تحریر: شاہ بانو میر لاہور میں ہونے والے ضمنی الیکشن اس وقت پاکستان کیلئے وہ معرکہ بن کے دکھایا جا رہا ہے کہ جیسے اس پے ملک کی کامیابی کا دارومدار ہے ‘ دونوں جانب سے بے پناہ طاقت کا مظاہرہ الیکشن کمیشن کی،ہر ہدایت گویا ہوا میں تحلیل کر کے اسکو بتایا جا رہا ہے کہ ہم جو چاہیں کریں ہمارا اپنا انداز ہے دھرنا اس کے بعد بار بار ملک کیلئے دشواریاں پیدا کرنا کہ حکومت کا نظام موقوف ہو جائے اور حکومت وقت بے بس ہو کر ہتھیار ڈال دے
یہ اندازَ سیاست تاریخ رقم کر رہی ہے وہ انسان جو کل صرف ایک نام رکھتا تھا سچائی اور کامیابی افسوس سے کہنا پڑتا ہے اپنے کلاس فیلوز کو دورَ اقتدار میں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اب ایک ایسے انسان کو طاقت فراہم کی جا رہی ہے جس کا سیاسی ایجنڈا نہیں ہے بلکہ ذاتی نفرت اور بغض ہے کہ ہر قیمت پر سامنے کھڑے انسان کواقتدار سے محروم کرنا ہے کیونکہ اسکی مسلسل کامیابی اور مستقل مزاجی 5 سال تک نجانے اسے کہاں لے جائے کہ پھر باتوں سے شور سے مقابلہ کرنا بے کار جائے لہٍذا جیسے بھی ممکن ہے
ملک تباہ ہو جائے برباد ہو جائے کامیابی کا سفر تھم جائے بین القوامی طور پے اس وقت کشمیر جیسا سرد خانے میں محفوظ ایشو پھر سے اندرونی شورش سے پس پشت کر دیا جائے لاکھوں لوگوں کیلئے امید کی کرن چائینہ کاریڈور کی صورت ابھری ہے وہ ختم ہو جائے محض اس لئے کہ آپکی برداشت کا پیمانہ اب لبریز ہو گیا ہے نجانے کیوں یہ بے معنی اودھم یہ شور شرابہ اور اس پر بیان کہ نتیجے کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں اس روز بتاؤں گا یہ کسی طور بھی سادہ سیاست نہیں ہے باقاعدہ مضبوط حکمتَ عملی ہے
Election
اے کے بعد بی اور اس کے بعد سی الیکشن ہوتا ہے فرض کیجئے کہ الیکشن کا فیصلہ کسی بھی ایک پارٹی کے حق میں آجاتا ہے تو جو اس وقت فضا تیار کی جا رہی ہے لگتا ایسا ہے کہ اس فضا میں ہارنے والی جماعت ایسا طوفان پیدا کرے گی کہ عوام کے درمیان عظیم انسان کے طور پے سو فیصد پہچانے جانے والے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے صرف پاکستان کو دنیا میں سیاسی سماجی دفاعی انداز میں پھر سے زندہ کرنے والے سپہ سالار کو ٹی وی پر آتے دیکھ رہی ہوں میرے عظیم ہم وطنو اور اگر ایسا ہوا تو سیاسی نا بالغ تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جمہوریت کے قاتل کے طور پے مقید ہو جائیں گے
جس پارٹی کے اندر عدم برداشت اور جھگڑوں کا نہ ختم ہونے بے ربط نظام ہے جہاں صرف ” میں ” کی گردان ہے وہ پارٹی ابھی پاکستان کیلئے کسی صورت اقتدار کی اہل نہیں اندرونی نظام کو مؤثر اور شفاف بنائیں اور اس کیلئے ابھی طویل صبر آزما سفر طے کرنا ہوگا سرمایہ داروں کا ہجوم جو ہسپتال کو فنڈنگ کر رہا ہے ا،ن کو سیاست میں لا کر عام کارکن کو سنہرے خواب دکھا کر خوار کرنے والے پہلے بنیاد کو درست کریں اپنا قبلہ متعین کریں اور پھر 20 کروڑ کیلئے میدان عمل میں نکلیں وگرنہ مستحکم سیاسی سوچ رکھنے والوں کو سازش کے تحت اقتدار سے باہر نکال کر ملک جو اس وقت بیرونی محاذوں پر گھَرا ہوا ہے اندرونی شورش فوج کو دعوتَ اقتدار دینے کے سوا کچھ نہیں کرے گی
نتیجہ ایک طرف سے تسلیم نہیں کیا جائے گا اور رد عمل میں خاک اور خون کی ہولی؟ اس سے بچنے کیلئے پاک فوج کو حالات سنبھا؛نے کیلئے سامنے آنا ہوگا اور شائد یہی حکمتَ عملی ہے جو سراسرجمہوریت کیلئے تباہی ہے عدم برداشت کا رویہ ہمارے اندر سے نکل جائے اورسیاست کو اپنی انا ذاتی تعصب کا شکار بنا کر انارکی کا شکار نہ کیا جائے نجانے کیوں بھاری بوٹوں کی گھن گرج مجھے قریب ہوتی محسوس ہو رہی ہے میرے عزیز ہم وطنو کی گونج کانوں میں سنائی دے رہی ہے