کمیونٹی میں لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کے ذریعے ضروری خدمات کی فراہمی پر مستقل توجہ مرکوز کیا جائے، او آر ایس کے استعمال کے ذریعے دست و اسہال کی بہتر منیجمنٹ کے لئے لائحہ عمل مرتب کی جائے، نمونیہ کے علاج کے لئے کمیونٹی کی سطح پر اقدامات کئے جائے،نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں کی بیماریوں کی مشترکہ منیجمنٹ کو مضبوط و موثر کرنا اور اسے دوسرے علاقوں تک پھیلایا جائے،غذائیت کی خدمات یعنی صرف اور صرف ماں کا دودھ، ماں کے دودھ کے ساتھ دوسری خوراک دینا اور شدید غذائی کمی کا علاج وغیرہ اور حفاظتی ٹیکوں کی کوریج کو مزید بہتر اور مو ثر بنایا جائے ۔حکومت کے لئے یہ تمام انتظامات اور وسائل کی فراہمی تنہا ممکن نہیں اس لئے ان پروگراموں میں عوام کو فعال شرکت کرنا ہو گی۔
ڈائریا سے بچاؤ کے لئے گھر اور کمیونٹی کی سطح پر چند سادہ اقدامات کئے جا سکتے ہیں جس سے مرض پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اول بچے کو ماں کا دودھ پلانا،دوئم بہتر سینٹی ٹیشن،سوئم پینے کا صاف اور محفوظ پانی استعمال کرنا،چہارم اہم مواقع مثلاً کھانا کھانے سے پہلے اور لیٹرین کے استعمال کے بعد پانی اور صابن سے ہاتھ دھونا،پنجم ذاتی صفائی اور خوراک کی تیاری میں حفظان صحت کے اُصولوں کا خیال رکھنا،ششم ذاتی صفائی اور خوراک کی تیاری میں حفظان صحت کے اُصولوں کا خیال رکھنا اورکیڑے مکوڑوں اور مکھیوں سے کھانے پینے کی چیزوں کو محفوظ رکھنا ۔
ڈائریا پر قابو پانے کے لئے اورخاص طور پر 5 سال سے کم عمر بچوں کی شرح اموات کو روکنے کے لئے اور ڈائریا کا علاج نہایت سادہ اور آسان ہے ۔ ڈائریا سے جسم میں ہونے والی پانی اور نمکیات کی کمی دور کرنے کا ایک باکفایت، آسان او رموثر طریقہ ہے ۔ڈائریا کے دوران جسم سے ضائع ہونے والے پانی اور نمکیات کی کمی کو تیزی سے پورا کرنا ضرور ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں بچے ڈائریا سے ہونے والی پانی اور نمکیات کی اس کمی سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جبکہ او آر ٹی کے بروقت استعمال سے یہ زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ او آر ٹی سے مراد ہے کہ بچے کو گھر میں زیادہ مائعات مثلاً ماں کا دودھ، یخنی، چاولوں کی پیچ اور تازہ پھلوں کا رس دیا جائے تاکہ اس کے جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے پائے۔ اس کے علاوہ روزانہ کی خوراک اور او آر ایس ملا پانی زیادہ سے زیاد دیا جائے۔ صاف پانی میں ا و آر ایس ملا کر بچے کو پلانے سے جسم سے خارج ہونے والے پانی اور نمکیات کی کمی ساتھ ساتھ پوری ہو تی رہتی ہے۔
مناسب غذائیت۔ غذائی کمی کے شکار بچوں کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے اور سانس لینے کے عضلات بھی مضبوط نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے وہ سانس کی نالی میں آنے والی رطوبتوں/ ریشے سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتے،صرف اور صرف ماں کا دودھ پلانا ( مدافعتی نظام کو طاقتور کرنے اور غذائی کمی کا معیار بہتر بنانے کے لئے)،ہاتھ دھونا( بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لئے) صفائی کا خاص خیال رکھا جائے یعنی صابن سے ہاتھ دھونا ضروری ہے،گھر کے اندر آلودگی کو کم کرنے کے لئے اقدامات اُٹھائے جائے ۔
