اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے مطیع اللہ جان واقعے سے متعلق ریمارکس دیے ہیں کہ جو کچھ ہوا اس کے لئے پوری ریاست ذمہ دار ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ دن دیہاڑے جس طرح صحافی کو اٹھایا کیا سب ادارے تباہ ہو چکے ہیں، کس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ پولیس کی وردی میں آکر بندہ اٹھا لے؟، پولیس کی وردی پہنے، پولیس کی گاڑی جیسے اشارے لگائے کون پھرتا رہا؟، اسلام آباد پولیس کہاں تھی دارالحکومت میں ایسے کیسے ہوگیا ؟۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو اغواکاروں کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی۔ پولیس کی جانب سے ڈی آئی جی آپریشن وقار الدین عدالت کے سامنے پیش ہوئےاور بتایا کہ اغوا کا پرچہ دے دیا ہے اس میں دہشتگردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پولیس ایسے اقدامات کرے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں، عام آدمی کو کیا تاثر جائے گا کہ یہاں پولیس وردی میں لوگ دندناتے پھر رہے ہیں؟ یہ آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کا معاملہ ہے، صحافیوں کے خلاف جرائم کا خاتمہ ہو جانا چاہیے، کل جو کچھ ہوا اس کے لئے پوری ریاست ذمہ دار ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ موجودہ حکومت بھی صحافیوں کی آزادی کی بات کرتی ہے، سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے، یہ پولیس کیساتھ وفاقی حکومت کے لئے بھی ٹیسٹ کیس ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ اس کیس کو نمٹایا نہ جائے ، عدالت اس کی پیشرفت رپورٹس طلب کرے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت اس کیس کی نگرانی نہیں کر سکتی، ہمیں پولیس اور ریاست پر اعتبار کرنا ہو گا انہیں ہی قانون کے مطابق کارروائی کرنے دیں۔
عدالت نے مطیع اللہ کی بازیابی اور مقدمہ درج ہوجانے پر کیس نمٹا دیا۔