اسلام آباد (جیوڈیسک) پاناما پیپرز کیس میں مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مریم نواز کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں، لندن فلیٹس ان کے بھائی حسین نواز کے ہیں۔
عدالت نے وزیر اعظم کے وکیل سے میاں شریف کی وفات کے بعد وراثتی جائداد کی تقسیم کی تفصیل طلب کرلیں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ پانامہ پیپرز سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔
مریم نواز شریف کے وکیل شاہد حامد نے پاناما کیس میں مریم نواز شریف سے متعلق عدالتی اختیار سماعت کو چیلنج کیا تھا ۔
مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مریم صفدر کی جانب سے جواب داخل کروا دیا ہے جس پر میرے دستخط ہیں،مریم صفدر نے مجھے اختیاردیا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ میاں محمد شریف کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کا کیا بنا؟
شاہد حامد نے کہا کہ شریف خاندان میں اس حوالے سے کوئی جھگڑا یا تنازعہ نہیں۔ اس کے بعدوزیر اعظم کے وکیل سے میاں شریف کی وفات کے بعد وراثتی جائداد کی تقسیم کی تفصیل طلب کر لی گئی۔
جسٹس آصف کھوسہ نے مریم نواز کے وکیل سے سوال کیاکہ کیا ممکن ہے کہ وراثتی جائداد کی تقسیم کے حوالے سے عدالت کو ایک دو روز میںآگاہ کیا جا سکے؟
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کیپٹن ریٹائرڈصفدر نے 2011 میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا،ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے کا کیا نتیجہ ہو گا؟
شاہد حامد نے جواب دیا کہ 2011 سے پہلے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی ہوتی تھی۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ پر الزام ہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے گوشواروں میں اہلیہ کے اثاثے چھپائے۔
شاہد حامد نے جواب دیا کہ یہاں نااہلی یا ٹیکس چوری کا سوال نہیں ہے،کیپٹن ریٹائر صفدر نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ مریم نواز کے گوشوارے لف کیے تھے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پرالیکشن کمیشن اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے کوئی اقدام نہیں کیا؟ عدالت سے کیپٹن صفدر کی نااہلی کی استدعا نہیں کی گئی۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی نااہلی مانگی گئی ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ الزام ہے کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر ایماندار نہیں رہے۔
شاہد حامد نے کہا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ ہونے پر نااہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،ٹیکس کا معاملہ ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہے،لیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار ہے، اگر ریفرنس میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا ہے تو سپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے؟ سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3 کے تحت متوازی کارروائی کیسے کر سکتی ہے؟
شاہد حامد نے کہا کہ عدالت ریفرنس خود سنے تو اس کی مرضی ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جب ایک متعلقہ با اختیار فورم ہے تو اس کے مقدمات ہم کیوں سنیں؟ دیگر ادارے بھی ریاست نے آئین کے مطابق بنائے ہیں۔
شاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم ہو یا عام شہری، قانون سب کے لیے برابر ہے، حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کسی رکن اسمبلی کے لیے کیا طریقہ کار ہے؟ منتخب نمائندے کی نا اہلی کے لیے کو وارنٹو کی رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔کیا سپریم کورٹ میں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے؟
شاہد حامد نے کہا کہ میں تو عدالتی سوالوں کے جواب دے رہا ہوں۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیا اس بنیاد پر سپریم کورٹ کارروائی نہ کرے کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے، فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے کہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا بھی ہے یا نہیں؟یوسف رضا گیلانی کے خلاف ریفرنس اسپیکر نے مسترد کیا تو معاملہ سپریم کورٹ آیا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعظم کی نا اہلی کا کیس کس ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے؟
شاہد حامد نے جواب دیا کہ اسپیکر کے فیصلے کے خلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،ریفرنس الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