حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ امّت مسلمہ کے تیسرے خلیفہ ہیں۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے داماد تھے آپ کا لقب ذوالنورین اسی نسبت کی وجہ سے مشہور ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کاآپ سے نکاح کیا۔ آپ عام الفیل کے چھٹے سال پیدا ہوئے اور حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت اسلام کے بعد ایمان لائے۔ آپ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آٹھ سال وہاں قیام کیا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ نے حضرت عثمان کو مکّہ قاصد بنا کر بھیجا۔ قریش نے مکّہ میں آپکو روک لیا اور شہادت کی افواہ پھیلا دی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اپنے چودہ سو صحابہ سے بیعت لی اور حضرت عثمان کی طرف سے اپنا ہاتھ رکھا۔ جب قریش مکّہ کو یہ علم ہوا انہوں نے آپ کو طواف کعبہ کی اجازت دی۔
آپ رضی اللہ علیہ عنہ دیدار کعبہ کے لئے آپ مدت سے ترس رہے تھے مگر آپ نے کفار کی اس پیشکش کو بڑی شان بے نیازی سے ٹھکرا دیا اور فرمایا : میں اس وقت تک طواف کعبہ نہ کرونگا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم طواف نا کر لیں۔ حضرت عثمان غنی کو حضرت عمر کی شہادت کے بعد مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کیا گیا۔ آپ 21 سال تک خلیفہ رہے۔ دوران خلافت آپ کا سب سے اہم کام قرآن پاک میں اعراب کا اضافہ ہے۔ جب اسلام بہت علاقوں میں پھیلنا شروع ہوا جہاں عربی مادری زباں نہ تھی اور لوگوں نے اپنی زبانوں کے مطابق قرآن کی قرآت کرنے لگے۔ جس پر حضرت عثمان نے ام المومنین حضرت حفصہ سے قرآن کا نسخہ حاصل کیا جو حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں تکمیل کیا گیا تھا اور پھر آپ نے اعراب کے ساتھ قرآن کے نسخے ہر صوبہ میں بھیجے۔
Hazrat Muhammed (S.A.W.W)
خلافت کے آخری ایام میں باغیوں نے آپکو خلافت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا جس پر بہت فسادات شروع کئے گئے آپ نے ایک روز اپنے گھر کی چھت سے باغیوں کو مخاطب کر کے فرمایا : ” کیا تمہیں معلوم ہے جب رسول اللہ نے مسجد نبوی کے لیے زمین خریدنی تھی تو آپ نے فرمایا تھا کہ کون ہے جو اس زمین کو عوض جنت خریدے۔ تو میں نے وہ زمین خریدی اور وقف کی اور آج تم مجھے اس زمین میں سجدہ نہیں کرنے دیتے اور بخدا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینے تشریف لائے تو مدینہ میں رومہ کے علاوہ کوئی پانی کا کنواں نا تھا اور رسول اللہ نے فرمایا کہ کون ہے جو اس کنویں کے عوض جنت لے تو میں نے ہی رسول اللہ کی آواز پر لبیک کہا اور آج تم نے مجھ پر پانی بند کر رکھا ہے۔ مگر اس تقریر سے باغیوں پر اثر نا ہوا۔ صحابہ کرام نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ شام تشریف لے جائیں مگر آپ نے فرمایا کہ میںحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دیار چھوڑ کر کہیں نا جاؤنگ۔
جس پر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے حضرت امام حسن و حسین کو آپ کے گھر آپکی حفاظت کے لئے بھیجا۔ باغیوں کے حملہ سے حضرت امام حسن اور کچھ دیگر صحابہ زخمی ہوگئے۔ چناچہ حضرت عثمان نے سب کو واپس بھیج دیا کہ انھیں یہ گوارا نہیں کے انکے لئے لوگوں کا خون بہے۔ چالیس روز تک آپ کے مکان کا محاصرہ کیا گیا اور گھر والوں کا کھانا پینا بند کر دیا گیا۔ پھر ایک رات جب آپ تلاوت قرآن پاک میں مشغول تھے تو کنانہ بن بشر نامی شخص نے آپ پر وار کیا۔ آپ زخموں کی تاب نا لا کر 18 ذی الحج کو شہادت کے مرتبہ پر پہنچ۔ شہادت سے پہلے آپکی زبان پر یہ کلمات تھے ” بسم اللہ تو کلت علی اللہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو تین دن تک شرپسندوں نے دفن کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔ آخر تین دن کے بعد مدینہ کے کچھ با اثر لوگوں نے جن میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دفنانے کے بارے میں بات چیت کی اور یہ بھی درخواست کی کہ آپ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی اس میں مدد کے لئے کہیں۔ جب شرپسندوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ راستہ میں پتھر لے کر بیٹھ گئے اور جنازہ گزرنے پر اس پر پتھراؤ کیا۔ مدینہ میں ایک احاطہ تھا جس کا نام حش کوکب تھا اور یہودی اس میں دفن ہوتے تھے۔ چونکہ جنت البقیع میں شرپسند حضرت عثمان کے جسد مبارک کو دفن نہیں ہونے دیتے تھے اس لئے آپ کی نعش کو حش کوکب میں دفنانے کا پروگرام بنایا گیا۔ اور رات کے وقت آپ کی تدفین کی گئی۔ یہ احاطہ جنت البقیع سے کچھ فاصلے پر تھا۔ جب امیر معاویہ خلیفہ بنے تو انہوں نے احاطہ کی دیوار گرانے کا حکم دیا اور لوگوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے مردوں کو اس خالی جگہ میں دفن کریں تاکہ یہ جگہ مسلمانوں کے قبرستان یعنی جنت البقیع میں شامل ہو جائے۔