تحریر : سید توقیر زیدی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ جب تک پاکستان کو امن کا گہوارہ نہیں بنائیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے دہشتگردوں کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی آرمی پبلک سکول(پشاور) کے طلبا کی قربانی نے قوم کو نیا جذبہ دیا یہ حملہ ہماری جدوجہد کو نقصان پہنچانے کی کوشش تھی شہید ہونے والے بچوں کے دکھ درد کو سمجھتا ہوں آج کی تقریب کا مقصد ان شہدا کی قربانیوں کو یاد رکھنا ہے، یہ واقعہ ایک کاری ضرب تھی جو ہمارے دل اور جگر پر لگی اور اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا۔ لیکن دشمن ہمارے جذبہ ایمانی کو اور دہشتگردی کے خلاف ہماری جدوجہد سے ہمیں ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئے بطور آرمی چیف اور بطور لوگوں کے ایک نمائندہ کے میرا عزم ہے اور پاکستانی فوج کا بھی عزم ہے کہ جب تک ہم ہر بچے کے خون کا حساب نہیں لے لیتے جب تک پاکستان سے دہشتگردی کا قلع قمع نہیں کر دیتے ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ ہم پر ہر بچے کا خون قرض ہے۔ تمام بائیس ہزار لوگ جو اب تک شہید ہوئے ان کا خون قرض ہے۔ ہم نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے خواب کی روح کے مطابق پاکستان کو پرامن اور اسلامی مملکت بنانا ہے، وہ آرمی پبلک سکول میں شہید طلبا کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
دہشتگردی نے پاکستان کے جسد قومی کو جس حد تک مجروح کیا ہے جتنی جانی اور مالی قربانیاں پاکستا ن نے اس جنگ میں دی ہیں کوئی دوسرا ملک اور قوم اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتے ، امریکہ نے نائن الیون کا بدلہ لینے کے لئے افغانستان پر فضائی حملہ کر کے طالبان کی حکومت کا خاتمہ تو کر دیا اور کابل کے تخت حکومت پر حامد کرزئی کولا بٹھایا لیکن اس کے نتیجے میں افغانستان میں جو حالات پیدا ہوئے اس کا سارا ملبہ پاکستان پر گرا، امریکہ کی اندھا دھند بمباریوں کے نتیجے میں افغانستان میں جو تباہی آئی تھی، جو افغان اس پر آتش زیر پا تھے وہ امریکہ پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں تو نہ تھے، جو امریکی فورسز افغانستان میں داخل ہو گئی تھی وہ قلعہ بند ہو کر مکمل حفاظتی انتظامات کر کے رہ رہی تھیں۔ ان پر حملے کی صلاحیت بھی افغانوں کے پاس محدود تھی چنانچہ انہوں نے سارا غصہ پاکستان پر اتارا اور پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، اس سے پہلے خودکش بمباروں کا وجود نہیں تھا پہلی مرتبہ ان کا استعمال شروع ہوا۔
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز، نیم فوجی اداروں، پولیس فورس اور ہر اس ادارے پر جو پاکستان کی سلامتی کا ذمہ دار تھا خودکش حملے شروع ہو گئے، فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا، سیکیورٹی فورسز کے تربیتی اداروں پر خودکش حملے کئے گئے، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں ،بازاروں اور پبلک مقامات پر بھی دھماکے کئے گئے دہشتگردی کا یہ سلسلہ کئی برسوں پر محیط ہے، وزیر اعظم نوازشریف نے 2013ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت کراچی آپریشن شروع کیا تو ساتھ ہی ساتھ قبائلی علاقوں میں ضرب عضب کا آغاز بھی کیا گیا۔ جس کی وجہ سے دہشتگردی کی وارداتوں میں معتدبہ کمی آ گئی۔ قبائلی علاقوں میں اسلحہ ساز فیکٹریاں اور دہشتگردوں کی تربیت گاہیں اور کمین گاہیں تباہ کر دی گئیں۔ بڑی تعداد میں دہشتگرد مارے گئے لیکن جو زندہ بچ رہے اور راہ فرار اختیار کرنے میں کامیاب ہو گئے انہوں نے افغانستان میں اپنے آپ کو دوبارہ منظم کر لیا اور وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں۔
