تحریر : محمد عمران سلفی محاذ جنگ گرم تھا کہ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی آواز ریڈیوں پر گونجی ”میری عزیز ہموطنو ، السلام و علیکم، پاکستان کے دس کروڑ مسلمانوں کے دل کی دھڑکنوں میں کلمہ طیبہ کے صدائیں گونج رہی ہیں بھارتی حکمرانوں کو ابھی تک یہ محسوس نہیں ہوا کہ انہوں نے کس قوم کی غیرت کو للکار ہ ہے، جس کے بعد پوری پاکستانی قوم پاک فوج کی معاون و مددگار ثابت ہوئی اور جنگ ستمبر 1965 فوج کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوم نے بھی لڑی۔ کھیم کرن کے محاذ پر جرات و بہادری کا مظاہرہ کرنے والے وہ شہدا جن کی یادگاریں اور آخری آرام گاہیں مصطفی آباد میں قائم ہیں ان میں بریگیڈئیر احسن رشید شامی کا نام نمایاں ہے، بریگیڈئیر احسن رشید شامی شہید ہلال جرات کی یاد گار شامی مینار بھی مصطفی آباد میں بنایا گیا ہے ، جنہوں نے جہاد کشمیر میں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا، پانڈوکی پہاڑی کو بھی سر کیا، جس کے اعتراف و ستائش میں آپ کو تمغہ دفاع سے نوازا گیا تھا۔
1955 سے 1958 تک قائرہ کے پاکستانی سفارتحانے میں فوجی اتاشی رہے، 25 دسمبر 1960 کو بریگیڈئیر کے عہدے پر فائز ہوئے، 6 ستمبر 1965 کو جب بھارت نے پاکستان پر عیارانہ حملہ کیا تو آپ کو کھیم کرن سیکٹر میں دفاع وطن کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی، آپ نے اپنی مخصوص سرفروشانہ ہمت، مثالی جرات اور بلند کردار عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے ٹڈی دل فوج کو اپنے قلیل سرفروش ساتھیوں کی مجاہدانہ سرگرمیوں کی مدد سے شکست فاش دی اور کھیم کرن کے محاذ پرقبضہ کر لیا۔
10ستمبر کی صبح فرض کی ادائیگی اور شوق شہادت میں سرشار دشمن کے علاقے میں اسکی فوجوں کے قلب میں پہنچ گئے اور دشمن کی گولی لگنے سے شہادت پائی، شکست کھا کر بھاگتا ہوا دشمن آپ کا جسد خاکی بھی اٹھا کر ساتھ لے گیا، جسے انڈیا میں اس کی بہادری و جرات مندی کی وجہ سے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا، جنگ بندی کے بعد 23فروری 1966کواس قابل فخر اور نا قابل تسخیر شہید کا جسم مبارک کو بھارت سے لاہور لایا گیا اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ قبرستان شہیدان میں دفن کیا گیا،ان کی یاد گار شامی مینار مصطفی آباد میں بنائی گئی، ان شہدا میں دوسرا بڑا نام لیفٹننٹ ندیم احمد خان شہیدہے جن نے 10ستمبر کو کھیم کرن کے محاذ پر مادر وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
Ahsan Rasheed
دوران جنگ شہادت کا رتبہ پانے والے وہ شہدا جن کی آخری آرام گاہیں مصطفی آباد میں بنائی گئی تھی۔ان میںمیجرسلطان اسد جان،صوبیدار میجر شیر اسلم،صوبیدار محمد حسین، نائب صوبیدار معین شاہ،نائب صوبیدارسرور خان، نائیک علی اصغر،نائیک گل مرجان،نائیک لباس خان،نائیک محبوب خان،نائیک محمد محبوب،نائیک نواب خان،نائیک محمد رازاق، لانس نائیک محمد خان، لانس نائیک گل آزاد، لانس نائیک عبدالقیوم، لانس نائیک میراں بخش، نائب رسالدار محمد افضل خان، نائب رسالدار احمد خان، نائب رسالدار محمد یوسف، نائب رسالدار حوالدار مہر خان،نائب رسالدارحوالدار میجر محمد سرور، وی ایم تاج الحق،کرافٹ مین محمد حنیف،حوالدار ناظم علی،حوالدار محمد اقبال، سپاہیوں میں بوستان، میاں نعیم انور ، محمد اکرم، سوار داد خان، علی بخش،نور محمد، دوست محمد، گلزار حسین، عدالت خان،محمد بنارس خان، قمر دین ڈرائیور، محمد شریف،محمد عالم،رحیم شاہ، دولت محمد، منظور الہی،انجر گل، محمد اسلم،دلاور حسین،عبدالرحمان، محمد افضل کواٹر ماسٹر، مبارک شاہ، مہری خان، مہندی خان، اجمل خان،محمد ریاض، رضا دین، محمد مسکین، گل خستہ، محمد آزاد، رضا حسین،محمد ریاض شامل تھے، جنہوں نے دفاع کے فرائض ادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔
