اسلامی کلینڈر کے پہلے مہینے محرم کی دو تاریخ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن ہے مدینہ منورہ میں فیروز نامی ایک پارسی غلام تھا جس کی کنیت ابو لولو تھی۔ اس نے ایک دن آپ سے اپنے آقا کی شکایت کی اور کہا کہ مجھ سے بھاری محصول لیا جاتا ہے آپ نے اس سے دریافت کیا کونسا پیشہ کرتا ہے بولا نجاری، نقاشی اور آہنگری کا پیشہ کرتا ہوں کیونکہ اس پیشے سے مناسب پیسے ملتے تھے اس لیے آپ نے فرمایا ان صنعتوں کے مقابلے میں رقم کچھ بہت نہیں فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا دوسرے دن آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ فیروز نے چھ وار کیے جن میں ایک ناف کے نیچے پڑا زخم کے صدمے سے گر پڑے اس کے بعد فیروز نے خود کشی کر لی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا میرا قاتل کون تھا لوگوں نے کہا فیروز ۔” فرمایا الحمد اللہ کہ میں ایسے شخص کے ہاتھ نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا تھا۔
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نام، ابوحفص کنیت، فاروق لقب ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرب کے قبیلے عدی سے تعلق رکھتے تھے جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آٹھویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ اسلام کو ایک مضبوط اور طاقت ور شخص کی حمایت حاصل ہو جائے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پروردگار سے دعا مانگتے تھے کہ ابوالحکم بن ہشام یا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب میں سے کوئی مسلمان ہو جائے۔ ابو جہل تو ابو جہل ہی رہا مگر اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل اسلام کی طرف مائل کر دیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ کے پاس آئے اوررسول اللہ سے کہا میں خدا، اس کے رسول اور اس کی وحی پر ایمان لانے حاضر ہوا ہوں۔ اس کے بعد جس حمیت کے ساتھ پہلے اسلام کی مخالفت کرتے تھے اب اسلام کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ جس رات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا۔
اسی کی صبح کو رسول اللہ کے جانی دشمن ابو جہل کے پاس گئے اس نے دروازہ کھولا تو حضرت عمر نے اس سے کہا سن لو ابو جہل میں مسلمان ہو گیا ہوں اس نے دروازہ بند کر دیا۔ حضرت عمر کے اسلام لانے کے بعد مسلمان کعبے میں نماز پڑھنے لگے اس قبل وہ مکہ کے آس پاس کی پہاڑیوں میں چھپ چھپ کے نمازیں پڑھتے تھے۔ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں صحابہ اکرام سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلافت کے بارے میں رائے لی جس کو انہوں نے قبول کیا اور حضرت ابوبکر کے وفات کے بعد مسلمانوں کی آزادر ائے سے خلیفہ دوم منتخب ہوئے حضرت عمر کی حکومت دس سال چھ ماہ رہی۔حضرت عمر کا دور خلافت سنہری الفاظ سے لکھنے کا دور ہے۔
