لاہور (جیوڈیسک) جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کی مغربی قوتوں کی تازہ ترین کوشش کو چین نے ویٹو کر دیا ہے۔ اس پیشرفت پر بھارتی حکومت نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
دہشت گرد گروہ جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیے جانے کے لیے سلامتی کونسل میں برطانیہ، فرانس اور امریکا کی جانب سے گزشتہ روز ایک اور کوشش کی گئی، جسے چین نے روک دیا۔ جیش محمد کو سن 2001 میں ہی اس فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن مسعود اظہر کو اس فہرست میں شامل کرنے کی چوتھی کوشش کو چین نے بدھ تیرہ مارچ کو اپنے ویٹو پاور کے ذریعے رکوا دیا۔
.جیش محمد وہی تنظیم ہے، جس نے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر چودہ فروری کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں بھارتی نیم فوجی دستوں کے چالیس سے زائد اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ جوہری طاقتوں اور روایتی حریف ممالک پاکستان اور بھارت کے مابین اسی حملے کے تناظر میں کشیدگی کافی بڑھ گئی تھی۔
سفارت کاروں نے مطلع کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تیرہ فروری کو ہونے والی پیش رفت پر چین نے کہا ہے کہ اسے اظہر کے خلاف موجود شواہد کا جائزہ لینے کے لیے مزید وقت چاہیے۔ اس سلسلے میں چین نے تکنیکی تعطل کا مطالبہ کیا ہے جس کی مدت نو ماہ تک ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سلامتی کونسل میں برطانیہ، فرانس اور امریکا نے مسعود اظہر کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیے جانے کا مطالبہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں ان پر سفری پابندی بھی عائد ہو جاتی اور ان کے تمام تر اثاثے بھی منجمد کر دیے جاتے۔ اقوام متحدہ میں بیجنگ حکومت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے کہ متعلقہ فریقین کے ساتھ مشاورت کے ذریعے کوئی حل تلاش کیا جا رہا ہے۔
سکیورٹی کونسل کے ایک سفارت کار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر کہا ہے کہ اگر چین مسعود اظہر کو بلیک لسٹ کیے جانے کے عمل کو روکتا رہا، تو مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے کونسل کے دیگر ارکان دیگر طریقہ کار کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سفارت کار کے مطابق، عالمی تنظیم کی جانب سے بہت پہلے سے دہشت گرد قرار دیے گئے ایک گروہ کے سربراہ کو دہشت گرد قرار دینے کا کیس کافی مضبوط ہے۔
بھارتی حکومت نے چین کے اس اقدام پر مایوسی ظاہر کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس ضمن میں کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔ علاوہ ازیں تازہ ترین پیش رفت کے بعد بھارتی سوشل میڈیا پر چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی باتیں چل رہی ہیں۔ امریکا نے بھی رد عمل میں کہا ہے کہ یہ اقدام جنوبی ایشیائی خطے میں امن و استحکام کے امریکی و چینی مشترکہ غزائم کے منافی ہے۔