عمر کے جس حصے میں ہم ہیں اس میں سوائے شادی کے اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ ہر دوشیزہ اپنی شریک حیات کے روپ میں دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح سے محتاط خیال کے تحت ہر دوشیزہ کو ہم جیسے گبھرو اور حالات کے پیش نظر تھوڑا پیٹ باہر نکلے ہونے کے باوجود خود کو ہینڈسم اور سمارٹ سمجھنے والے جوان بھی سائباں نظر آتے ہوں گے۔ ایسی ہی کچھ فیلنگز ایک اور جگہ بھی موجود ہوتی ہیں۔ ماﺅں کو ہر پہلی ”کڑی“ بہورانی اور ہر پہلا ”منڈا“ داماد جی نظر آرہا ہوتا ہے۔ جیسی فیلنگ شادی کی ڈبلیو 11 بس میں سوار ہونے کے لیے بے تاب لڑکوں کی ہوتی ہے ویسی فیلنگ ان کی معصوم ماﺅں کی ہوتی ہے بلکہ ”منڈے“ سے زیادہ ماں کو جلدی ہوتی ہے۔ وہ تو ڈبلیو 11کے اسٹاپ پر رکنے کا ویٹ بھی نہیں کرتیں، وہ کسی بھی طرح سے چلتی بس پر سوار کرنے کی تگ و دو میںہوتی ہیں۔
شادی کا لڈو جو کہ اب ناپید ہو چکا ہے کھانے کے لیے بے چین دوطرفہ نوجوان کسی بھی طرح سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دوطرفہ پر غور کرنے کے بجائے آگے بڑھا جائے۔ اس لڈو کے حصول کے لیے نوجوان طبقے کو جانے کتنے پاپڑ پیلنے پڑتے ہیں پاپڑ بیلنا تو آسان ہوگیا کہ بس یوں سمجھ لیجیے لڈو کو حاصل کرنا موجودہ حکومت چلانے جیسا ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڈو منہ تک پہنچتا ہے کہ کوئی بیچ میں بھاگتا ہوا آتا ہے اور دھکا مار کر لڈو گرادیتا ہے ساتھ ہی ”چھورے“ کو بھی اچھی خاصی چوٹ پہنچا جاتا ہے۔ یہ چوٹ ایسی ہوتی ہے جو دکھتی نہیں مگر دل کی حالت دل والا ہی جانتا ہوتا ہے۔ سلیم کوثر کے اس شعر کی طرح کی
کبھی موسم ساتھ نہیں دیتے کبھی بیل منڈیر نہیں چڑھتی
لڈو کھو جانے کا غم لیے یہ دل والا پھر سے نئے لڈو کی تلاش میں جت جاتا ہے۔ پورا خاندان مل کر نیا لڈو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ شادی بھی ہوجاتی ہے۔ کچھ عرصہ بیتنے کے بعد بھاگتا لڑکا بہت شدت سے یاد آنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایک حسرت عیاں ہوتی ہے کہ اس بار وہ کیوں نہیں آیا تھا۔ بیل کے منڈیر چڑھتے ہی بیل کو اتارنے کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ کچھ بلوائی بھی ہلا بولے ہوتے ہیں جنہیں موقع خود اپوزیشن اور اتحادی دیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ شادی کرنے تک تو سب متفق ہوتے ہیں مگر جانے کیوں بعد میں اتفاق اختلافات میں بدلتا چلا جاتا ہے۔ دن رات کی ناختم ہونے والی محبتیں بھی ریت کی دیوار ثابت ہونے میں دیر نہیں لگاتیں۔
