مارشل لاء کی جانب بڑھتی صورتحال

Martial law

Martial law

قومی انتخابات میں انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے عمران خان کے تحفظات ا ور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت سابق الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی جانب سے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کی فتح میں جانبدارانہ کردار کی ادائیگی کے الزامات سے اتفاق کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے آزادی مارچ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کی حمایت سے انکار کردینے والی تمام سیاسی و جمہوری قوتیں جنہوں نے حکومت کی جانب سے لاہور ماڈل ٹاؤن میں ادارہ منہاج القرآن پر ریاستی جبروتشداور 14 کارکنان کی ہلاکت کیخلاف حکومت کی مذمت کرنے کے ساتھ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے ساتھ آمرانہ طرز عمل کی بجائے۔

جمہوری رویئے سے نمٹنے کیلئے حکومت کو رضامند کرکے تشدد اور آمریت کی راہ میں اب تک رکاوٹیں کھڑی کرنے والی سیاسی قیادتیں عمران خان اور طاہرالقادری کی جانب سے منظر عام پر آنے والے طرز عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کے باعث پریشان و متفکر ہیں لیکن عمران خان کے کارکنوں کی بڑھتی تعداد اور ان کے جوش و جذبے نے عمران خان کو اتنا چارج کردیا ہے کہ اب انہیں تبدیلی چند قدم دور دکھائی دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مذاکرات سے یکسر انکار کرنے کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس پر دھاو ا بولنے کے علاوہ یہ تک کہہ دیا ہے کہ مجھے کوئی فوج اور پولیس نہیں روک سکتی۔

ڈاکٹر طاہرالقادری کے مثالی نظم و ضبط کے عادی کارکنان بھی طاہرالقادری کے خطابات کے بعد اب بس وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہونے اورپارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کیلئے بالکل تیار ہیں جبکہ حکومت اس ساری صورتحال سے بھرپور انجوائے کرتے ہوئے جن بیانات و اقدامات کا اظہار کررہی ہے اس سے تصادم کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ اب مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کیخلاف اپنے کارکنان کو سامنے لانا اور تحریک انصاف و عوامی تحریک کے رہنماؤں کے گھروں کے محاصرے اور عمران خان و طاہرالقادری و آزادی وانقلاب مارچ کیخلاف احتجاج و دھرنوں کی پالیسی اپنالی ہے جس کے بعد ملک بھر میں حالات خراب ہونے کے خدشات میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

فوج اس ساری صورتحال کا بغور مطالعہ کررہی ہے اور جان رہی ہے کہ حکمران فوج اور عوام کو آمنے سامنے لاکر سیاسی شہید بننے اور فوج پر ایکبار پھر جمہوریت پرشبخون مارنے کا الزام لگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اسلئے فوج نے اسلام آباد میں سرکاری عمارتوں کے اندر حفاظتی فرائض کی انجام دہی کا فیصلہ کیا اور پارلیمنٹ ہاؤس ‘ ایوان صدر’ ایوان وزیراعظم سمیت دیگر عمارتوں میں پوزیشنیں سنبھالنے کے ساتھ حکمرانوں’سیاستدانوں’ انقلاب و آزادی مارچ کی قیادتوں و کارکنان کو حالات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک لیجانے اور فوج کو مداخلت پر مجبور کرنے کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حالات کو کنٹرول میں لانے کا پیغام دے دیا ہے۔

جس کے بعد حکومتی کیمپ میں تو کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی ہے البتہ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے حالات کو کنٹرول میں لانے کیلئے اپنی سی آخری کوششوں کا آغاز کردیا ہے جس کے بعد دانشوروں کی یہ رائے سامنے آرہی ہے کہ اگلے چوبیس گھنٹو ں میں مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے بڑا بریک تھرو سامنے آنے والا ہے اور یہ بریک تھرو انتخابی اصلاحات ‘ الیکشن کمیشن کی از سر نو تشکیل ‘ متاثرین کی بحالی کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے خیبر پختونخواہ حکومت کو مزید فنڈز کے اجراء ‘ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی و خاتمے کے اعلان ‘بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے حکومتی رضامندی اور پارلیمانی جماعتوں کی گارنٹی کے ذریعے ہوگا۔

