اس سائنسی دور میں بھی بغیر علم و تحقیق کے کسی کے متعلق کوئی نظریہ قائم کرنا اور غلط فہمی پیدا کر لینا دانش مندو ں کا کام نہیں الزام لگانا بہت آسان ہے مگر اسے ثابت کرنا بہت مشکل۔ پڑھے لکھے اور سنجیدہ لوگوں کایہ شیوہ نہیں کہ کسی پرتہمت لگائیں اور دلوں کو مجروح کریں۔ آج تو علم کا دور ہے، ریسرچ کا وقت ہے اور حقائق سے دوستی کرنے کازمانہ ہے، اگرکسی کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہے تواسے زائل کرناکوئی بہت مشکل کام نہیں بشرطیکہ غیرجانب داری برتی جائے اورمعروضی اندازسے جائزہ لیا جائے۔ برصغیر کے عظیم عبقری اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا قادری اس عظیم ہمالیائی شخصیت کا نام ہے جو اتفاق سے آج تک غلط فہمیوں کے ہالے کے درمیان ہے۔مولانا احمد رضا نے اپنی پوری عمر بلکہ اپنی پوری زندگی کا لمحہ لمحہ شریعت اسلامیہ کے فروغ میں گزارا اور بدعات و خرافات کے خلاف ایک زبردست مہم چلائی۔ ان بدعات و خرافات کے خلاف نہ صرف یہ کہ خود کمر بستہ ہوئے بلکہ اپنے خلفا اور شاگردوں کو بھی اس کے لیے تیار کیا۔ ان خلفا اور شاگردوں نے مولانا احمد رضا کا پیغام دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچایا۔ انہوں نے کتابیں لکھیں، تقریریں کیں، تنظیمیں بنائیں، ادارے قائم کیے اور دنیا والوں تک اسلام کی صحیح تصویر پیش کی۔ یہ محض عقیدت کی بنیاد پر نہیں لکھا جا رہا ہے بلکہ ان کی کتابیں اور تحریریں ہمارے اس دعوے کو یقین و صداقت کی روشنی سے معمور کر دیتے ہیں جس سے ان کا بڑا سے بڑا مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا مگر اس پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ دور میں اسے ہم اپنی کم نصیبی کہیں یا کچھ اور کہ ہم اب تک مولانا احمد رضا کے متعلق غلط فہمی کے شکار ہیں اور بڑی آسانی کے ساتھ ان کی شخصیت سے وہ ساری چیزیں منسوب کردیتے ہیں جس کے خلاف وہ زندگی بھر بر سر پیکار رہے۔ آج برصغیر میں بدعات و خرافات کی جو گرم بازاری ہے ان کا مولانا احمد رضا سے منسوب کیا جانا ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ ہم ذیل میں ان بدعات و خرافات کی ایک اجمالی سی فہرست پیش کر رہے ہیں جس کے خلاف مولانا احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ زندگی بھر اپنی زبان وقلم کا استعمال کرتے رہے۔
تعزیہ داری اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم شریف کا آغاز ہوتے ہی مسلمانوں کے معاشرے میں کچھ ایسے کام شروع ہو جاتے ہیں جو قطعی ناجائز و حرام ہیں۔ مسلمان تعزیہ نکالتے ہیں اور اس میں زبردست مقابلہ آرائی ہوتی ہے۔ ڈھول باجے تاشے کے ساتھ ان تعزیوں کو شہر کی گلیوں سڑکوں سے گزارا جاتا ہے، نوحہ خوانی کی جاتی ہے، تعزیوں کے نئے نئے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں، سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار کا تصور کر کے نقد پیسہ، پھول ،عطر، اگربتی اور زیورات و غیرہ پیش کیے جاتے ہیں اور مسلمان منت مانتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مولانا احمد رضا اس مروجہ قبیح بدعت کے خلاف یوں قلم طرازہیں: ”اب کہ تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ کا نام ہے، قطعاً بدعت و ناجائز ہے۔”(اعالی الافادة فی تعزےة الہندوالشہادة:ص٤)
