تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی مسجدِ نبوی کا وسیع و عریض دامن شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں سے بھر چکا تھا لیکن لاکھوں عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ مدینہ پاک کی طرف دیوانہ وار بڑھ رہے تھے۔ چودہ صدیوں سے وقت شبُ روز کئی کروٹیں بدل رہا ہے۔ہر بدلتی کروٹ اور نئے دن کے ساتھ پروانوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔
فضائوں میں پھیلی درود و سلام کی مشکبو گونج کیف و سرور کی لذتیں بکھیر رہی تھی۔ پروانوں کی آنکھوں میں شوق و اشتیاق دید کی ہزاروں شمعیں روشن تھیں ۔دنیا کے چپے چپے سے آئے یہ لاکھوں پروانے مختلف خدوخال ، زبان اور تہذیب رکھنے کے باوجود اپنے چہروں کو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے سجائے ہوئے اِس گوشہ عافیت میں جمع تھے ۔ اِن پروانوں کی یہاں موجودگی بتا رہی تھی کہ کائنات کہ ہر شے فخرِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں گرفتار ہے ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ چپہ چپہ آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں تو گرفتار ہے ہی اصل میں اِس کائنات کا مالک خالق ِارض و سما بھی بھی شہنشاہ ِ دو عالم کی محبت میں گرفتار ہے۔ اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کی تخلیق سے پہلے نور عشقِ الہٰی اپنے ہی گرد محوِ طواف رہتا تھا۔ کیونکہ اِس نور کے اندر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عکس اور نور چھلکتا تھا۔
یہ سلسلہ ہزاروں سالوں تک اِسی طرح جاری و ساری رہا ۔صدیوں پر صدیوں گزرتی چلی گئیں اور محبت کا یہ طواف اِسی طرح جاری رہا ۔ پھر خالقِ ارض وسما نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو وجود بخشا تو نورِ عشقِ الہٰی اِس طرف منعطف ہوا۔ حضرت ولی اللہ محدث دہلوی اِس طرح فرماتے ہیں۔جب اللہ رب العزت نے اپنے محبوب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور پاک پیدا فرمایا تو کہا: انت عشقی وانا عشقک۔ اے میرے حسنِ ازلی کے مظہر اور میری قدرت کا شاہکار محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے عشق ہیں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق ہوں۔ اور پھر وہم و گمان سے بھی ماورا صدیوں تک محبوب کے نورانی جلوئوں میں مد غم رہا یہاں تک کہ نور عشقِ الہٰی نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے قرار پکڑا اور 18ہزار عاملین کی مخلوقات پر یہ عیاں ہو گیا کہ کائنات تخلیق کرنے کی وجہ صرف اللہ رب العزت کے محبوب کی ذات با برکات اقدس و مقدس ہے اگر اس نے اپنے محبوب کا نو رپاک تخلیق نہ کیا ہوتا تو کائنات بھی تخلیق نہ کی جاتی اِس کائنات کی تخلیق اِس ذات کبریا کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور ِ پاک کی مرہون ِ منت ہے محورِ عشق و محبت صرف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اللہ رب العزت کے آخری رسول ۖہیں صرف ان کی مایا ناز ہستی اور ستودہ صفات ہستی و شخصیت ہے جس سے اللہ رب العزت خود بھی محبت فرماتا ہے اور تمام سماوی و ارضی اور آبی و فضائی مخلوقات کے لیے بھی یہ حکم ہے۔
Muhammad PBUH
میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت لازمی اور ابدی ہے۔ اگر اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت نہ کی جائے تو یہ محبت نقش بر آب سے زیادہ نہیں اصحابِ چشم بینا ان حقائق کی روشنی میں پکا ر پکار کر کہتے ہیں اللہ تعالی محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں مگر اس سے جدا بھی نہیں۔ پھر خالق ارض و شما نے اپنے محبوب کے نور کو حضرت آدم کی جبیں مبارک میں رکھا پھر اُنہیں زمین پر اُتارا اور نسلِ انسانی کا آغاز ہوا ۔ پھر نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر کرتا ہوا حضرت شیث کی روشن پیشانی پر جگمگایا تو ربِ کعبہ نے حضرت آدم پر وحی بھیجی اے آدم پنے بیٹے شیث سے عہد لیں اور وصایا و مواثین پر کار بند یں کہ وہ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی صورت بھی ناراض نہ کریں اور وصایا نسل در نسل جاری رہیں ۔کعب احبار سے روایت ہے حضرت آدم نے اپنے بیٹے شیث سے فرمایا۔
