تحریر: سید انور محمود پانچ جولائی نواز شریف کی زندگی میں بھی ایک اہم دن رہا ہے، اگر پانچ جولائی 1977 کوجنرل ضیاءالحق ایک منتخب حکومت پر ناجائز قبضہ نہ کرتا تو آج نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم نہ ہوتے ، یقیناً اس سال بھی پانچ جولائی کو نواز شریف نے اپنے سیاسی باپ ضیاء الحق کو یاد کیا ہوگا، لیکن چالیس سال بعد پانچ جولائی 2017 ان کے خاندان کے لیے ایک اور یادگار دن بن گیا۔نواز شریف خاندان کے لیے سوکن بن جانے والی جےآئی ٹی میں وزیر اعظم نواز شریف، ان کے بھائی شہباز شریف، سمدھی اسحاق ڈار، داماد کیپٹن صفدر،دونوں بیٹے حسین نواز اورحسن نواز کے بعد ان کی بیٹی مریم نوازپانچ جولائی کو ملزم کی حیثیت سےجے آئی ٹی میں پیش ہویں۔اپریل 2016 میں وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کا پاناما پیپرز کی لیکس میں نام شامل ہونے پر ان سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا، پاناما پیپرز کی فہرست میں نواز شریف کے بیٹے حسین نواز، حسن نواز اوربیٹی مریم نوازکے نام شامل ہیں ۔ نواز شریف نے یہ کہہ کر اس الزام کو ماننے سے انکار کردیا کہ ان کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ہے۔ یکم نومبر 2016 سے سپریم کورٹ نے اس کیس کو سننا شروع کیا اور 20 اپریل کو اپنا فیصلہ سنادیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پانچ رکنی بینچ کے پانچوں جج صاحبان اس بات پر متفق ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اپنی بےگناہی ثابت نہیں کرسکے، اور نہ ہی ان کے بچوں کے دلائل ان کو بے گناہ ثابت کرتے ہیں۔البتہ تین ججوں نے کہا کہ ابھی ہم نے نا اہلی کا فیصلہ نہیں کیا ہے، ایک کمیشن بنایا جائے، اور 60 دنوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔
سپریم کورٹ کی تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل اراکین کو منتخب کیا۔ جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا۔جے آئی ٹی کی ٹیم جیسے جیسے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے قریب آرہی ہے وزیر اعظم کے خاندان،حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے وزرا اورارکان پارلیمنٹ کے رویوں میں بھی تلخی آتی جارہی ہےجس کا برملا اظہار وہ عوامی جلسوں اور میڈیا ٹاکس میں بھی کرتے رہے ہیں اور اپنے طور پر جے آئی ٹی کو اب تک متنازہ بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک بات جو پورئے شریف خاندان اور انکے حامی کرتے رہے ہیں کہ جو بھی جے آئی ٹی میں حاضر ہوا وہ باہر آکر یہ تو نہیں بتاتا کہ جے آئی ٹی نے کیا پوچھا بلکہ وہ سیدھا عمران خان کو برا بھلا کہنا شروع کردیتا۔ نواز شریف اور ان کے بیٹوں نے بھی عمران خان کو کوسا لیکن بغیر عمران کا نام لیے، لیکن نواز شریف کے سمدھی اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے جے آئی ٹی نےایسا کیا پوچھ لیا کہ وہ ہتھے سے اکھڑئے ہوئے تھے، ان کا شاید خیال ہوگا کہ وزیر خزانہ ہوں اس لیے جے آئی ٹی کے سوالات نرم ہونگے۔ باہر آئے توبہت غصے میں بول رہے تھے اور دوسروں کی طرح عمران خان پر برس رہے تھے لیکن کھلے الفاظوں میں عمران خان کا نام لے کر کہا کہ ’’عمران ڈرپوک، جھوٹا، جاہل، بدکردار، جواری ہے، وہ اپنی شادی کو بھی چھپاتا رہا اور مشرف کے جوتے چاٹتا رہا‘‘، اور بھی بہت کچھ کہا اور عمران خان کے گھر کی عورتوں کے بھی نام لے کر ذکر کیے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ مریم نواز وزیر اعظم کے ساتھ قوم کی بھی بیٹی ہے، مجھے برالگ رہاہے کہ مریم نوازکویہاں بلایاجارہاہے۔ اسحاق ڈار کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں جوبھی پیش ہوتاہے باہرآکر میری تعریفیں کرتا ہے، اسحاق ڈارکابیٹا20سال پہلے اسکوٹرپر گھومتا تھا، آج اربوں کی پراپرٹی ہے، کہاں سے آئی۔