جس کے بعدعمران خان اس معاہدے پر عملدرآمد کیلئے مزید 6ماہ کی مہلت کی فراہمی کے ساتھ یہ کہہ کر مارچ کے شرکاء کو گھر واپس بھیج دیں گے کہ اگر 6ماہ میں معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوا تو ایکبار پھر آزادی مارچ کا انعقاد ہوگا اور صورتحال کو اس طرح کنٹرول کرنے میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ‘ متحدہ کے قائد الطاف حسین ‘ گورنرپنجاب غلام سرور’آفتاب شیر پاؤ اور رحمن ملک یقینا کامیاب کردار ادا کرسکتے ہیں۔ عمران خان نے وزیراعظم کے استعفے سے قبل ہر قسم کے مذاکرات سے انکارکرکے ان دانشورں کی رائے کو باطل ثابت کردیا ہے۔

Tahir ul Qadri

Tahir ul Qadri

مگر ڈاکٹر طاہرالقادری نے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے کا عندیہ دیکر لچک کا مظاہرہ ضرور کیا ہے لیکن سیاسی جماعتیں اور حکومت پاکستان عوامی تحریک کو پارلیمانی جماعت نہ ہونے کے باعث کسی گنتی میں گننے کو تیار نہیں ہیں اسلئے طاہرالقادری کے کم سے کم مطالبات تسلیم کئے جانے کے باوجود ” جو مل رہا ہے عزت سے لے لو”۔ کی پالیسی اپناکر واپس لوٹ جانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

وزیراعظم کی جانب سے آج طلب کئے جانے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کیلئے کسی متفقہ لائحہ عمل کے حوالے سے تمام توقعات اس وقت دم توڑ گئیں جب میاں نواز شریف نے اس اجلاس میں صورتحال میں بہتری کی متفقہ پالیسی بنانے کی بجائے اس اجلاس کو تمام سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اپنے لئے اعتماد کے حصول کیلئے استعمال کرنے کے بعد بیک ڈور سے واپس لوٹ جانے سے یہ بات واضح کردی کہ میاں صاحب کسی بھی طور استعفیٰ نہیں دیں گے اور انہیں فوج کی جانب سے کسی بھی آمرانہ اقدام کاکوئی خوف نہیں بلکہ وہ پوری طرح اس کیلئے تیار ہیں کیونکہ ایسا ہونا ہی اب ان کے سیاسی مستقبل کیلئے بہتر اور موروثی سیاست کا تحفظ کرنے والوں کا منصوبہ ہے۔

اس ساری صورتحال میںاسلام آباد میں کھیلے جانے والے گیم میں ریفری کاکردار فی الوقت سپریم کورٹ کومنتقل ہوچکا ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے آج عمران خان اور طاہرالقادری کو عدالت میں طلب کرلیا گیا ہے اگر وہ پیش ہوجاتے ہیں تو عدالت انہیں کس طرح پابند بناتی اور حکومت بچاتی ہے اور اگر وہ پیش نہیں ہوتے تو عدلیہ ایکبار پھر مسلم لیگ کے حق میں کیا کردار ادا کرتی ہے ؟ لگتا ہے اس کا جواب آج شام تک عوام کے سامنے آنے والا ہے اور اگر سپریم کورٹ کسی فوری کردار کی ادائیگی سے محروم رہی اور عمران خان بھی نہ مانے تو پھر افواج پاکستان کو نہ چاہنے کے باجود حکمران طبقے کی خواہش کے مطابق ریفری کا کردار اسی طرح ادا کرنا پڑے گا۔

