تحریر: مریم ثمر اس وقت جتنے بھی مذاہب ہیں وہ سب کہنے کو تو خدا کے قائل ہیں اور خود کو ان مذاہب کی طرف منسوب کرنے اور خدا پر ایمان لانے کے مدعی ہیں ۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے اور ان لوگوں کی ایمانی حالت کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ ایمان ایک محض رسمی ایمان ہے ۔ جب بھی ایسے لوگ مذہبی جنونیت کو خود پر طاری کر تے ہیں اور مذہب کے نام پر خون کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ حقیقت میں دنیا کا کوئی مذہب اپنے عقائد کے تحفظ کے لئے قتل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اکیسویں صدی کا انسان گائے کی پوجا کرتا اور اسے پوتر مانتا ہے اس پر یقینا اعتراض نہیں ، اس لئے کہ یہ انسان کے ذاتی عقائد اور اس کے ایمان کی بات ہے۔ مسئلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے جب ایک جانور کو اتنا مقدس مان لیا جائے کہ ایک انسانی جان کی قیمت اس قدر کمترہوجائے کہ اسے تشدد کے بعد قتل کردیا جائے ۔جیسا کہ اکثر پاکستان اور ہندوستا ن میں دیکھنے میں آتا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان مذہب کے معاملے میں اس قدر غیر سنجیدہ اور جزبات کی ان نامنہاد حدوں کو عبور کر چکے ہیں کہ انہیں کرپٹ ترین سیاست دان تو قبول ہیں مگر جہاں مذہبی رسم و روج کی بات آتی ہے وہ نہ صرف ناقابل برداشت ہیں بلکہ دینی غیرت اور ایمان خطرے میں دکھائی دینے لگتا ہے ۔انھیں اس سے کسی کوئی سروکار نہیں کہ سیاست دان کیا گل کھلاتے ہیں اور انہوں نے ملک کو کتنا لوٹا ۔ دونوں طرف کے اقلیتی افراد خواہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں کلیدی آسامیوں پر ان کی کوئی گنجائیش نہیں ۔ جن ممالک کی مذہبی غیرت کا یہ حال ہو ان کے لئے مذہب کے تحفظ کی بات کرنا انتہائی مضحکہ خیر ہے۔ انسانیت کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو دونوں طرف ممالک کے حالات میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو مذہب کے نام پر مسلسل مظالم کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور انسانیت سوز سلوک روا رکھا جارہا ہے ۔ یہ نہ صرف قابل افسوس ہے بلکہ قابل مذمت بھی ہے۔
Indian Muslim
ہندوستان کے مسلمانوں کو ملک چھوڑنے کی دھمکی دی جاتی ہے ۔جب بھی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں انھیں پاکستان چلے جانے کا کہا جاتا ہے ۔ جیسے گزشتہ روز جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے فرمایا کہ اقلیتوں اور لبرل کو پاکستان چھوڑ کر ہندوستان چلے جانا چاہیے ۔ جنونی مذہبی اور مذہب کے ٹھکیداروں کو یہ عمومی اور مشترکہ رویہ ہے۔ ان تکلیف دہ حالات میں ہندوستان کے ادیبوں کا یوں ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا انتہائی قابل ستائیش قدم ہے اور اس وقت تواور بھی قابل تعریف سمجھا جائے گا جب اس کے مثبت نتائج مرتب ہوں گے ۔ اس پرامن احتجاج کی پہلی کامیابی صوبہ بہار میںبی جے پی کی حالیہ شکست کی صورت میں سامنے آچکی ہے ۔ جو ایک حوصلہ افزا اور کامیابی کی جانب یقینا ایک اہم قدم ہے اس پر امن احتجاج میں قلمکار برادری مسلمانوں کیساتھ کئے گئے اس ناروا سلوک پر اپنے ایوارڈ کی واپسی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اس کاوش کو یقینا تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
