خلیفہ سوم امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنھا قریش کی ایک شاخ بنو امیہ میں پیدا ہوئے۔ والد عفان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ سے جا ملتا ہے۔ حضرت عثمان ذوالنورین کی نانی نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنھا سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ آپ ایک خدا ترس اور غنی انسان تھے۔ آپ اللہ کی راہ میں دولت دل کھول کر خرچ کرتے۔
اسی بنا پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو غنی کا خطاب دیا۔ آپکا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین ” ہے۔ آپ نے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ حضور پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں حضرت عثمان غنی کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا۔ کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا۔ چچا نے آپ سے کہا کہ جب تک تم اسلام کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔
یہ سن کر آپ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔ آپ کو اس لئے ذوالنورین کہا جاتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگر آپ کے نکاح میں آئیں یہ وہ واحد اعزاز ہے جو کسی اور حاصل نہ ہو سکا۔ آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں کیا جاتا ہے یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ ہی جنت کی بشارت دی تھی۔ آپ نے اسلام کی راہ میں دو ہجرتیں کیں۔ ایک حبشہ اور دوسری مدینہ منورہ کی طرف۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنھا کی وفات 18 ذی الحجہ کو ہوئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنھانے اپنی وفات سے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چھ صحابہ اکرام شامل تھے۔
Hazrat Muhammed (S.A.W.W)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمان بن عوف رضوان اللہ اس کمیٹی میں شامل تھے۔ اس کمیٹی نے حضرت عثمان کو خلیفہ نامزد کیا۔اور اس کے تین دن بعد حضرت عثمان کو کثرت رائے سے خلیفہ سوم منتخب کر لیا گیا۔ حضرت عثمان اس وقت 70سال کے ہو چکے تھے۔ آپ نے 35 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ 23 سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر اسلام کی خدمات کی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق کی خلافتوں کے دوران جن کا عرصہ بارہ سال سے کچھ زیادہ بنتا ہے خدمات سر انجام دیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں خلیفہ بن کر بھی آپ نے مزید اتنے سال خدمت دین کی توفیق پانی تھی جتنے سال مجموعی طور پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافتوں کا زمانہ بنتا ہے۔
آپ کے دور خلافت میں ایران اور شمالی افریقہ کا کافی علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض پیشگوئیاں بھی آپ کے خلیفہ بننے کے بارے میں موجود تھیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا: عثمان! اللہ تعالیٰ تم کو ایک کْرتہ پہنائے گا۔ اگر لوگ تم سے یہ مطالبہ کریں کہ اس کْرتہ کو اتار دو تو تم ہر گز اس کو نہ اتارنا۔ اس پیشگوئی میں حضرت عثمان کی خلافت کی پوری تصویر کھینچ دی گئی تھی کہ آپ کی خلافت کے دوران کوئی فتنہ نمودار ہو گا اور فتنہ کرنے والے آپ کو خلافت چھوڑنے پر مجبور کریں گے تا کہ خلافت راشدہ کسی طرح ختم ہو جائے اور مسلمانوں کی طاقت منتشر ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نصیحت فرمائی کہ ایسی صورت میں اپنے منصب پر مضبو طی سے قائم رہنا ہے۔ چنانچہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں جہاں اسلام کو مزید تر قیات نصیب ہوئیں اور سلطنت کو وسعت ملی وہاں ہی فتنوں نے بھی سر اْٹھایا۔
35 ھ میں ذیقعدہ کے پہلے عشرہ میں باغیوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنھا نے صبر اور استقامت کا دامن نہیں چھوڑا۔ محاصرہ کے دوران آپ رضی اللہ تعالی عنھا کا کھانا پینا بند کر دیا گیا۔ تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے 82 سالہ مظلوم مدینہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنھا کو جمعة المبارک 18 ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوے شہید کر دیا گیا۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو تین دن تک شرپسندوں نے دفن کرنے میں رکاوٹ ڈالی۔
آخر تین دن کے بعد مدینہ کے کچھ با اثر لوگوں نے جن میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنھا اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالی عنھا بھی تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنھا سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنھا کے دفنانے کے بارے میں بات چیت کی اور یہ بھی درخواست کی کہ آپ اپنے خاندان کے لوگوں کو بھی اس میں مدد کے لئے کہیں۔ جب شرپسندوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ راستہ میں پتھر لے کر بیٹھ گئے اور جنازہ گزرنے پر اس پر پتھراؤ کیا۔ مدینہ میں ایک احاطہ تھا جس کا نام حش کو کب تھا اور یہودی اس میں دفن ہوتے تھے۔ چونکہ جنت البقیع میں شرپسند حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنھا کے جسد مبارک کو دفن نہیں ہونے دیتے تھے اس لئے آپ رضی اللہ تعالی عنھا کی نعش کو حش کو کب میں دفنانے کا پروگرام بنایا گیا۔ اور رات کے وقت آپ رضی اللہ تعالی عنھا کی تدفین کی گئی۔ یہ احاطہ جنت البقیع سے کچھ فاصلے پر تھا۔ جب امیر معاویہ خلیفہ بنے تو انہوں نے احاطہ کی دیوار گرانے کا حکم دیا اور لوگوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے مردوں کو اس خالی جگہ میں دفن کریں تاکہ یہ جگہ مسلمانوں کے قبرستان یعنی جنت البقیع میں شامل ہو جائے۔