5 جولائی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے 1977ء کو عوام کی منتخب پیپلز پارٹی کی حکومت کا ایک فوجی آمرضیاء الحق نے تختہ الٹ کر ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا جس کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ آمرضیاء نے اپنی ان کی تسکین کیلئے دنیا کے مقبول عوامی رہنما کو 4 اپریل 79ء کو پھانسی دیکر شہید کردیا۔ بھٹو ایک نظریہ کا نام ہے جس نے پسے ہوئے طبقہ کو سیاسی شعور دیکر اپنے حقوق کے حصول کیلئے آواز بلند کرنے کی طاقت دی یہی وجہ ہے کہ کوئی آمر بھٹو کو عوام کے دل سے نہیں نکال سکا جب تک دنیا قائم ہے بھٹو کا نام زندہ و جاوید رہے گا۔ پیپلز پارٹی شہید قائدکے مشن کی تکمیل کیلئے ہمیشہ تن من دھن کے ساتھ کام کرتی رہے گی 5 جولائی کو پاکستانی عوام کی جمہوری امنگوں پر بہیمانہ حملہ ہوا شہید ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ٹکڑے ٹکڑے قوم کو متحد کیا تھا اور مضبوط معاشی عزائم کے ساتھ قوم کو متحرک جمہوری نظام میں اکٹھا کیا تھا۔
ایٹمی طاقت بننے کے راستے پر ملک کو ڈالا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ریاست کو جمہوری بنانے کے ذریعے، بااختیار منتخب لوگوں سے اقتدار حاصل کرکے اور لوگوں تک پہنچا کر عوام کو بااختیار بنایا۔ 5 جولائی 1977ء کو پاکستان کی تاریخ میں ایک فوجی بغاوت میں جب ایک آمر نے جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا تو وہ کالا دھبہ رہا یہ واقعہ کیوں رونما ہوا اس کے بارے میں سب سے معتبربات یہ کہی جاسکتی ہے کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھٹو حکومت نے معاشرتی جمہوریت ، بائیں بازو کے فلسفہ ، اور سوشلسٹ رجحان کے حامیوں کی حوصلہ افزائی کی اور اس طرح کے خیالات آہستہ آہستہ لوگوں کی عام زندگیوں میں داخل ہوگئے۔ لیکن کچھ مصنفین اور مورخین کے مطابق کچھ بااثر قوتیں 1971 میں پیپلز پارٹی کے اقتدار کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ 1976 میں ، وزیر اعظم بھٹو نے لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیاء الحق کو چار اسٹار رینک پر ترقی دینے اور اس کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف اور جنرل محمد شریف کو چیئرمین جوائنٹ چیف کے عہدے پر تقرری کے لئے سات فوجی جرنیلوں کو زبردستی ریٹائرڈ کردیاگیا بھٹوکے خلاف قدامت پسند اور مذہبی جماعتوں کے دلوں میں یہ لاوا پکتا رہا اسی دوران 1976 میں مولانا شاہ احمدنورانی اور مولانا مفتی محمود کی قیادت میں نو مذہبی اور قدامت پسند جماعتوں نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیدیا ، جسے پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کہا جاتا ہے۔ جنوری 1977 میں ، وزیر اعظم بھٹو نے نئے عام انتخابات کروانے کااعلان کرتے ہوئے فوری طور پر انتخابی مہم شروع کردی۔ پی این اے مذہبی نعروں اور دائیں بازو کے سیاسی ایجنڈے کے پیچھے متحد تھا۔
دوسری طرف ، پیپلز پارٹی نے زراعت اور صنعت میں سماجی انصاف کے پلیٹ فارم پر مہم چلائی۔ عام انتخابات کے بعد جب الیکشن کمیشن (ای سی) نے نتائج کا اعلان کیا تو پی این اے کی قیادت حیرت زدہ رہ گئی کہ قومی اتحاد کے بڑے بڑے لیڈرہارگئے اورپاکستان پیپلزپارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی PNA نے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے حکومت پر منظم دھاندلی کا الزام عائد کردیا بہت سارے مقامات پر ، خاص طور پر جہاں پی این اے کے امیدوار مضبوط تھے ، الزام لگایا گیا کہ پولنگ کئی گھنٹوں تک بند رہی۔
یہ بھی اطلاعات تھیں کہ پولیس یونیفارم میں موجود پیپلز پارٹی کے مسلح افراد نے بیلٹ بکسوں کو ہٹا دیا۔ نشان زدہ بیلٹ پیپرز بھی کراچی اور لاہور میں سڑکوں اور کوڑاکرکٹ پر پائے گئے۔یہ افواہیں تیزی سے گردش کرنے لگیں کہ نتائج براہ راست وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کئے گئے ہیں۔ پی این اے نے فوری طور پر بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم بھٹو سے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا پی این اے میں شامل مذہبی جماعتوں نے بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک کو تحریک نظام ِ مصطفےٰ ۖ کا نام دے دیا جس کے نتیجہ میں مساجد میں علماء کرام بھٹو کے خلاف تقریریں کرنے لگے جس سے عوام کو مشتعل ہوتے چلے گئے اسی دوران سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں میں کم از کم 200 افراد ہلاک ہوگئے ۔
بھٹو نے اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے فیڈرل سیکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) اور پولیس کابلادریغ استعمال کیا ہزاروںحکومت مخالف کارکنوںکو گرفتارکرلیا پی این اے کے ایک رہنما نے خفیہ طور پر مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس کو خط لکھا کہ وہ بحرانوں کے خاتمے کے لئے مداخلت کریں۔ اس طرح مارشل لاء کے نفاذ کیلئے مسلح افواج کو دعوت دے دی گئی بھٹونے قومی اتحادکے رہنمائوںکو مذاکرات کی دعوت دی لیکن وہ مذاکرات ناکام ہوگئے جس پر 5 جولائی 1977ء کوفوج نے بھٹوحکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لاء لگادیا ذوالفقارعلی بھٹو سمیت پیپلزپارٹی کے رہنمائوںکو گرفتارکرلیاگیا کہا جاتاہے کہ صدر ضیاء الحق نے آرمی چیف بننے کے بعد فوج سے پہلے ہی بھٹو وفاداروں کو ختم کر دیا تھا جس سے انہیں مارشل لاء لگانے میں کوئی دقت پیش نہ آئی اور یوںپیپلزپارٹی کے اقتدارکا خاتمہ ہوگیا جو بھٹوکوپھانسی دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ 1977 ء کا مارشل لا پاکستان کے عوام پر بدترین حملہ تھا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو نے امت مسلمہ کو متحد کیا اور عالم اسلام کی سیاسی بیداری کے ساتھ رہنمائی کی اور دو آمروں کا مقابلہ کیا اور اسے للکارا، اور بہادری کے ساتھ لوگوں کے حقوق کے لئے جنگ لڑی، یہاں تک انہیں تختہ دار کا سامنا کرنا پڑا ان کے حامیوں اور پیروکاروں کو کوڑے، قید تنہائی، قید اور پھانسی سمیت غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پانچ جولائی 1977 میں پیپلزپارٹی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی جانب سے مارشل لاء لگا دیاتھا جن قوتوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا وہی ان کے ” عدالتی قتل” میں بھی ملوث تھے۔ تاریخ میں اس دن کو ہمیشہ سیاہ دن کے طور پر ہی یاد رکھا جائے گا۔ 1977 کے مارشل لاء کے بعد سیاسی کارکنوں نے اپنی جدوجہد سے پارٹی کو زندہ رکھا آمر ہلاک ہو گئے لیکن تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرتی۔