ماضی میں بھی قلمکار برادری نے ہمیشہ ظلم کے خلاف اسی طرح ا واز اٹھائی ۔ کوڑے کھائے جیل گئے اور قتل بھی کر دیئے گئے ۔ مگر آفرین ہے کبھی بھی ان کے قدم ڈگمگائے نہیں۔ ہندوستان میں چونکہ گائے کو مقدس مان کر اس کی پوجا کی جاتی ہے اس لئے مسلمانوں کا چاہیے کہ وہ کچھ ایسے حفاظتی اقدامات اٹھائیں جس سے ان کی قیمتی جانوں کے ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔
پہلی بات تو یہ ہے ہ گائے کی قربانی سب مسلمانوں پر فرض نہیں ہے ۔ اس لئے ضروری نہیں کہ ہندوستان کے مسلمان جو ایسے ملک میں رہتے ہیں لازمی قربانی کریں۔ باوجود اس دہرے معیار کے کہ ہندو ایسی گائے کو جو دودھ دینے کے قابل نہیں ہوتی اسے قصائی کے پاس فروخت کر دیتے ہیں ۔ انھیں اس پر کوئی اعترض نہیں۔ اگر قربانی کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو مخصوص جگہوں کو مقرر کرنے کے بعد باقاعدہ حکومت کی اجازت اور سرپرستی میں گائے کو زبح کیا جائے۔ ا ن علاقوں میں جہاں شدت پسند ہندوں کی اکثریت ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ خاص احتیاط کریں۔ اور ایسے تمام عوامل سے گریز کریں جس سے وہ تیش میں آجائیں ۔ اور جہاں تک ممکن ہو امن پسند اور صلح جو مسلمان شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی گزاریں۔
Kashmir People
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ایمان کا تعلق دل سے ہوتا ہے ۔ اس لئے گائے کی قربانی کی اگر نیت بھی ہو تو اس کا ثواب اللہ تعالی تک پہنچ جاتا ہے۔ میرے سامنے اس وقت عصمت چغتائی صاحبہ کا ایک خط ہے جو انہوں نے اس دور کے وزیر اعلی کشمیر کے نام تحریر کیا تھا ۔ آپ نے نہتی اور معصوم عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنے اس خط میں طنز کے خوب تیر چلائے ۔ آپ لکھتی ہیں۔
جناب فاروق عبداللہ صاحب ! آپ کی رائے میں ہندوستان کے ادیبوں کو تخریب کاروں کو سمجھانا چاہیے کہ وہ امن قائم کریں اور ملک کی سیوا کریں اور اللہ اور بھگوان کا شکر ادا کریں ۔ کہ انھیں انسان بنایا بندر اور سور نہیں بنایا ۔ امیر وزیر تو ان کے سیوک ہیں ۔ ان کی خدمت کے دکھ جھیلتے ہیں ۔ محلوں اور بنگلوں میں رہنے کی بڑی بڑی تنخواہ پاتے ہیں ۔ مفت رہنے کو شاندار محل ملتے ہیں ۔ جن کا کرایہ نہیں دینا پڑتا ۔ صدر صاحب بچارے تین سو کمروں کے محل میں رہتے ہیں ۔ بھاری پگار بھی پاتے ہیں ۔ اوپر کا خرچ بھی سرکار اٹھاتی ہے ۔ ہوائی جہازوں میں سفر کرنے کو مجبور ہیں ۔ بیل گاڑیوں بسوں اور چھکڑوں میں سفر کرنے کو ترستے ہیں ۔ کتنے پہرے دار وں کی مہربانی سے جیتے ہیں ۔ ورنہ فورا کوئی پاگل گولی اسے اڑا دے ۔ گاندھی جی اور مسز گاندھی کو شہادت کا درجہ بخشا ۔ سیدھے جنت میں بھیج دیا اور ہر صوبے میں گورنر مقرر ہیں جو شاندار محلوں میں بڑی بڑی دعوتیں دیتے ہیں ۔ جن میں بڑے سیٹھ ساہوکار شاعر اور ادیب تشریف لاتے ہیں ۔ خرچہ بڑی سرکار ہی اٹھاتی ہے ۔ ( حوالہ عصمت چغتائی شخصیت اور فن صفحہ 115 مرتبہ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش۔ )