حضرت عمر اپنے دور حکومت میں صحابہ کے مشورے سے حکومت کرتے تھے کسی بھی معاملے پر پہلے سیر حاصل بحث ہوتی تھی پھر کثرتِ رائے سے فیصلے ہوتے تھے جن کو مشرق ومغرب میں پذیرائی ہوئی۔اس کے لیے حضرت عمر نے مجلسِ شوریٰ بنائی ہوئی تھی۔ اُس وقت دنیا کے دوسرے حکمرانوں میں یہ چیز نا پید تھی۔اس سے ثابت ہوا کہ شورائی نظام حضرت عمر نے قائم کیا۔طریقہ اس نظام کا یہ ہوتا تھا ،جس معاملے میں مشورہ ہوتا اس کو مسجد نبوی میں بلائے ہوئے لوگوں کے سامنے رکھا جاتا،حضرت عمر دو نماز رکعت نماز کے بعد ممبر رسول پر بیٹھتے اور بحث سننے کے بعد فیصلہ فرماتے۔حضرت عمر عام حقوق میں سب کے ساتھ برابر تھے۔ اسی لیے ایک عام آدمی کھڑے ہو کر حضرت عمر سے سوال کر سکتا تھا کہ آپ نے یہ کرتا کیسے بنا لیا جبکہ تقسیم کی گئی چادر سے یہ کرتا نہیں بن سکتا تھا تو حضرت عمر کو بیان کرنا پڑا کہ دوسری چادر میں نے اپنے بیٹے سے لے کر کرُتا بنوایا۔حضرت عمر کے لباس میں اکثر پیوند لگے ہوتے تھے۔حضرت عمر نے بہت سے محکمے قائم کیے۔ زراعت، قضا، بیت المال کی عمارتیں بنوائیں، بیت المال کے اندر کتنی رقم ہے اس کے حساب کتاب کا انتظام قائم کیا بیت المال کا امیر حضرت عبداللہ بن ارقم کو بنایا ان کے ماتحت حضرت عبدالرحٰمن بن عبیدالقاری اور معیف کو مقرر کیا حضرت معیف رسول اللہ کے انگشتی بردار تھے چار بڑی نہریں بنوائی جن کے نام یہ ہے، نہر ابی موسیٰ ،نہر معقل ،نہر سعد اور نہر امیرا لمومنین ۔ حضرت عمر کے دور میں کئی شہر آ با د ہوے۔ تمام مملکت کو صوبہ جات اور اضلاع میں تقسیم کیا ہوا تھا۔اور یہ نظام حضرت عمر نے ٢٠ ھ میں قائم کیا۔ حضرت عمر نے لوگوں کی تنخواہیں اور وظیفے مقرر کیے۔عاملوں کے تقرر کرتے وقت اُن کے فرائض اور حقوق کا تعین کیا۔خراج کا طریقہ حضرت عمر نے ایجاد کیا۔
حضرت عمر حضرت عبداللہ بن عباس کی بڑی قدر کرتے تھے اور ا ُن کے عمر میں چھوٹے ہونے پر لوگ اعتراض کرتے تھے۔ ایک محفل میں حضرت عمر نے لوگوں سے ایک سوال کیا۔ لوگ مکمل جواب نہ دے سکے۔ وہ ہی سوال حضرت عبد اللہ بن عباس سے کیا انہوں نے مکمل جواب دیا۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ میں اس لیے حضرت عبداللہ بن عباس کی قدر کرتا ہوں۔ جس پر لوگوں نے اس عمل کو تسلیم کر لیا۔ ایک دفعہ حضرت عمر کی محفل میں قریش کے سردار تشریف فر ما تھے۔اتنے میں حضرت بلال بھی تشریف لاے۔اُ ن سرداروں سے عمر نے کہا ہمارے سردار کے لیے جگہ بنائو اس پر سرداروں نے آپس میں چہ مہ گوئیاں کیں کہ جس وقت اسلام پر مشکل وقت تھا تو یہ ہی حضرت بلال کام آے تھے۔ ہماری عزت اب اسلام کی خدمت کر کے ہی قائم ہو سکتی ہے۔
Prophet Muhammad (P.B.U.H)
حضرت عمر بن العاص کے بیٹے کو اُسی قطبی کے ہاتھوں سزا دلائی جس کو بغیر قصور کے کوڑے مارے گے تھے۔ متعلقین رسول اللہ کا پاس رکھتے تھے۔ جن لوگوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ دیا تھا اور اپنا سب کچھ دین اسلام پر قربان کر دیا تھا ان کی خدمت کے اعتراف میں وظیفے مقرر کئے۔ بنو ہاشم سب سے پہلے درجے، اس میں حضرت علی اور حضرت عباس کے ناموں سے ابتدا،پھر بنو امےّہ، پھر بنو عبدالشمس، پھربنو نافل، پھر عبدالعزیٰ اپنا قبیلہ آخری درجہ پر رکھا۔ چناچہ اس حساب سے وظائف تقسیم ہوتے تھے۔ اصحاب بدر کی سب سے ذیادہ تنخواہیں مقرر کیں۔
سب سے بڑی مقدار حضرت اُسامہ بن زیاد کی مقرر کی اس پر اِن کے بیٹے عبداللہ بن عمر نے عذر کیا تو فرمایا۔ رسول اُسامہ کو تم سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور اُس کے باپ کو تمہارے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ حضرت علی نے اپنی بیٹی جو حضرت فاطمہ سے تھی حضرت عمر کے نکاح میں دی ۔حضرت عمر جب بیت المقدس گے تو کاروبار حکومت حضرت علی کے سپرد کر کے گے۔قضاء و قدر کا صیحح مفہوم حضرت عمر سمجھتے تھے۔حضرت عمر شام کے سفر پر تھے معلوم ہوا وہاں عمواس (وبائی مرض) بہت زور پر ہے۔واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ حضرت ابو عبیدہ نے طیش میں آ کر کہا قضاء الہی سے بھاگتے ہو۔ حضرت عمر نے جواب دیا۔