اسی طرح پاکستان میں ماؤں کی شرح اموات ہر ایک لاکھ پیدائشوں میں276 ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح50 ہے۔ اس کی زیادہ تر وجوہات بچوں کی پیدائش میں نامناسب وقفہ، ماہر مڈ وائف کی موجودگی کی کم شرح، ناخواندگی، خوراک کی کمی اور زچہ بچہ کی دیکھ بھال کی ہنگامی خدمات تک ناکافی رسائی بیان کی جاتی ہے ۔زچگی کے بعدزیادہ خون کا اخراج، زیادہ بلڈ پریشر کی وجہ سے دورے پڑنا اور بعداز زچگی انفکیشن اور بخار ماؤں کی اموات کی براہ راست اہم وجوہات ہیں۔ پیچید گیوں کی وجہ سے ہونے والی ماؤں کی تمام اموات میں 8 فیصد کی وجہ زچگی کی دستیاب ہنگامی سہولتوں کا غیر معیاری ہونا ہے۔
بچے کی پیدائش کے موقع پر ماہر مڈوائف کی موجودگی 39 فی صد ہے (شہری علاقوں میں یہ شرح زیادہ ہے جہاں نجی شعبے پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے۔) مراکز صحت یا ہسپتالوں میں ہونے والی 34 فی صد زچگیوں میں،27 فی صد نجی شعبے میں قائم اداروں میں ہوتی ہیں۔ یہ رجحان زیادہ تر دستیابی پر انحصار کرتا ہے کیوں کہ میٹرنٹی ہومز اور کلینکس کی زیادہ تر تعداد شہری علاقوں میں ہوتی ہے۔ اس طرح 66 فی صد بچے روایتی دائی یا گھر کی کسی بڑی عمر کی خاتون کے ہاتھوں گھروں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک تہائی سے بھی کم شادی شدہ جوڑے خاندانی منصوبہ بندی کے لئے جدید طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ روائتی طریقہ جات میں ناکامی کی صورت میں خواہش کے خلاف پیدا ہونے والے بچوں کی شرح فی صد زیادہ ہے ، جب کہ پوشید اسقاط حمل (290,000) فی سال کی شرح بھی بہت خطرناک ہے ۔ یہ صورت حال تو لیدی امراض اور پیچیدگیوں کو جنم دیتی ہے ۔ا سقاط حمل کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے لئے، موزوں خدمات کی دستیابی، رسائی اور معیار کے حوالے سے انتہائی ناکافی ہے۔
بچوں کی پیدائش میں نامناسب وقفے سے ماؤں میں خون کی انتہائی کمی، غذائیت کا فقدان ، نوزائیدہ کے کم وزن ہونے اور حمل کے ضائع ہونے کا زیادہ خطر ہو تا ہے۔ زچہ وبچہ کی اہم خدمات کے کم استعمال کی سب سے بڑی وجہ آگہی کی کمی ہے مثال کے طور پر وہ تمام عورتیں جو کبھی دوران حمل معائنہ کے لئے نہیں آئیں سمجھتی ہیں کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح حمل ، زچگی اور بعد از زچگی ، زچہ و بچہ کو درپیش خطرناک علامات کے بارے میں بہت کم آگہی پائی جاتی ہے ۔ کمیونٹی کو متحرک کئے جانے کے عمل کو سرکاری شعبے کے پروگراموں کا کمزور ترین حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ جس کے لئے حکومت نہ ہونے کے برابر فنڈ فراہم کرتی ہے۔
زچہ و بچہ کو بین الاقوامی معیات کی صحت سے متعلق سہولتیں اور شرح اموات پر قابو پانے کے لئے حکومت پاکستان نے ڈی ایف آئی ڈی کے تعاون سے چھ سالہ پروگرام شروع کیا ہے جس کا تخمینہ20 بلین روپے لگایا گیا ہے جو 2012 تک مکمل ہو گا نیشنل پروگرام برائے میٹرنل نیو بارن اینڈچائلڈ ہیلتھ کا نام دیا گیا ہے اس پروگرام کے تحت صوبہ سرحد کو 39.6 ملین روپے دئیے گئے ہیں جبکہ پروگرام کے تحت مرکزی حکومت صوبہ سرحدمیں2.8 بلین روپے خرچ کرے گی۔ یہ پروگرام صوبہ سرحد کے 22 اضلاع میں شروع کیا جا چکا ہے جبکہ 2 اضلاع میں بہت جلد شروع کردیا جائے گا۔ اس پر وگرام کا بنیادی مقصد5 سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات کوفی ایک ہزار65 سے کم کرکے 45 کرنا، شیر خوار بچوں کی شرح کو فی ہزار55 سے کم کرنا، زچہ کی فی ایک لاکھ میں شرح اموات کو 200 تک لانا، ماہر تولیدی سٹاف کی تربیت، عوام میں زچہ و بچہ کی صحت کے بارے میں شعور اُجاگر کرنا، سرکاری صحت کے اداروں میں تربیت وغیرہ شامل ہیں۔