غریب ملک کے غریب لوگوں کے ووٹوں اور غریب لوگوں کے خون پسینے کی کمائی سے سرکاری خزانہ میں جمع ہونی والی رقم سے اپنے آپکو اور اپنے خاندان کو نوازنے والے حکمرانوں نے عوام سے انکا شعور بھی چھین لیا آج تک جتنے بھی حکمران عوامی خدمت کے نام پر پاکستان پر مسلط ہوئے سب نے غریب عوام کی مجبوریوں اور انکی غربت کا جی بھر کر مذاق اڑایا ابھی وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طرف سے بے روزگار خواتین اور مردوں کے لیے قرضہ سکیم شروع کی گئی ہے اور حکومتی طبلچی اس زور شور سے گلا پھاڑ پھاڑ کر چلا رہے ہیںکہ اس سے اچھی سکیم ہو ہی نہیں سکتی، ایک ہی دن میں لاکھوں فارم دائون لوڈ کرلیے گئے، نوجوانوں کا مستقبل سنور گیا یہاں ایسے افراد اکثریت میں ہیں جو ہر حکومت کے میراثی ہوتے ہیں جن کا کام ہی برسر اقتدار لوگوں کی گڈی چڑھا کر رکھنا ہوتا ہے خواہ اس میں انکے کسی اپنے عزیز ،رشتہ دار، بہن یا بھائی کی ہی کیوں نہ کٹ جائے کیونکہ ایسے افراد اندر سے ایک عام آدمی کی نسبت زیادہ غریب اور بھوکے ہوتے ہیں اسی لیے تو کہتے ہیں کہ غربت جہاں تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے وہی پرچھینا چھپٹی کا عمل بھی زور پکڑ لیتا ہے اور انسانی خون کی قیمت پانی کے ایک گلاس سے بھی کم ہو جاتی ہے۔
لوگوں میں برداشت کا عمل ختم ہو کر انتقام اور مفاد کا عمل جڑ پکڑ لیتا ہے جہاں غربت زیادہ ہو گی وہی پر انسانی عقل اور شعور بھی ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا غربت کی دلدل میں دھنسے افراد کوہر وقت اپنے ہی خاندان کی دو وقت روٹی پوری کرنے کی فکر ہی ستائے رکھتی ہے نہ اسکی سوچ روٹی سے آگے بڑھتی ہے اور نہ ہی وہ شخص ذہنی طور پر ترقی کرتا ہے اورجس ملک کی کل آبادی کا 70فیصد حصہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہوجہاں پر لوگوں کے لیے علاج معالجہ اور صحت اتنی اہم نہ ہو بلکہ اسکی نظر صرف روٹی تک ہی محدود ہو تو پھر اس قوم اور اس ملک میں کہاں کا سلیقہ اور کہاں کی تہذیب ہوگی جسکا تماشہ آئے روز سیاسی جلسوں اور مختلف شادیوں کی تقریبات میں نہ صرف ہم خود دیکھتے رہتے ہیں بلکہ ہمارے ٹی وی چینلز کی وجہ سے پوری دنیا بھی دیکھ لیتی ہے حیرت اور افسوس کی انتہا ء ہے کہ یہ سب تماشا دکھانے والے خود بھی اسی کا حصہ ہیں ہم اپنا تماشہ لگا کر بھی بڑے شوق سے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں اس میں قصور ہمارا نہیں بلکہ ان سیاسی ٹھگوں کا جنہوں نے ملک اور قوم کے ساتھ سنگین مذاق کیا قیام پاکستان سے لیکر آج تک جتنے بھی حکمران آئے سب لوٹ مار کرکے چلتے بنے اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ملک اور قوم کے ساتھ مخلص ہوتا تو آج پاکستان کی عوام نواز شریف کی قرضہ سکیم سے فارم ڈائون لوڈ کرکے ضمانتی نہ ڈھونڈ رہی ہوتی بلکہ اپنی کمائی سے دوسرے ممالک کے غریب شہریوں کی مدد کررہی ہوتی لائینوں میں لگ کر ہسپتالوں سے پیراسیٹامول اور پمپوں سے سی این جی نہ لے رہی ہوتی۔
Kala Bagh Dam
اگر کالا باغ ڈیم بن جاتاتو آج ہاتھوں میں بل پکڑ کر لوگوں کو ہارٹ اٹیک نہ ہوتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نام نہاد قرض کی امید لیے پورا ملک یوں نہ دوڑ رہا ہوتا اور مریم نواز اس پروگرام کی چیئر پرسن بھی نہ ہوتی اب زرا اس قرض سکیم کے بارے میں بھی آپ کو بتا دوں کہ اگر آپ بھی وزیراعظم کی قرض اسکیم کے لیے درخواست دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو پہلے اس کے اہم نکات اور شرائط جان لیں ، وہ کیا ہیں۔ پرائم منسٹر یوتھ بزنس لون اسکیم شروع ہو چکی ہے مقررہ بینکوں میں درخواست فارم، ناقابل واپسی سو روپے کے ساتھ جمع کروائے جاسکیں گے ، درخواست فارم میں تحریر اہم نکات و شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بینک مقررہ اوقات میں یا جب مناسب سمجھے ، درخواست گزار کے مقررہ اکاونٹ یا اس کے کسی دوسرے اکاونٹ سے درخواست گزار کو نوٹس دیئے بغیر واجب الادا رقم نکال سکتا ہے ویسے تو وزیراعظم نے اعلان کیاہے کہ یہ قرض نوجوانوں کو آٹھ فیصد شرح سود پر دیا جائے گا ، لیکن درخواست فارم میں درج شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر حکومت پاکستان مارک اپ میں دی گئی رعایت کو قرض کی مدت کے دوران کسی بھی وجہ سے واپس لیتی ہے تو قرض لینے والا نئی شرح کے مطابق قرض کی ادائیگی کا پابند ہوگا۔
قرض کے لیے درخواست دینے والے کو دو ریفرنس کے علاوہ ایک ضمانتی بھی مہیا کرنا ہو گا، اور آپ کی ضمانت وہی شخص دے سکے گا جو گریڈ پندرہ یا اس سے اوپر کا سرکاری ملازم ہو یا پھر آپ کے مانگے گئے قرض کا ڈیڑھ گنا اس کے پاس ہونا چاہئے ، جس کے لیے بینک اسٹیٹمنٹ درخواست کے ساتھ فراہم کرنا ہوگی آخر میں غریب ملک کے غریب عوام کے نام پر شروع ہونے والی تمام نام نہاد اور ذاتی لالچ میں بنائی گئی سکیموں پر یہ شعر، عجب رسم چلی ہے چارہ گروں کی محفل میں لگا کر زخم نمک سے مساج کرتے ہیں غریب شہر ترستا ہے ایک نوالے کو امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں۔