نواز شریف خاندان سے جے آئی ٹی میں آخری حاضری تینتالیس سالہ مریم نواز کی تھی، مریم نواز کی حاضری سے پہلے ن لیگ کے وزرا ایسا ظاہر کررہے تھے کہ جیسے مریم نواز کوئی بہت کم عمر خاتون ہیں اور ان کو طلب کرنا شرعی طور پر غلط ہے۔ مریم نواز جب جے آئی ٹی کو بھگت کرباہر آیں تو انہوں نے میڈیا کے سامنےایک بہت ہی مدلل تقریر کی جو یقیناً ان کو رٹائی گئی تھی، شاید یہ تقریروزیر اعظم کے مشیرعرفان صدیقی کا کمال تھا جس میں کسی بھی جگہ کوئی جھول نہ تھا اور مریم نواز کا یہ کمال تھا کہ انہوں نے اس تقریر کو بہت اچھی طرح بیان کردیا، درمیان میں دو تین مرتبہ صحافیوں نے سوال کرنے چاہے تو انہوں نے انہیں روک دیا کہ پہلے میں اپنی بات مکمل کرلوں اور اس طرح کا تاثر دیا کہ وہ بعد میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب دینگیں، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہی فرار کی راہ اختیار کی اورصحافیوں کے سوالات کو سننا بھی گوارا نہ کیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ تقریر یا بیان تو عرفان صدیقی یا کسی اور سے لکھواکر رٹ کر بول سکتی تھیں لیکن کسی صحافی کے سوال کا جواب ان کے لیے شاید مشکل تھا کیونکہ ہر صحافی صالح ظافر نہیں ہے۔ ان کے پورئے بیان میں صرف شریف خاندان کی صفائی تھی یا تعریف تھی۔ مریم نواز نے یہ تو نہیں بتایا کہ جےآئی ٹی نے ان سے کیا سوال کیے ہاں انہوں نے یہ بتایا کہ میں نے جے آئی ٹی والوں سے سوال کیا کہ مجھ پر الزام کیا ہے مگر جے آئی ٹی والوں کے پاس میرے سوال کا جواب نہیں تھا۔جے آئی ٹی کو متنازہ بنانے کے لیےنواز شریف خاندان کا ہر فرد مظلوم بنا ہوا ہے اور یہ سوال لازمی کرتا ہے کہ شریف خاندان پر الزام کیا ہے؟، جبکہ اس سوال کا جواب سپریم کورٹ کے 20 اپریل کے فیصلے میں بڑئے واضع انداز میں موجود ہے۔دو سینیرججوں، جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزارنے فیصلے میں لکھا ہے کہ’’وزیراعظم نا اہل ہیں، صادق اور امین نہیں رہے‘‘۔چلیے اس بات کو ایک اور طرح بھی واضع کیے لیتے ہیں۔ جان کاکڑ فیس بک پر نواز شریف خاندان کے اس سوال کا جواب کہ انہوں نے کیا غبن کیا ہے یہ بتایا جائے؟، کچھ یوں بیان کرتے ہیں:۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران نون لیگ کے ایک رُکن قومی اسمبلی نے اپنی تقریر کے دوران ایک کہانی سنائی کہ ایک باپ نے اپنے تین بیٹوں کو ایک ایک سو روپے دیے اور کہا کہ ایسی چیز خرید کر لاؤ جس سے کمرہ بھر جائے۔ایک بیٹا سو روپے کی کپاس خرید لایا مگر کمرہ نہ بھر سکا۔ دوسرا بیٹا سو روپے کا بھوسہ خرید لایا مگر اس سے بھی کمرہ نہ بھر سکا۔تیسرا بیٹا بہت ذہین تھا وہ گیا اور ایک روپے کی موم بتی خرید لایا،اسے جلا کر کمرے میں رکھ دیا اس کی روشنی سے سارا کمرہ بھر گیا۔ اس کے بعد رُکن قومی اسمبلی نے کہا کہ “ہمارے وزیر اعظم نواز شریف تیسرے بیٹے کی طرح ہیں، جس دن سے وزیراعظم بنے ہیں ملک کو خوشحالی کی روشنی سے منور کر دیا”۔قومی اسمبلی کی پچھلی نشستوں سے ایک رکن اسمبلی کی آواز آئی کہ “یہ تو بتاو کہ موم بتی تو ایک روپے کی آئی تھی تو باقی 99 روپے کہاں گئے؟ “۔ تو جناب آپ پر 100 روپے کا الزام نہیں جس کے لیے آپ قطری شہزادئے کا خط لے آئے، آپسے تو 99 روپے کے غبن کا معلوم کررہے ہیں جس کا آپ جواب نہیں دئے رہے ہیں۔