تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری اہل علم پوچھتے ہیں کہ مسجد میں عورت کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ کیوں نہیں؟ جستجو کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں عجیب و غریب اقوال رائج ہیں جس کے سبب عورت کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے۔ امر اس قدر نازک ہو چکا ہے کہ عورت اگر نماز پڑھنا چاہے تو وہ تاریک وجگہ کا انتخاب کرتی ہے جہاں کسی انسان کی آواز بھی نہ پہنچ سکے!!عورت کے لئے یہ پسند کیا جاتاہے کہ وہ تاریکی و ظلمت کی غار میں نماز پڑھے بنسبت اس کے کہ وہ کمرے یا روشنی میں نماز پڑھے۔ہم نہیں جانتے کہ ان اقوال کے ذریعے احادیث اور عملی زندگی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے جبکہ حضورۖ کے زمانے میں عورت کا مسجد میں معمول کے ساتھ نماز پڑھنا ثابت ہے۔
ابن حزم کا قول حد فاصل ہے اس بارے میںوہ فرماتے ہیں کہ تمام احادیث جھوٹی اور وضعی ہیںجن کا سہارا لے کر عورت کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا جاتاہے۔یہ روایت متعارض ہے سنن صحیحہ سے جو حضورۖ سے منقول ہیں اور خودنبی مکرمۖ کے فعل و عمل کے خلاف ہے۔علماء مصطلح الحدیث کہتے ہیںکہ”کہ یہ حدیث و روایت شاذ ہے اور اگر قوی بھی مان لیا جائے تو اقویٰ احادیثوں سے متعارض و مخالف ہے ،جب مخالف حدیث قوی بھی نہ ہو بلکہ ضعیف ہو تو وہ حدیث متروک ہوتی ہے اور باب منکر میں داخل سمجھی جاتی ہے”۔صحیحین میں کوئی ایسی روایت نہیں جس سے عورت کے مسجد میں نمازپڑھنے پر قدغن ہو یا روکنے کی تعلیم دی گئی ہو۔
اگر کوئی فرد عورت کے مسجد میں نماز پڑھنے کو حرام قرار دے دے یا اس سے منع کرے اور اس کو تاریک و مظلم مقام پر نماز پڑھنے کا حکم دے تو وہ متروک و منکر روایات پر عمل پیرا ہے!!فقہاء فرط حیرت میں مبتلا ہیں اس روایت سے استدال کرکے عورت کو مسجد میں نماز پڑھنیسے روکنے کا فتویٰ صادر کرنے سے۔فقہاء صحیح و موثق احادیث جو اقوال و افعال کے باب سے ثابت ہیں کی روشنی میں عورت کے مسجد میں نماز پڑھنے کو حکم دیتے ہیں۔۔۔۔ایسے میں کونسی حکمت ہے ضعیف احادیث کے ذریعے عورت کومسجد میں نماز پڑھنے سے روکا جائے؟!۔اس امر سے یقینا اتفاق کرتے ہیں کہ عورت زیب و زینت اور عطر سے معطر ہوکر مساجد میں نہ آئے اور یہ قول نبیۖ کے موافق بھی ہے ”۔۔۔۔عورتیںگھر سے مزین و معطر ہوکر نہ نکلیں ”لیکن اس امر کو ہر گز قبول نہیں کیا جاسکتاکہ عورتیں مساجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہ جائیں ،یہ امر جرم عظیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس روایت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
Muhammad PBUH
نبی کریمۖ صفوں کی تقسیم اس طرح فرماتے تھے کہ پہلی صف میں مرد اور ان کے پیچھے عورتیں ہوتی تھیں۔جب حضورۖ مسجد میں خطبہ دیتے تھے توعورتوں کی صفوں کا مشاہدہ فرماتے تھے۔کیسے ممکن ہے کہ عورت کے لیے کہا جائے کہ اس کے لئے بہتر ہے کہ گھر میں نماز پڑھے؟!نبی کریمۖ نماز جلدی سے مکمل فرماتے تھے جب بچوں کے رونے کی آواز آتی تھی اور ان کی مائیں مسجد میں نماز اداکرتی تھیں۔کیسے کوئی کہہ سکتاہے کہ عورتیں مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہ آئیں؟!رسول کریم کا فرمان عالیشان ہے کہ”باندی کو مسجد میں نماز پڑھنے سے نہ روکو”۔۔عورتوں کے لئے مسجد نبوی میں نبی کریم ۖ کے قریب جگہ مختص تھی۔حضرت عمر ایک بار گھر داخل ہوئے اور بیوی کو نہ پایا پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ مسجد میں ہے۔۔
جب وہ واپس آئیں تو حضرت عمر نے پوچھا کہاں تھیں؟تو جواب دیا کہ میں مسجد میں تھی ،کیا آپ منع کرتے ہو؟انہوں نے کہا نہیں،وہ کام کیسے کرسکتاہوں جو حضورۖ نے نہیں کیا؟عورت کو مسجد میں نماز سے روکنا یہ بیماری و کجی ہے بعض لوگوں کے دلوں میں،اور اس فعل و عمل کا اسلام اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