تعزیہ داری کے متعلق ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :”……تعزیہ آتا دیکھ کر اِعراض و روگردانی کریں، اس کی جانب دیکھناہ ی نہیں چاہیے۔ اس کی ابتدا، سنا جاتا ہے کہ امیر تیمور بادشاہ دہلی کے وقت سے ہوئی۔ واللہ تعالیٰ اعلم”(عرفان شریعت :حصہ اول)
مولانا احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز نے اس مروجہ تعزیہ داری اوراس سے منسلک دیگر قبیح رسومات کے خلاف مستقل ایک کتاب تحریر فرمائی اور لوگوں کو صحیح راہ دکھائی۔ کتاب کا نام یہ ہے: اعالی الافادة فی تعزےة الہندوالشہادة قوالی اورسماع ا کثر ایسا ہوتا ہے کہ بزرگان دین کے اعراس کے مواقع پربز رگوں کے مزارات پر قوالیاں ہوتی ہیں۔ قوالی پڑھنے والے عموماً ایسے لوگ ہوتے ہیں جو غیر شرعی امور کا ارتکاب کرنے میں کوئی باک نہیں محسوس کرتے۔ ان کا مطمح نظرصرف اور صرف واہ واہی لوٹنا اور پیسہ کمانا ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ قوال حضرات ایسا کلام پیش کرتے ہیں جو گمراہیت اور کفر کی حدوں تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس کے لیے دلیل یہ دی جاتی ہے بزرگوں نے بھی قوالی سنی ہے حالانکہ بزرگوں پریہ ایک طرح کا افترا ہے، انہوں نے قوالی ضرورسنی ہے مگر شرع کی پاسداری کے ساتھ سنی ہے۔ مولانا احمد رضا اس مروجہ قوالی کے خلاف بہت سخت تیور میں قلم آراہیں :
Qawali
‘ایسی قوالی حرام ہے ،حاضرین سب گنہ گار ہیں اوران سب کا گناہ ایسا عرس کرنے والوں اور قوالوں پرہے اور قوالوں کا گناہ بھی اس عرس کرنے والے کے ماتھے۔ قوالوں کا گناہ جانے سے قوالوں پرسے گناہ کی کچھ کمی آئے یا اس کے اور قوالوں کے ذمے حاضرین کا وبال پڑنے سے حاضرین کے گناہ میں کچھ تخفیف ہو، نہیں بلکہ حاضرین میں ہر ایک پر اپنا پورا گناہ اور قوالوں پر اپنا گناہ الگ اورسب حاضرین کے برابر جدا اور ایسے ہی عرس کرنے والے پر اپنا گناہ الگ اور قوالوں کے برابر جدا اور سب حاضرین کے برابر علاحدہ۔ وجہ یہ ہے کہ حاضرین کوعرس کرنے والے نے بلایا، ان لوگوں کے لیے اس گناہ کا سامان پھیلایا اور قوالوں نے انہیں سنایا۔ اگروہ سامان نہ کرتایہ ڈھول سارنگی نہ سناتے تو حاضرین اس گناہ میں کیوں پڑتے، اس لیے ان سب کاگناہ ان دونوں پرہوا۔”(احکام شریعت:جلداول،ص٣٣)
مولانا احمد رضا نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف مکمل قلمی جہاد فرمایا۔ اس کے لیے فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے اور”احکام شریعت” ، ان کے ملفوظات کا مجموعہ ”الملفوظ”اور ”فتاویٰ افریقہ”میں بھی اس کی تردید ملا حظہ کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس فتنے کو بند کرنے کے لیے دو مستقل کتابیں تحریرکیں۔ (١)مسائل سماع(٢)اجل التبحیرفی حکم السماع والمزامیر مزارات پر عورتوں کی حاضری
آج بزرگوں کے مزارات پر غیر شرعی رسوم اتنے زیادہ ہونے لگے ہیں کہ روحانیت بالکل ختم ہوچکی ہے۔ خاص طور پر خواتین کی کثرت نے یہاں کے ماحول کو بہت زیادہ پرا گندہ کر دیا ہے۔ عورتوں اور مردوں کا اختلاط ہوتا ہے، دھکامکی ہوتی ہے اور اسی کے ذیل میں بہت سارے گندے امور فروغ پاتے ہیں ایسی صورت میں کوئی تقویٰ شعار اور احتیاط پسند شخص وہاں جانے کے لیے بھی سو بار سوچتا ہے۔ مجاوروں نے مزارات اور درگاہوں کو کھانے کمانے کادھندہ بنالیاہے اوریہ دھندہ بڑی تیزی سے پھل پھول رہاہے علما اس کے خلاف تقریریں کرتے ہیں، تحریریں لکھتے ہیں مگریہ مجاور حضرات باز نہیں آتے اور باز بھی کیوں کرآئیں جب ان کا اس سے مفاد وابستہ ہو۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں چاہے ان کے اس فعل سے اسلام بدنام ہو اور چاہے اللہ تعالیٰ ناراض ہو۔ اگریہ مجاور حضرات چاہیں تو مزارات پر کسی بھی طرح کاکوئی بھی غیر شرعی کام انجام نہ پاسکے مگرچوں کہ انہیں نذرانے اور چڑھاوے ملتے ہیں اس لیے یہ سب روا رکھا جاتا ہے۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا قادری نے بڑے غضب ناک لہجے میں اس کارد فرمایا اور لوگوں کوتنبیہ کی : ” غنیہ میں ہے ،یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزار پر جانا جائزہے یانہیں بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پرکس قدر لعنت ہوتی ہے اللہ کی طرف سے اور کس قدر صاحبِ قبر کی جانب سے۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اورجب تک واپس آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں ۔سواے روضۂ انورکے کسی مزارپرجانے کی اجازت نہیں ۔”(الملفوظ:جلددوم،ص١١٧) وہ مزارات پر تو درکنار قبرستان میں بھی عورتوں کے جانے کے خلاف ہیں، ایک مقام پر لکھتے ہیں: ”عورتوں کو مزاراتِ اولیاومقابرِ عوام دونوں پر جانے کی ممانعت ہے۔”(احکام شریعت:دوم،ص١٨)
ان کے فتاوے اور ملفوظات میں جگہ جگہ اس کی تردید نظر آتی ہے ۔اس کے لیے فتاویٰ رضویہ ،احکام شریعت اور الملفوظ کے بعض مندرجات دیکھے جاسکتے ہیں اور پھر یہ دو کتابیں بھی اس سلسلے میں ان کے نظریات کاتعین کرنے میں مدد کرتی ہیں۔(١)جمل النورفی نھی النساء عن زیارة القبور(٢)مروج النجاء لخروج النساء
مزارات پرسجدہ کرنا اللہ عزوجل کے سواکسی کو بھی سجدہ کرنا روا نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی مسلمان غیر خدا مثلاًمزار کے سامنے یا پیرو مرشد کے سامنے اسے خدا سمجھ کر سجدہ نہیں کرتا بلکہ اپنے جذبات سے مغلوب ہوکر محبت و عقیدت میں سجدہ کرتا ہے، اسے سجدۂ تعظیمی کہتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے اس سجدۂ تعظیمی کوبھی حرام و ناجائز کہا ہے۔ اس کی اجازت کسی بھی طرح نہیں دی جاسکتی مگر اس وقت دل کو بڑی چوٹ سی لگتی ہے کہ جب ہم مزارات کے سامنے لوگوں کو زمین پرپیشانی رکھتے یا مزار کی چوکھٹ پرسجدہ ریزی کرتے دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ جہلا یہ سب اندھی عقیدت میں کرتے ہیں، پڑھے لکھے حضرات اس سے دوررہتے ہیں ۔مجاورحضرات اس لیے منع نہیں کرتے کہ اولاً عام طور پر تو وہ نرے جاہل ہی ہوتے ہیں اور ثانیاً زائرین کو منع کرنے میں خود ان کا نذرانہ اور چڑھاوا بند ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس سجدۂ تعظیمی کو جاہل پیروں اور صوفیوں نے بہت روا ج دیا ہے۔ مولانا احمد رضا نے اس قبیح اور انتہائی مضرِدین رسم کے خلاف جم کرکہا اور لکھا۔ چنانچہ اس بابت انہوں نے دوکتابیں تصنیف کیں۔(١)الزبدة الزکیہ فی تحریم سجودالتحےة(٢)مفادالحبرفی الصلوٰة بمقبرة اوجنب قبر۔ اپنے متعد دفتاووں اور ملفوظات میں بھی انہوں نے اس کے خلاف تحریر کیا ہے ۔ اول الذکر کتاب میں مولانا احمد رضا نے متعدد آیات کریمہ، چالیس احادیث نبویہ صحیحہ اور ای سوفقہی جزئیات ونصوص نیزاقوال بزرگان دین سے اس سجدۂ تعظیمی کی حرمت کا حکم بیان فرمایا ہے۔ اس کتاب کے متعلق ہندوستان کے معروف عالم دین مولاناابوالحسن علی ندوی تحریرفرماتے ہیں :وھی رسالة جامعة تدل علیٰ غزارة علمہ وسعة اطلاعہ یہ ایک جامع رسالہ ہے جس سے ان (مولانا احمدرضا)کے وفورعلم اوروسعت معلومات کااندازہ ہوتاہے ۔(حاشیہ نزھة الخواطر:جلدہشتم،ص٤٠)
