مریخ پر انسانی زندگی اب آپ کے سوچ سے زیادہ قریب ہے جیسا کہ چھ افراد مریخ جیسے مصنوعی حالات میں پورا ایک سال گزار کر زمین پر واپس آگئے ہیں۔
ناسا 2030ء تک انسان کو مریخ پر بھیجنے کی امید رکھتا ہے اور اس سفر کی تیاری میں تحقیقی سینٹر ’ہوائی اسپیس اینالاگ‘ کئی مشن پر مشتمل مہم چلا رہا ہے۔ اور اس کی تازہ ترین مہم سے منسلک سائنس دانوں نے زمین پر مریخ جیسے مصنوعی حالات میں ایک سال گزارنے کا تجربہ مکمل کرلیا ہے۔
عملے کے چھ ارکان نے پچھلے 12 ماہ ایک گنبد نما احاطے میں گزارے ہیں جسے سطح سمندر سے 8,500 فٹ بلند مونا لوا آتش فشاں پہاڑ پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس تجربے کو 1200 مربع فٹ شمسی توانائی سے چلنے والے ایک گنبد نما مسکن میں مکمل کیا گیا ہے جہاں سائنس دان مکمل تنہائی میں تھے۔
تجربے کے دوران سائنس دان صرف خلائی لباس پہن کر ہی گنبد سے باہر نکل سکتے تھے اس مشن کو ‘ہوائی اسپیس ایکیولریشن اینالاگ اینڈ سمولیشن’ کا نام دیا گیا ہے جو اتوار کو مکمل ہوگیا ہے اور سائنس دان اپنے گنبد نما عارضی مسکن سے باہر نکل آئے ہیں۔
سائنس دانوں نے زمین پر کچھ ایسے حصوں کی چھان بین کی ہے جو ایک طرح سے مریخ کے ماحول سے تھوڑی بہت مطابقت رکھتے ہیں اور مونا لوا ماؤنٹین کی مٹی اسی طرح کی ہےجیسی مریخ میں پائی گئی ہے۔ عملے کے ارکان میں ایک فرانسیسی ماہرحیاتیات ایک جرمن ماہر طبیعات اور چار امریکی افراد شامل تھے جن میں سے ایک پائلٹ، ایک ماہر تعمیرات ایک صحافی، ڈاکٹر اور ایک امریکی سائنس دان شامل تھے۔
گنبد نما احاطے کو سائنس دانوں کے لیے ایک عارضی مسکن کے طور پر تیار کیا گیا تھا جہاں انھیں باورچی خانے، سونے کے کمرے،کھانے کا کمرہ، کام کرنے کی جگہ اور تجربہ گاہ کی سہولیات میسر تھیں۔
تاہم، یہ عرصہ انھوں نے محدود وسائل مثلاً پانی، خوراک اور توانائی کے استعمال کے سخت قواعد پر پابندی کرتے ہوئے گزارا ہے۔ اتوار کو ٹوئٹر پر ہوائی یونیورسٹی کی طرف سے ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی ہے جو ناسا کی طرف سے فنڈ کی گئی تحقیق کا منصوبہ چلا رہا تھا۔
ٹیم نے باہر آنے کے بعد کہا کہ مریخی حالات جیسے مصنوعی حالات میں رہنے کا کامیاب تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل قریب میں مریخ مشن کامیاب ہوسکتا ہے۔
فرانس سے عملے کی ایک رکن سپرین ورسوکس نے کہا کہ میں اپنے ذاتی تاثر کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل قریب میں مریخ مشن ایک حقیقت بن جائے گا جبکہ میرا خیال ہے کہ تکنیکی مسائل اور نفسیاتی رکاوٹوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
جرمنی سے عملے کی ایک رکن محقق کرسٹین ہانیکا نے کہا کہ سائنس دان خشک ماحول میں ان کے لیے پانی تلاش کرنے کے قابل تھے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ واقعی بنجر زمین سے پانی نکال سکتے ہیں جو بظاہر خشک نظر آتی ہے اور مریخ پر بھی ایسا کیا جاسکتا ہے۔
ہوائی اسپیس ایکسپولریشن اینا لوگ کے پرنسپل تفتیش کار کم بنسٹڈ نےکہا کہ محققین اب سمندر کا رخ کرنا چاہتے ہیں جہاں ان کے لیے تازہ پیداوار اور دوسری کھانے کی اشیاء موجود ہیں جو اس گنبد میں نہیں تھیں۔
محقق بنسٹیڈ نے کہا کہ یہ اس نوعیت کا دوسرا طویل مشن تھا جبکہ اس سے پہلے ایک مشن روس میں 520 دنوں تک جاری رہا تھا۔ اگرچہ کچھ شدت شناس جاندار زمین پر شدید سخت حالات میں بھی رہ سکتے ہیں بشمول وہ ماحول جو مریخی حالات سے ملتے جلتے ہیں۔
لیکن مریخ پر انسان کو اپنی بقا کے لیے مختلف نوع کے سازوسامان کی ضرورت ہوگی جبکہ سائنس دان اب تک یہ نہیں جانتے ہیں کہ مریخی قوت ثقل کا انسانی صحت پر کیا اثر ہوگا۔