٭ میجرزسلطان اسد جان،کمپنی کمانڈ کرتے ہوئے دشمن کے حملے کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے، صوبیدار میجر شیر اسلم 12 ستمبر کو ایمونیشن کی سپلائی کے دوران دشمن کے ٹینک کا گولہ لگنے سے شہید ہوئے،سپاہی گل مرجان نے میجر خادم شہید (ستارہ جرات( کے ہمراہ دشمن کے ٹینکوں کو تباہ کرتے ہوئے شہادت پائی،سپاہی دوست محمد 12 ستمبر کو دن 11 بجے شہید ہوئے ان کی شہادت کی بعد بھی ان کی گن سے متواتر فائرنگ جاری رہی۔ ٭مجاہدفورس للیانی کے جوانوں نے بھی فوج کے شابشانہ ساتھ دیا، انہیں اسلحہ کی سپلائی، کھانا او ر مرہم پٹی جیسے فرائض ادا کئے، ٭محاذ جنگ سے واپس آنے والے سپاہیوں کو اپنے آپ پر فخر تھا کہ ملک و ملت نے انکا جو مقصد مقرر کیا تھا وہ اس میں آج سرخرو ہوئے ہیں، انہوں نے اپنا خون دیکر وطن عزیز کے ناموس اور آزادی کو بچالیا۔
٭ہمارے کل پر اپنا آج قربان کرنے والوں کی یاد گاریں اور آخری آرام گاہیں سیاسی قائدین و انتظامیہ کی بے حسی کا منہ چڑا رہی ہیں، گنج شہدا کی چار دیواری نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے جانور قبرستان میں آوارہ گردی کرتے نظر آتے ہیں، بریگیڈئیر احسن رشید شامی جس کی بہادری و جرات کا اعتراف کرنے پر دشمن بھی مجبور ہو گیا تھا کی یاد گار شامی مینار بھی انتہائی خستہ ہو چکی ہیں۔ گزشتہ سال اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں اور پریس کلب مصطفی آباد للیانی(رجسٹرڈ) کے صدر محمد عمران سلفی ودیگر صحافیوںکی طرف سے شہدا کی خستہ حالت یادگاروں کی طرف توجہ دلائی گئی جس پر اس وقت کے ڈی سی اوقصور عدنان ارشد اولکھ نے 6ستمبر کو منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان شہدا کی یادگاروں کی مرمت اور ندیم پارک کو آباد کرنے کا اعلان کیا تھا جو آج تک پورا نہیں ہو سکا۔
Cemetery
جس پر ہر سال ضلعی انتظامیہ پھولوں کی چادر چڑھاکر فوٹو سیشن کرواتی ہے اور پھر بھول جاتی ہے، جبکہ لیفٹننٹ ندیم احمد خان شہید کے نام پر بننے والی ندیم شہید پارک اب ویرانے میں تبدیل ہو چکی ہیں، شہدا کی آخری آرام گاہوں پر ان کی نام کی لگی تختیاں بھی اب مدہم ہورہی ہیں، کھیم کرن کے محاذ پر اپنی جرات و بہادری کی مثال قائم کرتے ہوئے انہوں نے ہمارے کل کیلئے اپنا آج قربان کر دیا تھا جن کے جسد خاکی کو امانتََ مصطفی آباد میں دفن کیا گیا تھا جب شہدا کے ورثہ ان کے جسد خاکی اپنے اپنے علاقوں کو لیجانے کیلئے آئے تو لیفٹننٹ ندیم احمد خان شہید کے ساتھ رہنے والے حاجی بابا محمد اسمعیل جسے فوج کی طرف سے مسکین کا لقب دیا گیا تھا۔اور دیگر معززین علاقہ نے اسرار کیا کہ ہم ان شہدا کی آخری آرام گاہوں کی حفاظت کریں گے۔
حاجی محمد اسمعیل کی جب تک زندگی رہی انہوں نے اپنا وعدہ وفا کرنے کی بھر پور کوشش کی ،جہاں پر ہر سال 6ستمبر کو فوج کے دستے ا ن شہدا کو سلامی پیش کرتے، بچوں کے تقریری مقابلہ جات منعقد ہوتے، نوجوان کبڈی کھیلتے۔مصطفی آباد کے نوجوان جن میں موجودہ ایم پی اے ندیم سیٹھی بھی شامل ہوتا تھا ان شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ایک سبق آموز سٹیج ڈرامہ بھی پیش کیا جاتا جس میں نسل نو کو ان کی قربانیوں کے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے، عرصہ داراز سے فوج کے دستوں کی سلامی کا سلسلہ بند تھا جو گزشتہ سال سے دوبارہ شروع ہو گیا ہے، جبکہ اسٹیج ڈراموں کا سلسلہ تا حال بند ہے۔
میرے علم کے مطابق یہ پاکستان کا پہلا مقام ہے جہاں ایک ہی جگہ 55شہدا دفن ہیں، شہدا کی آخری آرامگاہیں اور خستہ حال یاد گاریں اہلیان مصطفی آباد سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا آپ اپنا وعدہ بھول گئے ہیں، اہلیان مصطفی آباد سیاسی رہنمائوں اور ضلعی انتظامیہ سے ان شہدا کی آرام گاہوں اور یاد گاروں کی تعمیر و مرمت کا مطالبہ کرتے ہیں، شہید تم سے یہ کہہ رہے ہیں کہ لہو ہمارا بھلا نہ دینا۔