اس سجدے کے متعلق مولانا احمدرضاکے قلم کاغضب ناک تیوردیکھیے:٭مزارات کوسجدہ یاا س کے سامنے زمین چومناحرام ہے ۔٭زمین بوسی حقیقتاً سجدہ نہیں کہ سجدے میں پیشانی رکھنی ضرورہے جب یہ اس وجہ سے حرام اورمشابہ بت پرستی ہوئی کہ صورةًقریب سجودہے ،توخودسجدہ کس درجہ حرام اوربت پرستی کامشابہ تام ہوگا۔
فرضی قبریں یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کااس کے مذہب کے نام پربڑی آسانی سے استحصال کیا جاسکتاہے ۔اس خصوص میںمسلمان اپنے مذہب اوراپنی روایتوں کے بارے میں بڑے حساس واقع ہوئے ہیں اورواقعہ یہ ہے کہ انہیں حساس ہونابھی چاہیے مگر معاملہ اس وقت بگڑجاتا ہے جب اس مذہب کی آڑمیں غلط کام کیے جاتے ہیں جس سے پورامذہب بدنامی کا شکار ہوتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو فرضی قبروں کے مجاور بنے بیٹھے ہیں۔ جاہل عوام وہاں چڑھاوے چڑھاتے ہیں، نیاز کرتے ہیں، قوالیا
Theorie
ہوتی ہیں، خواتین کی کثرت سے حاضری ہوتی ہے اورنہ جانے کیا کیا غلط کام ہوتا ہے۔ مگرچوں کہ ان فرضی قبروں سے مجاوروں کی اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے اس لیے یہ دھندابڑی تیزی سے آگے بڑھ رہاہے اورآج کل یہ بڑی نفع بخش تجارت ہوگئی ہے۔ ذرادیکھیے مولانا احمدرضاان فرضی مزارات کے بارے میں کیاکہتے ہیں : ”فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اورخواب کی بات خلافِ شرع امورمیں مسموع نہیں ہوسکتی۔”(فتاویٰ رضویہ : چہارم، ص١١٥ ) ایک سوال کے جواب میں تحریرفرمایا:”……..جس قبرکایہ بھی حال معلوم نہ ہوکہ یہ مسلمان کی ہے یاکافرکی ،اس کی زیارت کرنی فاتحہ دینی ہرگزجائزنہیں ……………”(حوالہ سابق)
مولانا احمد رضا کی احتیاط کا تویہ عالم ہے کہ قبرکے بوسے اور طواف سے بھی منع کرتے ہیں: ”بلاشبہہ غیر کعبۂ معظمہ کا طواف تعظیمی ناجائزہے اور غیر خدا کو سجدہ ہماری شریعت میں حرام ہے اور بوسۂ قبرمیں علما کا اختلاف ہے اور احوط منع ہے ۔”(احکام شریعت : حصہ سوم،ص٣/فتاویٰ رضویہ :حصہ دہم،ص٧٧) ایک دوسری جگہ یوں رقم طراز ہیں:”مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ،ناجائزہے کہ تعظیم طواف مخصوص بخانۂ کعبہ ہے۔ مزار کو بوسہ نہ دینا چاہیے۔”
حتیٰ کہ امام احمدرضانے قبر کو اونچی بنانے سے بھی لوگوں کو سختی سے منع کیاہے اوراس طرح کی بدعات وخرافات کے خلاف فرمایا کہ قبر کو اونچا بنانا خلاف سنت ہے۔ (الملفوظ:سوم،ص٧٩) یہ تمام مندرجات اس بات کی شہادت فراہم کررہے ہیں کہ مولانا احمدرضاپرجوالزامات لگائے جاتے ہیں وہ اس سے بالکل بری ہیں۔اس کے موجدمولانا احمد رضا اور ان کے پیروکارنہیں بلکہ جاہل لوگ ہیں جومسلمان ہوتے ہوئے بھی غیراسلامی حرکتوں کوبڑے طنطنے کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں ۔اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کادین و شریعت سے کوئی واسطہ نہیںہوتا بلکہ انہیں ہرصورت میں اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔
