ہم نے تو ہمیشہ یہی سنا ہے جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے اور جلد بازی سے اکثر نقصان اٹھانا پڑتا ہے مریم جو خود کو ایک لیڈر کے طور پر دیکھتی ہیں اور خود ہی کہتی ہیں کہ سارا خاندان ان کی سیاسی سوجھ بوجھ کا قائل ہے یہ کیسی سیاسی سوجھ بوجھ ہے جس نے ان کے سارے خاندان کا بٹھہ بٹھا دیا ہے اور وہ جیلوں میں چھپتے پھرتے ہیں نواز شریف ہمت کر کے واپس آئے تھے کہ جیل کاٹ کر ہیرو بن جائیں لیکن جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ ان کی بیٹی کی سیاسی سوجھ بوجھ ان کے لیے موت کا پھندہ ثابت ہو گی اس لیے اپنی جان بچا کر ایسے بھاگے کہ واپسی کا کوئی امکان نہیں ،لوگ کہتے ہیں کہ وہ کمال کے انویسٹر ہیں جس جس پر انویسٹ کیا ہے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں مال مفت کا ہو تو دل ویسے ہی سخی ہو جاتا ہے انہوں نے کون سا اپنی جیب سے انویسٹ کیا ہاں فائدے بے شمار اٹھائے ہیں اور جہاں تھوڑی سی رکاوٹ آئی وہاں کوئی حد نہیں چھوڑی پہلے تو یہ چیزیں اندر خانے ہوتی تھیں برسوں بعد کوئی کتاب لکھی جاتی تو معاملہ کھلتا کون شکار تھا کون شکاری ،اکثر بدنامی کا بوجھ فوج اٹھا لیتی تھی کہ اس ناسور کو پالنے والی وہی تھی کیا کرتی۔
لیکن اب سوشل میڈیا کا دور ہے لوگوں کو نکسیر بھی آ جائے تو الزام حکومت پر ڈال دیتے ہیں وہ جی حکومت نے ہوا میں کرنٹ چھوڑ دیا ہے بھلے لوگ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ اس موسم میں ہوا میں نمی کا تناسب بہت کم ہو جاتا ہے اس کی وجہ سے خشک کھانسی ،گلہ خراب ہونا نکسیر آنا جلد پھٹنا ایک نارمل کنڈیشن ہے پہلے تو لوگ ایسی باتوں کو معمولی سمجھتے تھے اب پر کا کوا بنا لیتے ہیں۔
شائد ابھی لوگ نوے کی دہائی سے نہیں نکلے جب شریفوں کا سورج طلوع ہو رہا تھا اور پاکستان کی قسمت کا سورج اندھیروں میں ڈوب رہا تھا میں سچ کہہ رہی ہوں جس کو یہ قوم آج تک ترقی کا نام دیتی رہی وہ بربادی کی انتہا تھی دو پارٹیوں نے مل مل کر لوٹا اور لوٹ لوٹ کر باہر جائیدادیں بناتے رہے اس لوٹ کے مال سے جس جس نے حصہ لیا وہ آج ان کے وفادار ہیں بلا شبہ انویسٹ ان پر کیا گیا جو کلیدی عہدوں پر بٹھائے گئے آج وزیر اعظم عمران خان ایک شہری کی کال پر اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہہ رہے تھے میں تو کرپشن کے خلاف لڑ رہا ہوں لیکن جب عدلیہ ہمارا ساتھ نہ دے تو کیا ہو گا ؟میں کہتا تھا کہ نواز شریف کو سات ارب کی گارنٹی کے بغیر نہ جانے دیں لیکن عدالت نے پچاس روپے کے اسٹام پیپر پر جانے دیا۔