جس طرح آرٹیکل245کے تحت نہ چاہتے ہوئے بھی فوج اسلام آباد میں موجود ہے اور سرکاری عمارتوں پر حفاظتی فرائض انجام دے رہی ہے ویسے اگر فوج کے کردار کی ادائیگی لازمی ہوگئی اور فوج فیصلہ کربیٹھی تو اسے زیادہ مشکلات نہیں پیش آئیں گی کیونکہ دارالخلافہ میں موجود پارلیمنٹ ہاؤس’ ایوان صدر ‘ ایوان وزیراعظم’ سپریم کورٹ اور دیگر حساس عمارات سمیت پورے ریڈ زون میں فوج پہلے سے ہی موجود ہی صرف ایک اعلان اور بندوق کی نال عوام کی جانب سے مخالف سمت گھمانے کی ہی ضرورت پیش آئے گی جس کے بعد عمران خان کی سیاسی تحریک شکست سے دوچار ہوجائے گی اور طاہرالقادری کا انقلاب ہوا میں اڑ جائے گا ‘ سیاسی و جمہوری جماعتوں کی کوششیں بیکار ہوجائیں گی۔

حکمران طبقہ ایکبار پھر فوج کو آمریت کا طعنہ دیکر بدنام کرنے کے استحقاق کے حصول کے ساتھ بیرون ملک جاکر اپنی حکمت عملی کی کامیابی کا جشن منانے کے بعد کچھ عرصہ بعد ماحول سازگار ہوتے ہی واپس آکر جمہوریت کا راگ الاپنے اور جمہوری جدوجہد کے نام پر پھر سے اقتدار حاصل کرکے ملک میں شہنشاہی نظام کے تسلسل کو جاری وساری رکھنے کا حق بھی حاصل کرلے گا جو یقینا تحریک انصاف ‘ پاکستان عوامی تحریک’ جماعت اسلامی’ متحدہ قومی موومنٹ اور عوام پاکستان کی بہت بڑی شکست ہوگی اس لئے ان چاروں جماعتوں کو اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ کو تحریک انصاف اور پاکستان عوای تحریک کو اس بات پر رضامند کرنا ہوگا۔

وہ وزیراعظم کے مستعٰفی ہونے کی ضد چھوڑ کر پارلیمنٹ میں موجود تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے غیر جانبدار و آزاد الیکشن کمیشن کی فوری تشکیل ‘فوری بلدیاتی انتخابات کے انعقاد ‘ آئندہ قومی انتخابات آئین کے آرٹیکل 62اور63کے شرط کو ملحوظ رکھتے ہوئے متناسب نمائندگی کے تحت کرائے جانے ‘ پارلیمنٹ کی رضامندی کے بغیر کسی بھی ملک یا بین الاقوامی ادارے سے کوئی بھی معاہدہ یا سمجھوتہ نہ کرنے اور ہر قسم کے قرض کے حصول سے قبل پارلیمنٹ میں اس پر بحث کرانے اورقرضوں کے حصول کو پارلیمنٹ کی اجازت کے ساتھ خارجہ پالیسی کو بھی پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کرانے کی شرائط کے مطالبات پیش کرکے حکومت کی جانب سے ان پر عملدرآمد کی یقین دہانی و پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے اس یقین دہانی کی تکمیل کی گا۔

رنٹی و ضمانت کے بعد ان پر عملدرآمد کیلئے ایک مناسب ڈیڈ لائن دیکر اس آزادی مارچ کو اس ڈیڈ لائن تک کیلئے مؤخر کرکے نہ صرف حکمران طبقے کی جانب سے ہموار کی جانے والی آمریت کی راہ روک دے بلکہ ایک ایسی سیاسی فتح بھی حاصل کرلے جس کے مفید اثرات سے نہ صرف قوم کا مستقبل محفوظ ہوجائے گا بلکہ آئندہ کیلئے چوروں و لٹیروں کا پارلیمان تک پہنچنے کا راستہ بھی رک جائے گا اور پاکستان تحریک انصاف کا بڑھتا ہو اگراف اسے اتحادیوں کی مدد سے اقتدار تک بھی لے جائے گا رہی بات میاں نواز شریف کے مستعفی ہونے کی تو تحریک انصاف کے آزادی مارچ کی کامیابی اس کے اتحادیوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ مسلم لیگ (ن) میں بھی ایسی توڑ پھوڑ پیدا کردے گی جس کے بعد تحریک انصاف کو میاں نوازشریف کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بناکر ان ہاؤس تبدیلی کیلئے بہت طویل جدوجہد یا انتظار کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

Imran Changezi

Imran Changezi

تحریر: عمران چنگیزی
[email protected]
Cell # 0333 3015926