اے میرے بیٹے تم میرے بعد میرے جانشین ہو تم تقوی اختیار کرو اور جب بھی اللہ تعالی کا ذکر کرو تو اس کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک ضرور لو کیونکہ میں نے ان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ساق عرش پر اس وقت لکھا ہوا دیکھا جب کہ میں روح اور مٹی کی درمیانی حالت میں تھا ۔پھر میں نے تما م آسمانوں کا چکر لگایا تو میں نے اس ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان محبوبیت کا بارگا ہ ِ رب العزت میں یہ عالم دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اللہ تعالی کو اتنا پیارا ہے کہ آسمانوں میں کوئی جگہ ایسی نہیں دیکھی جہاں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہ لکھا ہو میرے رب نے مجھے جنت میں رکھا تو میں نے جنت میں کوئی محل ، کوئی بالا خا نہ کوئی دریچہ ایسا نہ دیکھا جس پر اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تحریر نہ ہو ۔ اے میرے بیٹے میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نام حوروں کے سینوں پر فرشتوں کی آنکھوں کی پتلیوں میں شجرِ طوبی اور سدرة المنتہٰی کے پتوں پر لکھا دیکھاہے تم بھی کثرت کے ساتھ اُن کا ذکر کیا کرو کیونکہ فرشتے بھی ہر وقت ان کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔
حضرت آدم اپنے بیٹے حضرت شیث کو نصیحت کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں ۔اے پیارے بیٹے میری جبیں سے منتقل ہو کر تمھاری پیشانی میں جو یہ نور چمک رہا ہے وہ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جو انبیاء کرام کے سرتاج اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔بیٹا توجب بھی اللہ کا نام لیا کرے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے اللہ کے نام کو سجایا کر کیونکہ ذکرِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ذکرِ الہی میں رونق نہیں آتی ۔ اِسم اللہ اس وقت جمال کمال کا مظاہرہ فرماتا ہے جب اس کے ساتھ اس کے کمالات کا حقیقی مظہر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آ جا تا ہے ایک روایت میں آتا ہے ۔ حضرت شیث نے اپنے والد حضرت آدم سے دریافت فرمایا والد صاحب آپ ہمیشہ بڑی تر غیبی اندا ز میں نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصف بیان کرتے آئے ہیں ذرا اتنا تو بتا دیں کہ آپ میں اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا فرق ہے حضرت آدم یہ سن کر خوف و حیرت سے فرمانے لگے ۔ اے جانِ پدر محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ میرا مقابلہ ہر گز نہ کرنا ان کی بزرگی و شرف کا اندازہ ان کی امت کا موازنہ میرے ساتھ کرنے سے تجھے پتہ چل جائے گا کہ ان کا مرتبہ میری قوت رسائی کی حد سے بعید ہے بیٹا غور سے سن اور یاد رکھ ۔ مجھ سے بے خیال میں ایک بھول ہو گئی تھی تو بحُکم اِلہٰی میرا ستر نکل گیا میں بے ستر ہو گیا ۔ جنت کے پتوں سے ستر چھپانے کی کوشش کی تو پتے مُجھ سے بھا گنے لگے اور پناہ مانگنے لگے مگر امت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہزار گناہ دانستہ کرے گی پھر بھی اُن کا ستر نہیں کھُلے گا وہ بے ستری سے بچ جائیں گے اور میں نہ بچ سکا ۔بیٹا ایک خطا مُجھ سے سر زد ہو گئی تھی ۔مجھے گھر سے نکا ل دیا گیا فرشتوں نے ملامتیں کیں مگر اُمت ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گناہوں پر گناہ کرے گی لیکن اُن کو بے گھر نہیں کیا جائے گا ۔ فرشتوں کو ملامت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہو گی ۔اے بیٹے تیرے والد کے بے جان ڈھانچہ میں اس وقت تک روح نہ داخل ہونے پائی جب تک میری جبیں پر نو رِ خدا کا قدم نہ آیا یعنی مجھے جان ملی تو صرف فخرِ دو عالم ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دم قدم سے۔
Prof Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org