اب یہی کہانی مریم دہرا رہی ہیں ادھر سے منتیں ترلے ،دھونس ،دھمکیاں ادھرسے یہ بیان کہ میں تو باہر نہیں جاتی مجھے زبردستی بھیجا جا رہا ہے اگر ایسی بات ہے تو پھر اس کو ریکارڈ پر لائیں نکی جئی سرجری کا آسرا نہ لیں ڈنکے کی چوٹ پر کہیں میں پاکستان میں رہوں گی یہیں جیوں گی یہیں مرونگی ہم بھی دیکھیں کون نکالتا ہے آپ کو یہاں سے اس حکومت کے ان ڈھائی سالوں میں آپ نے ماڈلنگ کے علاوہ کیا کیا ہے ؟جس کو مہنگائی کہتی ہیں وہ آپ ہی لوگوں کے اللے تللے تھے جس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے جس مفت بری کا عادی کیا ہے قوم کو وہ سدا تو ملنے سے رہی ایک نہ ایک دن تو قارون کے خزانے بھی ختم ہو جاتے احسن اقبال نے اپنے منہ سے اقرار کیا ہے کہ جیسی معیشت پی ٹی آئی کی حکومت کو ملی ہے بالکل ایسی ہی معیشت ہمیں 2013میں ملی تھی لیکن ڈار صاحب نے چمتکار کیا نوٹ چھاپ چھاپ کے عارضی خوشحالی دکھاتے رہے قوم الگ بگڑ گئی معاملات الگ کنٹرول سے باہر ہوئے اب ان کو حسب معمول مارشل لا کا انتظار تھا جس کی وجہ سے ان کو باہر جا کر تازہ دم ہونے کا موقع مل جاتا اور فوج بدنامی کما کر کسی نہ کسی طرح معیشت کو پٹڑی پر ڈال دیتی تھی اور یہ ہیرو بن کر نئے بال لگوا کر کاسمیٹک سرجریاں کروا کر واپس آکر ووٹ کو عزت دلوانے کا نعرہ بلند کرتے اب ان کا ویژن کیا تھا کہ مصنوعی طور پر مہنگائی کو روک دو قرض لے کر ہر چیز پر سبسڈی دے دینا جس سے پاکستان پر قرض چڑھتا گیا نواز شریف کا ویژن تھا کہ ڈیم تو پانچ سال میں بنا نہیں سکتے تو پرائیویٹ کمپنیوں کو بجلی بنانے کا حکم دے دیا مہنگی بجلی بناتے رہنا وہ بھی اگلے دس سال تک جس کو عوام برداشت کرے گی اور نام عمران خان کا لگے گا اورنج ٹرین بنا دی جس کا قرض اور سود 2036تک عوام دے گی اسی طرح کرنٹ اکائونٹ خسارہ 24ارب ڈالر تک پہنچا دیا ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر روک دینا اور قرض بڑھاتے رہنا نواز شریف کا ویژن تھا پانچ سال صرف قرض پر گذار دینا اور برامدات میں تاریخی کمی کرنا اور درامدات میں ریکارڈ اضافہ کر کے GDPزیادہ دکھانا ،،مارشل لا لگ جاتا تو نواز شریف پتلی گلی سے نکل جاتا لیکن شومئی قسمت اس بار ایسا نہ ہوسکا یہاں پر مجھے ایک کہانی یاد آ گئی ہے پہلے وہ سن لیں کہانی خاصی پرانی ہے مگر انجام کو اب پہنچی ہے۔
درویش جنگل میں عبادت میں مشغول تھے کہ پتہ چلا چوہے میاں تھر تھر کانپ رہے ہیں انہوں نے پوچھا کیا بات ہے چوہے نے کہامیری بھی کوئی زندگی ہے جب دیکھو بلی کھانے کو دوڑتی ہے درویش کو دکھ ہوا بولے تمہیں بلی بنا دوں تو ؟چوہا بولا زندگی بھر مشکور رہونگا ،کئی روز بعد درویش نے خوفزدہ بلی کو دیکھا پوچھا کیا ہوا ؟آپ نے چوہے سے بلی تو بنا دیا مگر اب کتے پیچھے پڑ گئے ہیں ،کیا چاہتا ہے تُو؟حضور کتے سے طاقتور جانور بنا دیں درویش نے پھونک ماری تو بلی لومڑی میں تبدیل ہو گئی چند مہینے بعد لومڑی پسینے میں شرابور سامنے کھڑی تھی لومڑی نے دہائی دی آپ کا آخری دیدار کرنے آئی ہوں جنگل کا بادشاہ دشمن بن چکا موت کا پروانہ جاری ہو چکا درویش نے کچھ سوچا اور ایک پھونک ماری تو تھوڑی دیر بعد چوہا حیران رہ گیا وہ جنگل کے بادشاہ شیر میں تبدیل ہو چکا تھا وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا درویش نے کہا جا تُو آزاد ہے۔