APS Attack
آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور سازش بھی افغانستان میں تیار ہوئی تھی اور واردات کے بعد اس سلسلے میں ٹھوس شواہد بھی افغان حکومت کو پیش کر دیئے گئے تھے لیکن کارروائی نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان سے مزید وارداتیں بھی ہونے لگیں مایوس عناصر کی یہ کارروائیاں اگرچہ منتشر تھیں تاہم ان سے کافی جانی نقصان ہوتا رہا۔ جس کے بعد پاکستان نے سرحدوں پر کنٹرول سخت کرنے کا فیصلہ کیا اور سفری دستاویزات کے بغیر لوگوں کی آمد و رفت روک دی۔ سرحد پر چیک پوسٹیں بھی قائم کر دیں۔ افغان حکومت کونہ معلوم وجوہ کی بنا پر یہ اقدام پسند نہیں آیا، حالانکہ اس سلسلے میں افغان حکومت کا تعاون زیادہ بہتر انتظامات میں ممدو معاون ثابت ہو سکتا تھا۔ ان اقدامات کے بعد یہ بات پائی ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ سرحد پر لوگوں کی آمد و رفت پر نظر رکھنا کتنا ضروری ہے۔ کیونکہ صرف افغان باشندے ہی اس راستے سے پاکستان میں داخل نہیں ہو رہے تھے۔ بھارت بھی اپنے تربیت یافتہ ایجنٹ اسی راستے سے پاکستان میں بھیج رہا تھا یہ بھارتی ایجنٹ زیادہ تر سندھ اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے تھے اور گرفتار لوگوں نے اس سلسلے میں بہت سی تفصیلات حکام کو بتائیں۔
بھارت اور افغانستان کے خفیہ اداروں کا باہمی گٹھ جوڑ بھی اس سلسلے میں نظر آتا ہے جسے توڑنا بہت ضروری ہے۔تجزیہ خبر رساں ادارہ بی این پی کے مطابق آرمی پبلک سکول کے بچے کسی جنگ میں شریک نہیں تھے۔ ان پھولوں کو بے دردی سے مسل دینا سنگ دلی کی انتہا ہے۔ ان شہداء کے خون کا بدلہ لینا پاکستان پر فرض اور قرض ہے اور آرمی چیف نے یہی عہد کیا ہے کہ د ہشت گردی کا خاتمہ کر کے وطن کو امن کا گہوارہ بنایا جائے گا۔ وطن سے آخری دہشت گرد کا خاتمہ کر کے ہم اپنے شہداء کی روحوں کو شاد کام کر سکتے ہیں ، اگر دشمن کا مقصد اس کارروائی کے ذریعے پاکستان کے عزم کو شکست دینا تھا تو اسے بری طرح ناکامی ہو چکی ہے کیونکہ پاکستانی حکومت ،فوج اور قوم نے اس سلسلے میں ہار نہیں مانی اور اس عزم صمیم کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے کہ پاکستان سے آخری دہشت گرد کا خاتمہ کیا جائے گا۔
اگر چہ اب بھی دہشت گرد کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی وارداتیں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تاہم وہ پہلے کی طرح جگہ جگہ دندناتے نہیں پھررہے، ضرب عضب نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ان کے نیٹ ورک تباہ اور مواصلاتی رابطے بھی بڑی حد تک غیر موثر کردئے گئے ہیں اور بچے کھچے دہشت گردوں کا محدود قبائلی علاقے میں اب بھی پیچھا کیا جارہا ہے۔ آرمی پبلک سکول کے ننھے شہدا کے خون سے قوم کو جو نیا جوش و جذبہ حاصل ہوا اس سے کام لے کر دہشت گردوں کا مقابلہ ایک نئے عزم کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ شہید بچوں کی روحوں کے سامنے اسی صورت میں سرخرو ہوا جاسکتا ہے جب پاکستان سے آخری دہشت گرد کا خاتمہ کردیا جائے۔