جامعہ حفصہ کی باپردہ طالبات جو مشرف کی دور میں راکھ کا ڈھیر بنادی گئیں ان کا جرم بھی یہ تھا کہ انہوں نے محلے والوں کی شکایت پر کسی بدکردار آنٹی کا پالر بند کروانے کی کوشش کی تھی لیکن ان کا خمیازہ ان کو اسطرح ملا کہ ان کو زندہ جلا دیا گیا۔ پاکستان کے اخبارات اور نیوز چینلز وہ خبر ہی چلاتے ہیں جو ان کو اوپر سے ملتی ہے۔بیوٹی پارلر ز ہمارے سماج کی ضرورت بن چکے ہیں یہ بیوٹی پارلر زتو ہر گلی ہر محلے میں کھمبیوں کی طرح اگے ہوئے نظر آتے ہیں۔بظاہر عورتوں کو خوبصورت بنانے کی آڑ میں مکروہ دھندا ہو رہا ہے۔ واش رومز میں نصب خفیہ کیمروں کے زریعے عورتوں کی ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل کرنے کے کئی سکینڈل منظر عام پر آچکے ہیں۔کراچی ، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں قائم بیوٹی پارلر فحاشی کا اڈوں میں بدل چکے ہیں۔جبکہ یہاں رونما ہونے والے تہلکہ خیز اسکینڈل کے بعد پولیس حکام نے خواتین کو ہدایت کی کہ بیوٹی پارلر ہو یا پھر گارمنٹس یا درزی کی دکان کا چینجنگ روم، خواتین بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں۔
کیوں کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کی جانب سے مذکورہ مقامات پر خفیہ کیمرے نصب کرکے خواتین کی نازیبا اور غیر اخلاقی ویڈیو بناکر انہیں بلیک میل کرنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ جیسا کہ کراچی کے ایک مرکز میں خواتین کی غیر اخلاقی ویڈیو بناکر بلیک میل کئے جانے کا واقعہ سامنے آیا۔ اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتا ہے کہ میک اپ کراتے وقت زیادہ تر خواتین احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کردیتی ہیں جس کا خمیازہ بعد میں انہیںسنگین صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سکھر میں بھی ایسا ہی شرم ناک واقعہ پیش آچکا ہے۔ بیوٹی پارلر کا مالک پارلر کے واش روم میں خفیہ کیمرے لگاکر وہاں آنے والی خواتین کی غیر اخلاقی ویڈیو دیکھتا اور انہیں ریکارڈ کرنے کے بعد خواتین کو بلیک میل بھی کرتا تھا۔
یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری تھا۔ جب پولیس نے مذکورہ پارلر پر چھاپہ مارا تو چھاپے کے دوران خفیہ کیمرے 2موبائل فونز، ملزم کے قبضے سے شراب کی ایک بھری ہوئی بوتل جبکہ 4خالی بوتلیں بھی ملیں۔ خواتین کی قابل اعتراض وڈیو ریکارڈ کر کے انٹر نیٹ وائی فائی کے ذریعے اپنے موبائل پر چلا کر دیکھتا تھا۔ اور بعد میں انہیں کلپس بھیج کر انہیں بلیک میل کرتا تھا۔ ملزم کے موبائل فون میں متاثرہ خواتین کی قابل اعتراض ویڈیو کلپیں بھی تھیں، جو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیں۔جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہر کے گلی محلوں میں قائم بیوٹی پارلرز میں مشکوک سرگرمیاں اور غیر اخلاقی معاملات بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہیں اور پولیس ہفتہ یا منتھلی وصول کر کے خاموش ہو جاتی ہے۔
انکشاف ہوا ہے کہ شہر کے پوش علاقوں میں قائم بیوٹی پارلرز مساج سنٹر کا روپ دھار گئے ہیں ، مساج کرنے کے دوران خواتین کے جسم کے مختلف حصوں کی تصاویر بنا لی جاتی ہیں اور ان تصاویر کو بیوٹیشنرز اپنے آشناؤں کو بھیج دیتی ہیں اور شیئر ہوتے ہوئے یہ تصاویر کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں اور خواتین کو علم بھی نہیں ہوتا ، کئی پارلرز کے اندر ویڈیو کیمرے بھی نصب ہیں ،ٹرائی روم میں جانیوالی خواتین اور لڑکیوں کی ویڈیو بنا لی جاتی ہیں اور پھر ان خواتین اور لڑکیوں کو لڑکوں کے ذریعے بلیک میل کیا جاتا ہے پبلک آئی نے شہر کے ایک پارلر سے آؤٹ ہونیوالی خواتین کی نازیبا تصاویر حاصل کر لی ہیں ۔