڈالر،یورو،ریال اور درہم وغیرہ۔
نکاح یعنی بارات والے دن بھی روپے اور دیگر کرنسیوں کا مظاہرہ پوری آب و تاب سے کیا جاتا ہے۔آتش بازی کی جاتی ہے۔ لڑکی والوں کی طرف سے ،ہزاروں کی تعداد میں مہمانوں کے جم غفیر کی بکرے،مچھلی اور دیگر مہنگے پکوانوں سے تواضح کی جاتی ہے۔ صرف اس ڈر سے کہ لڑکی کے سسرال والے اسے تعنے نہ دیں،دلہے کو مہنگی موٹر کار،زیورات اور دیگر تحائف سے نوازا جاتا ہے۔لڑکے والوں کی طرف سے ولیمے پر پوری شان و شوکت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ان تقریبات کی آڑ میں ،قریب پچیس سے تیس فیصد کھانے کا ضیاع ہوتا ہے۔کئی دنوں تک اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔باقاعدہ داد بھی وصول کی جاتی ہے۔
دولت کی نمائش کے اس نہ رکنے والے سلسلے نے معاشرے کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔بہت سے متوسط طبقہ کے لوگ معاشرے کی اس غلط روایت کی نظر ہو رہے ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔لوگوں کی زندگیاں اس جھوٹی شان شوکت کی نظر ہورہی ہیں۔ ’برادری اور انا ‘لوگوں کو خوب آڑے ہاتھوں لے رہی ہے۔زندگی بھر کی جمع پونجیاں بھی بچوں کی شادیوں کے لئے ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔سود پر قرض لے کر شادیاں ہو رہی ہیں۔معاشرے میں دکھاوے کی یہ فضا ،بہت سے مجبوروالدین کو آگ کی لپیٹ میں جھونک رہی ہے۔جو نفرت اور نفسیاتی بیماریوں کو جنم دے کر معاشرے میں برائی کا سبب بن رہی ہے۔بہت سی شادیاں ان فضول خرچیوں،جھوٹی انا، اور رسموں کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔لڑکیوں اور لڑکوں کی جوانی مدھم ہو رہی ہے ۔برائیاں جنم لے رہی ہیں۔
ہمیں خوشیاں ضرور منانی چاہئیں، لیکن خیال کرنا چاہئے کہ کہیں حد سے تجاوز نہ ہو۔متوسط طبقے کو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہئیں۔ اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپنانا چاہئے۔اسلام بھی میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے۔
’’کھاؤ، پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ‘‘۔ بچوں کی اچھی تربیت کرنی چاہئے ۔انہیں ظاہری زیورات کی بجائے ،تعلیم و تربیت کے زیورات سے آراستہ کرنا چاہئے۔جہیز کی بجائے ،جائیداد کی تقسیم میں عدل کرنا چاہئے۔ گزشتہ حکومتوں نے توکوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھایا۔موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ، شادی بیاہ اور دیگر رسومات پر ہونے والی فضول خرچیوں پر قابو پانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔یہ بھی مہنگائی سے پسی عوام کے لئے کسی بڑے ریلیف سے کم نہیں ہوگا۔جس سے معاشرے میں توازن قائم ہوگا اور لوگوں کی پریشانیاں کم ہوں گی۔ذرا سوچئے!