شیر نے درویش کے ہاتھ پائوں چومے اور سب سے پہلے راستے میں جنگل کے پرانے بادشاہ کو شکست دی تمام جانوروں نے اسے نیا بادشاہ تسلیم کر کے سر جھکا دیا چوہا شیر بن کر حکومت کرنے لگا خوشامدی ادب سے بیٹھنے لگے تو چوہے کو سرور آ گیا وہ اسمبلی اور کچن کابینہ بنا بیتھا وہ کبھی کبھار جنگل کے عوامی جانوروں کو دیدار کرواتا وقت گزرتا رہا ایک دن چوہے کے کانوں میں گدھے کی آواز پڑی کہ اس بادشاہ میں کوئی نہ کوئی کھوٹ ضرور ہے اصلی شیر نہیں لگتا چوہے نے سنا تو ڈر گیا اس نے سوچا اس بات کا علم صرف درویش کو ہے لہذا اس سے پہلے کہ کسی کو اس کی اصلیت کا علم ہو درویش کا ٹنٹا ہی مکا دو وہ درویش کی کٹیا کی طرف چل پڑا جس کو وہ عیش و عشرت میں بھول کر نظریاتی بن چکا تھا جونہی وہ درویش کے سامنے پہنچا درویش نے ایک پھونک مار کر اسے چوہے میں تبدیل کر دیا۔
سبق یہ ہے کہ نظریاتی بیماری لگنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے جو شیر بنا سکتے ہیں وہ دوبارہ چوہا بھی بنا سکتے ہیں پھر بھلے ”مجھے کیوں نکالا گاتے پھرو ” بات شروع ہوئی تھی مریم نواز کی جلد بازیوں سے ،پی ڈی ایم بنائی ڈھائی ماہ کے اندر سب کچھ تباہ کر دیا زرداری اب داد سمیٹ رہا ہے کہ اس نے نون لیگ سے سارے بدلے چکالیے مریم نے ہر وہ کام کیا جس سے پیپلز پارٹی کی خوش نودی حاصل کی جا سکے لیکن اینڈ کیا ہوا یہ تھا جلد بازی کا نتیجہ ،مولانا کو بھی زلیل کروایا کہیں منہ دکھانے جوگے نہ رہے جیل گئیں تو وہاں پاکستان کے دشمنوں سے رابطے کر لیے جب پول کھلا تو ہاتھا پائی پر اتر آئیں اس کی وڈیو بن گئی تو اسی وڈڈیو سے نیب کو ڈرانے لگیں فوج کو دھمکیاں دینے لگیں کہ وقت آنے پر وہ وڈیو دکھائونگی جو تم لوگوں نے مجھ پر ظلم کیا آخر تنگ آ کر انہیں کہنا پڑا بی بی اب وہ ظلم دکھا ہی دو تب سے منہ اور ٹویٹر دونوں خاموش ہو گئے اب عمران خان نے سختی سے انکار کیا ہے کہ کم از کم میں اس کو این آر او نہیں دونگا تو ساری توپوں کا رخ دوبارہ عمران خان کی طرف ہو گیا ہے گالیاں ،کوسنے ،دھمکیاں ،تُوتُو میں میں ،لیکن عمران خان بھی ساری کشتیاں جلا چکے ہیں کہ حکومت جاتی ہے تو جائے کسی صورت این آر او نہیں دونگا حالانکہ یہی کام شہباز شریف دھیرے دھیرے کر رہے تھے مریم کی جلد بازی نے ایک ہی جھٹکے میں لیراں لیراں کر دیا اب لو گ پوچھتے ہیں یا تو مریم نواز خود کو بہت زیادہ عقلمند سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہے یا انتہائی بے وقوف ہے جو ہر کام جلد بازی میں بگاڑ دیتی ہے اس کے ارد گرد جو معزز خواتین حصار باندھے رکھتی ہیں جو انکی ترجمان ہیں ان میں مائزہ حمید طلاق شدہ ،مریم اورنگ زیب طلاق شدہ ،نوشین بٹ دو طلاقیں ،حنا بٹ دو طلاقیں ،سلفی بٹ دو طلاقیں عظمی بخاری تین طلاقیں گو عوام کا انکی طلاقوں سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن ان کی بد زبانیاں اور بد تمیزیاں دیکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کو کیسے برداشت کیا جاتا ہوگا ہر کوئی تو بے چارہ کیپٹن صفدر نہیں ہوتا وفادار گھر جوائی جو صرف مریم کی جھڑکیں کھاتا رہے !