مساج کا ان پارلر میں مطلب یہ ہے کہ نہ صرف عورتیں بلکہ مردوں کے لئے بھی الگ الگ مساج سنٹرز قائم ہیں۔ لوگ یہاں جا کر ”فْل باڈی مساج” کراتے ہیں اور احمقانہ جواز یہ پیش کرتے ہیں: ”مساج سے جلد کے خلیے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈھیلے نہیں پڑتے اس لیے جلد فریش رہتی ہے اور جھریاں نہیں بننے پاتیں۔”حالا نکہ کسی بھی مسلمان، با حیا عورت کو یہ زیب نہیں دیتا، مگر ہماری یہ مغربی تہذیب کی ماری خواتین اس قبیح فعل کو کرواتے ہوئے ذرا بھی حیا محسوس نہیں کرتیں۔؟
بیوٹی پارلرز اور مساج سنٹرز کی آڑ میں پیسے خرچ کرنے والے ہر خاص و عام کو دعوت گناہ دینے والے بے شمار اڈے شب و روز حرام کاری میں مصروف عمل ہیں۔ یہ جسم فروشی کا کاروبار کرنے والے مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں جن کے خلاف کارروائی کرنے کا مطلب کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افسر کا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ جسم فروشی کو فروغ دینے والے عناصر سوشل میڈیا پر آن لائن ویب سائٹ پر کھلے عام لڑکیوں کی فراہمی ان کے ریٹ، عمریں، رنگت، خصوصیات اور ان کی مصروفیات وغیرہ صاف طور پر لکھ کر ہوس کے پجاریوں کے رابطوں کا انتظار کرتے ہیں ۔ لڑکیوں کی قابل اعتراض حالت تصاویر بھی لگائی جاتی ہیں تاکہ ان ویب سائٹس پر وزٹ کرنے والا رابطہ کرنے پر مجبور ہوجائے۔ امراء اپنی ہوس پوری کرنے کیلئے ان مساج سنٹروں اور ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں جہاں جسم فروش مافیا کی جانب سے جدید ترین خفیہ کیمروں کی مدد سے ان کی ویڈیوز بنا کر ان کو بلیک میل بھی کیا جاتا ہے۔بے حیائی اور بدکاری کے اڈے جدید ناموںسے ملک بھر میں پھیلے ہیلتھ بیوٹی اور فٹنس سروس کے نام پر مساج پارلر، بیوٹی سیلون اور سپا (SPA) سنٹر تمام شہروں میں بدکاری کو بڑے منظم طریقے سے پھیلا رہے ہیں۔ سیاست دانوں سے لے کر بیورو کریٹس تک سب ہی چپ سادھے بیٹھے ہیں۔
یہی لوگ جنسی تسکین کے لئے ان مساج سنٹرز اور بیوٹی سیلونز کا رخ کرتے ہیں جو بڑے بڑے بنگلوں اور کوٹھیوں میں قائم کئے گئے ہیں، ان مساج سنٹرز میں رشین، ازبک، تھائی، افغان اور پاکستانی لڑکیاں ہمہ وقت مساج کے بہانے مکرہ افعال انجام دینے کے لئے موجود رہتی ہیں، یہ لڑکیاں دو گھنٹوں سے لے کر ساری رات کے لئے یہ خدمت سرانجام دیتی ہیں۔ ہر مساج سنٹر اپنی اپنی ویب سائٹ پر ان لڑکیوں کے حسن و جمال، ان کی عمر ، قد اور رنگ تک کی تفصیلات دے کر عیاش لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ مردوں کا مساج کرنے کے لئے لڑکیاں اور لڑکیوں کے مساج کے لئے لڑکے خدمت پر مامور ہیں۔
سمپل مساج، بمبو مساج، ہربل مساج، ڈیپ ٹشوز مساج، سکن کیئر مساج اور جنرل فل باڈی مساج سمیت ”سکرٹ مساج” کی سہولیات فراہم کرتے ہیں تاکہ جنسی درندوں کی ہوس کو مکمل تسکین فراہم کی جائے۔ مائنڈ ریلکسنگ مساج سے لیکر فل باڈی مساج تک کے لئے الگ وقت اور الگ ریٹ مقرر ہیں ۔اکثر مراکز ایسے ہیں جو صرف ایک ٹیلی فون کال پر لڑکی گھر پہنچانے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔کئی سنٹروں میں 4000میں تمام سہولیات پہنچائی جاتی ہیں ۔ آج کل آپکے موبائل ہر میسج آتاہے کہ فلاں بیماری کے خاتمے اور سکون کے لئے مساج کروائے آپ وہاں جائے تو آپ کو آپ کی استعداد کے مطابق سہولت دی جاتی ہے ،ایک کمرے میں لیجاکر سب سے پہلے اس عیاش پسند کو بے لباس کرکے ایک گائون پہنایا جاتا ہے اور پھر مساج پر مامور لڑکیاں اسے ہر قسم کی سہولت فراہم کرتی ہیں جن میں جسم فروشی کا ریٹ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