شادی لفظ بہت خوبصورت ہے پھر بھی اس کی خوبصورتی کچھ پلوں میں ماند پڑنے لگتی ہے۔ شادی لفظ ہی ایسا ہے کہ سنتے ہی ہرطرف ہریالی کی جگہ لالی نظر آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جس میں بیگانہ عبداللہ بھی دیوانہ ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ دیوانگی کے سارے جذبے ملیا میٹ ہوجاتے ہیں۔ قبل از وقت جورو کا غلام بنا ہوا عبداللہ صنف نازک کے فضائل میں ایسا عظیم بیانیہ رکھتا ہوتا ہے کہ سننے والا آنا فانا فائن ہوجاتا ہے۔ بعد از شادی یہی عبداللہ اپوزیشن کی ”کھولی“ میں بیٹھا ملتا ہے۔ اپوزیشن بھی اپنا فعال کردار ادا کرتی ہے۔ زیادہ تو کچھ نہیں ہوتا مگر اتحادی اور اپوزیشن کے درمیان گھمسان کا رن پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اگرمعصوم بچوں کی صورت میں عوام ہوتو وہ رل ہی نہیں جاتی مصنوعی یتامت ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
تو اے دو طرفہ نوجوانو! شادی کرو مگر شادی سے قبل شادی کے مقاصد کو یاد کرلو۔ شادی کے فضائل نہیں بلکہ حقوق کا خیال رکھو۔ شادی کا لڈو کھانے کے لیے بے چین روحو! یاد رکھو کہ یہ شادی مذاق نہیں ایک اہم ترین ذمے داری ہے۔ ایک ایسی ذمے داری جسے اٹھانے کے لیے پہلے خود کو مکمل طور پر تیار کریں، پھر لازمی طور پر اس ذمے داری کو اٹھائیں اور اس کا حق ادا کریں۔ شادی کرنا مشکل ضرور ہے مگر کرنے سے زیادہ اسے لے کر چلنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ وہ جوآپ کے لیے سب کو چھوڑ کر آگئی وہ آپ کی شریک حیات ہے اسے شریک کرنے میں دقت اور دیر نہیں ہونی چاہیے۔ شراکت داری کے اس فریضے دوسری طرف سے بھی ایسا ہی جواب میسر ہو جس کے بعد زندگی مکمل لگنے لگے۔ یہ واحد تعلق ہے جس کی لگام ایک نہیں دونوں پارٹیوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ برابر لگام کھینچتی اور ڈھیل ملتی رہے تو یہ بیل گاڑی ہوائی جہاز بن کر چلتی ہے ورنہ اسے گدھا گاڑی بنتے دیر نہیں لگتی۔
کامیاب ازدواجی رشتے میں سب سے پہلی بنیاد احساس اور بھروسہ ہے اگر یہ دونوں نہیں تو اندھی محبت بھی بے سود ثابت ہوتی ہے۔ یہ رشتوں میں واحد رشتہ ہے جس میں شک اور عدم احساس کی ہلکی سے دراڑ کچھ ہی پلوں میں پوری عمارت کو ملیا میٹ کردیتی ہے۔ اس میں ایک اہم بات جس کا خیال رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بہت کچھ لینے سے قبل دینے کا احساس ہونا چاہیے۔ آپ کو احساس اور بھروسہ صنف مخالف سے چاہیے تو اس سے پہلے آپ خود دینے والے ہوں۔ اس تعلق میں آپ کو ہر لحاظ سے پہل کرنا ہوگی۔ چاہیے خوشی ہو یا پھر غم۔۔۔ رشتہ ازدواج میں مقابلے اور تیرے میرے سے نہ صرف دوریاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ ان دیکھی نفرت بھی اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔
پڑوسی فلم کے بڑے ہیرو کہتے ہیں کہ ”شادی کی بنیاد بے پناہ محبت ہونی چاہیے “ مگر شاید بے پناہ محبت سے بھی پہلے ان دیکھا اعتبار اور بھروسہ ہونا چاہیے۔ وہ اعتماد ہونا چاہیے جس میں دونوں ہی شامل ہوں۔ وہ بھروسہ ہونا چاہیے کہ جس میں دونوں مشترک ہوں۔ ایک دوسرے کا خیال اور احساس ہونا چاہیے اگر وہ نہ ہوا تو محبت کے خوبصورت پنجرے میں بند چڑیا احساس تنہائی اور قیدسے مرجھا جائے گی۔ کانٹوں میں کھڑے پھولوں کا اگر خیال اور باقاعدگی سے دیکھ بھال ہوتی رہے تو وہ مسکراتا ہی کھل کھلاتا رہتا ہے کبھی کانٹوں کا شکوہ نہیں کرتا۔ بات تو صرف سمجھنے کی ہے۔ شادی کریں مگر۔۔۔۔