غلط فہمیوں کے ذمے دار ایک اہم بات یہ ہے کہ مولانا احمدرضاکے ماننے والوں نے بھی انہیں غلط فہمیوں کے درمیان محصور کر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے بلکہ میں تویہی کہوں گاکہ ان کی مخالفت کاسب سے بڑاذریعہ ان کے متبعین ہی ہیں۔ مولانا احمد رضا کو وصال فرمائے ہوئے تقریباً سو سال مکمل ہورہے ہیں مگر آخر کیا وجہ ہے کہ لوگوں میں ان کے متعلق غلط فہمی کی دھند نہیں چھٹی ہے بلکہ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں کہیں ا س غلط فہمی میں اضافہ ہی ہواہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مولانا احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے بہت سارے متبعین نے ان کے نام پراپنے مفاد کی دوکان چمکانے کی شعوری کوشش کی ہے ۔ان کانام توبہت لیاہے مگران کاکام کم کیاہے ۔میں ببانگ دہل کہتاہوں کہ جوتعمیری کام نہیں کرتے وہ مولانا احمد رضا کے نہیں ہوسکتے کیوں کہ مولانا احمدرضاکی زندگی کامطالعہ بتاتاہے کہ وہ صرف اورصرف کام کے آدمی تھے۔ انہوںنے زندگی بھرکام کیاہے ،کام کرنے والے افرادپیداکیے ہیں ، کام کرنے والے لوگوں کواپنے قریب کیاہے اورکام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ مسلک اہل سنت وجماعت کے فروغ واستحکام کے لیے اگرکوئی دنیاکے کسی بھی گوشے میں بیٹھ کرکام کرتاہے تووہ حقیقتاً مولانا احمدرضاکاہی آدمی ہے ،وہ مولانا احمدرضاکاہے اورمولانا احمدرضااس کے ہیں، چاہے وہ مولاناعلیہ الرحمہ کے نام اورکام سے آشناہویانہ ہو۔اس کے برخلاف جوکوئی ان کانام تولیتاہے، ان کے گیت سنتابھی ہے سناتا بھی ہے ،نعرے بھی لگاتاہے ،نذرانے بھی بٹورتاہے اورجیسے تیسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر داد و تحسین بھی وصول کرلیتاہے مگران کاکام نہیں کرتا،ان کے کہے پرعمل نہیں کرتاتوحقیقت یہ ہے کہ وہ ان کاآدمی نہیں ،ان کامتبع نہیں ۔وہ اپنی عقیدت کے ہزاروں دیپ جلالے مولانا احمد رضا اس کے کبھی ہوئے ہیں اورنہ ہوسکتے ہیں،مولانا احمدرضاسے ا س کادورکابھی کوئی تعلق نہیں ۔ایسے لوگوںکوایک بات ضروریادرکھناچاہیے کہ نام لیناضروری نہیں بلکہ کام کرناضروری ہے۔
اخیر میں ہم ایک گزارش ضرور کریں گے کہ جو لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں انہیں مولانا احمد رضا کو ایک مرتبہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اگر آپ غیر جانب دار ہیں تو حقائق آپ پر ضرور منکشف ہوجائیں گے۔ ان کی درجنوں کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ آپ محسوس کریں گے برصغیر میں بدعات و خرافات کے خلاف جتنا انہوں نے لکھا ہے اتنا شاید ہی کسی نے لکھا اورکہا ہوگا مگریہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جو بدعتوں کا سب سے بڑا مخالف ہے اسی کو بدعات کا موجد کہا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس سائنسی دورمیں بھی جہاں علم و تحقیق کے بعدہی کوئی نظریہ قائم کیا جاتا ہے۔
Theorie
سنی سنائی باتوں پر ہی عمل کرتے ہیں۔ کسی کے بارے میں ایک بار جو رائے قائم کر لیتے ہیں پھر بمشکل ہی اس سے رجوع کرتے ہیں۔ حالاں کہ ایک Mouse کی ایک Clickّْْ سے ہی ہم حقائق کی تہ میں اتر سکتے ہیں مگر معلوم نہیں کیوں ہم ایسا نہیں کرپا رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ ان کے نظریات کو بالکیہ قبول ہی کرلیں مگر ان کے متعلق صحیح حقائق سے تو آگاہی حاصل کرہی لیں اور اپنے نظریات کا قبلہ تو ضرور درست فرمالیں۔ آج علم کی دنیا ہے، معلومات کی دنیا ہے، حقائق کی دنیا ہے، ریسرچ کا زمانہ ہے۔ یہاں تو ہربات ناپ تول ،جانچ پرکھ کر، عدل کی میزان پر رکھ کرہی بولی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر ہم مولانا احمد رضا علیہ الرحمہ کے بارے میں غلط فہمی رکھتے ہیں تو ہم نہیں سمجھتے کہ ہم خود اپنی پڑھی لکھی ذات سے صحیح طور پر انصاف کر پارہے ہیں۔