ہاں اللہ کے حکم سے اللہ کے حکم کی طرف بھا گتا ہوں۔ حجر اسود کے سامنے کھڑے ہو کر کہامیں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ایک درخت کے نیچے رسول للہ نے لوگوں سے بیعت لی تھی اس بنا پر یہ درخت متبرک سمجھا جانے لگا اور لوگ اس کی زیارت کو آتے تھے حضرت عمر نے یہ دیکھ کر اس درخت کو کٹوا دیا۔ سفر کے دوران ایک مسجد میں رسول نے نماز پڑھی تھی۔ حضرت عمر کے دور میں لوگ اس مسجد کی طرف دوڑے حضرت عمر نے لوگوں سے کہا اہل کتاب ان ہی باتوں سے پیغمبروں کی یادگاروں کو عبادت بنا لیتے تھے اور بہت سے واقعات ہیں جو محمد کی صحبت میں رہ کر سیکھے تھے اور بعد میں حضرت عمر نے اس واقعات کی روح کے مطابق عمل کیا۔
صاحبو!تاریخ میں مقدونیہ کے سکندر اعظم کو( الیگزینڈر ) کہا جاتا ہے جو غلط ہے کہ اُس نے دنیا فتح کی تھی اُس کی سلطنت صرف 17 لاکھ مربع میل پر تھی جبکہ حضرت عمر کی خلافت 22لاکھ مربع میل کے علاقے پر تھی اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ حضرت عمر سکندر اعظم تھا نہ کہ مقدونیہ کا بادشاہ۔ حضرت عمر نے مسند خلافت پر بیٹھتے وقت جو خطبہ دیا اُس کے ابتدائی الفاظ یہ تھے اے الہی اگر میں سخت ہوں مجھے نرم کر دے۔ میں کمزور ہوں مجھے قوت دے۔ عرب قوم سے خطاب کر کے کہا ،ہاں عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے لیکن میں اِن کو راستے پر چلا کے چھوڑوں گا۔ حضرت عمر سے فقہ کے مسائل کی تعداد کئی ہزار ہے۔ ان میں تقریباّ ایک ہزار بڑے مسئلے ایسے ہیں جو کہ فقہ میں مقدم ہیں جن کو حضرت عمر نے حل کیا اور ائمہ اربعہ نے ان کی تقلید کی۔
بعض مسائل میںصحابہ کرام میں اختلاف ہوا تو حضرت عمر نے صحابہ کی مجلس بلائی انصار و مہاجرین کو جمع کیا مگر پھر بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو ازواج مطہرات سے معلومات حاصل کی گئیں اوراُن کی راے پر عمل کیا گیا جس سے اسلام میں خواتین کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ رسول کے زمانہ مبارک میں بہت سی راے جو حضرت عمر نے دی اُس پر وہی نازل ہوئی مثلاّ قیدیانِ بدر، حجاب ازواج مطہرات نماز بر جنازہ منافق وغیرہ۔ حضرت عمر نے حضرت عائشہ صدیقہ سے حضور کے پہلو میں دفن ہونے کی درخواست کی جو انہوں نے نے مان لی اسطرح آپ حضرت محمد کے پہلو میں دفنائے گئے حضرت عمر کے دور میں بہت فتوعات ہوئیں جیسے اوپر ذکر ہو چکا ہے ان کی حکومت ٢٢ لاکھ مربع میل پر تھی۔ عوام کی خدمت کے لیے بہت سے محکمے قائم کئے گئے تھے چار بڑی نہریں بنائی گئیں تھیں۔ سڑکیں، مسافر خانے اور راستوں میں عوام کی حفاظت کے لیے چوکیں بنائی گئی تھیں۔ علم کی قدر تھی، اصحاب رسول کی عزّت تھی، بیت المال عام مسلمانوں کی امانت سمجھا جاتا تھا آجکل کے حکمرانوں کی طرح بیت المال سے کرپشن، بے جا اسراف اور حکومتی اہلکاروں کو ناجائز مراعات نہیں دی جاتی تھیں خوف خدا تھا اللہ نے آسمان اور زمین کے خزانے کھول دئیے تھے۔ امن آمان تھا، عدل انصاف تھا،حقوق و فرائض کی تقسیم تھی انسانیت کی قدر تھی۔ قارئین !اللہ سے دعا ہے کہ مسلمان حکومتوں میں پھر سے خلفاء راشدین جیسا نظام حکومت قائم ہو جائے تاکہ لوگ سکھ کا سانس لے سکیں آمین۔