تحریر: سید انور محمود زندگی اور موت اللہ تعالی نے مقرر کی ہوئی ہے اور یہ صرف اللہ تعالی کی ذات ہی جانتی ہے کہ کب کون دنیا میں آئے گا اور کب کون دنیا سے جائے گا۔ سترہ نومبر کی ایک خبر کے مطابق جمعیت علماء اسلام (ف) کے صوبائی جنرل سیکریٹری، سابق سینیٹر ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے سکھر کے قریب گوٹھ آنبہ میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مغربی ممالک اور یہودیوں کا مہرہ ہے، 30 نومبر کی تاریخ بھی 14اگست کی طرح خاموش ہوکر گزر جائیگی، عمران خان جو اب اشتہاری بن چکے ہیں جلد قادری کی طرح لندن بھاگ جانے والے ہیں۔ افسوس 30 نومبر کو ڈاکٹر خالد محمود سومرو اس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ ایک دن قبل 29 نومبرکو سکھر سائیٹ تھانے کی حدود گلشن اقبال میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے اُنہیں ہلاک کردیا۔ اس سے پہلے خالد سومرو پر لاڑکانہ، جیکب آباد اور شکارپور میں حملے ہوچکے تھے۔
میڈیا اور اخبارات کے مطابق ڈاکٹر خالد محمود سومرو اپنی جماعت کے سرگرم رہنما تھے، ان کی قیادت میں جمیعت علمائے اسلام (ف)کے زیر انتظام مدارس میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ انھوں نے سندھ کے کچے سے لے کر تھر کے صحرا تک دیوبند مکتب فکر کو عام کیا۔ وہ ان علاقوں میں جا کر اشتعال انگیز تقاریر کیا کرتے تھے جبکہ ان کی ہی جماعت سے وابستہ کچھ رہنما اور کارکنان فرقہ وارانہ شدت پسند تنظیموں کی جانب بھی راغب ہوئے۔ افغانستان پر امریکی چڑھائی کے بعد سندھ کے علاقے شکار پور سے بھی مدارس کے طالب علم افغانستان جہاد کےلیے گئے تھے۔ خالد سومرو نے تصدیق کی تھی کہ ان کی جماعت نے ملا عمر کو مدد کی پیشکش کی تھی لیکن انھوں نے اس کو قبول نہیں کیا۔خالد سومرو ایک طرف جمیعت علمائے اسلام (ف)کے رہنما تھے تو دوسری طرف وہ سندھی قوم پرستوں کے ساتھ بھی تھے۔ وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے گڑھ لاڑکانہ میں سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے مدمقابل امیدوار رہے، وہ سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف اتحادوں کا بھی حصہ رہے، انھوں نے سندھ میں ایک ایسے مولانا کے طور پر شناخت حاصل کی جس کے قوم پرستوں کے ساتھ قریبی مراسم تھے، اُنھوں نے کالاباغ ڈیم، قومی مالیاتی ایوارڈ اور سندھ کی تقسیم کے نعرے پر وہ ہی موقف اختیار کیا جو قوم پرست جماعتوں کا تھا۔
ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے غم میں نڈھال جمیعت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو یہ تو نصیب نہیں ہوا کہ وہ خود جنازئے میں شامل ہوتےکیونکہ دو دسمبرکوکشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اُنکو یورپ کے دورے پر جانا تھا ، دورے کے دوران وہ یورپ میں پاکستانی مشنز سے ملاقات کریں گے اور واپس آکر سرکار سے اس بیکار دورئے کا معاوضہ وصول کرینگے۔ خالد سومرو کے قتل کے بعد مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ نے ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور ڈاکٹر خالد محمودسومرو کا صدمہ برداشت کیا ہے وہ اہل لاڑکانہ سے تعزیت کرتے ہیں یہ واقعہ قومی سانحہ ہے۔مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قتل کو جہادی تنظیموں سے منسلک کر کے وقوعے کو تبدیل کرنے کی سازش ہو سکتی ہے ،مجھ پر بھی تین بار حملہ کیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن یہ بیان دیتے وقت تھوڑا سا اگر تاریخ کو یاد کرلیتے تو شاید کچھ شرم اُنکو آتی اور وہ یہ بیان نہ دیتے۔ مولانا کی یاداشت کےلیے عرض ہے کہ لاڑکانہ کے ان تین مقتولوں میں بڑا واضع فرق ہے، ذوالفقار علی بھٹو ایک بڑئے قومی سیاسی رہنما تھے اور جب اُنکو ڈکیٹر ضیاءالحق نے پھانسی دی تھی تو اُنکے والد مفتی محمود بھٹو دشمنی میں ضیاءالحق حکومت کے حامی تھے، بینظیربھٹو جن کی جی حضوری کرنے پر ہی مولانا کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تھا ،وہی بینظیر بھٹو دہشت گرد طالبان کے سخت خلاف تھیں یہ ہی وجہ ہے کہ دوسروں کے علاوہ بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام طالبان دہشت گردوں پر بھی آتا ہے جبکہ مولانا کی طالبان سے دوستی چھپی ہوئی نہیں ہے، ڈاکٹر خالدمحمودسومرو جو نہ صرف دہشت گردوں کےحامی تھے بلکہ نام نہاد جہاد کے نام پر اُنکے مدرسے سے دہشت گرد افغانستان بھیجے گے تھے۔ مولانا فضل الرحمن اہل لاڑکانہ بھٹو خاندان اور دہشت گردوں میں فرق جانتے ہیں۔
Maulana Fazlur Rehman
مولانا فضل الرحمن 31 مارچ 2011ء سےابتک 44 ماہ کے دوران تین قاتلانہ حملوں سے بچنے میں کامیاب رہے۔ تاہم ان حملوں میں دو درجن سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، اسکے علاوہ ماضی قریب میں 17 جون کو لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاون میں 14 لوگوں کی موت پھر واہگہ بارڈر پر دھماکہ سے 60 زیادہ افراد کی ہلاکت، مولانا کو کسی سے بھی ہمدردی نہ ہوئی حالانکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اکتوبر میں مولانا کے اوپر ہونے والے خودکش حملے میں ہلاک ہوئے تھے لیکن مولانا نے ہڑتال اور پہیہ جام تو دور کی بات ایک مرتبہ بھی بھرپور احتجاج نہیں کیا۔ عمران خان کے طویل دھرنے سے نواز شریف اور اُنکے حواریوں کی نیندیں حرام ہیں ایسے میں مولانا کو ڈاکٹر خالد سومرو کی لاش مل جاتی ہے تو مولانا کی صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے کی خواہش شایدپھر جاگ اٹھتی ہے اورمولانا ایک بار پھر اپنی چالاکی کا استمال کرتے ہوئے نواز شریف سے ڈاکٹر خالد سومرو کی لاش کی سیاسی قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ مولانا نے عمران خان کے 30 نومبر کے پروگرام کو خراب کرنے کےلیے پورئے ملک میں 30 نومبر کو ہی پہیہ جام اور ہڑتال کا اعلان کردیا اسکے ساتھ ہی صوبہ سندھ جہاں سے جےیو آئی کو قومی یا صوبائی اسمبلی کی کوئی سیٹ حاصل نہیں ہوئی تھی وہاں قائم پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمہ کا مطالبہ بھی کردیا۔ خیر سندھ کی موجودہ حکومت تو وہ ڈائن ہے جو ابتک تھر میں بھوک اور افلاس کے سبب صرف 61 دن میں 163 بچوں کو موت کے منہ میں بھیج چکی ہے وہ ایک ڈاکٹر خالد سومرو کے قتل سے کہاں جانے والی ہے۔
ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے قتل کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کی اپیل پر سندھ میں جئے سندھ متحدہ محاذکے ساتھ ملکر ڈاکٹرخالد سومرو اور جئے سندھ متحدہ محاذ کے کارکنان کے قتل کے خلاف سندھ کے چند شہروں جن میں لاڑکانہ، خیرپور اور سکھر شامل ہے مکمل ہڑتال ہوئی جبکہ حیدرآباد میں جزوی اور کراچی میں کچھ دیر سپر ہائی وئے بند رہا۔ سندھ بلوچستان شاہراہ پر بھی پتھراو کے سبب کچھ دیر ٹریفک معطل رہا لیکن اصل مقصد تھا کہ لوگوں کو عمران خان کے 30 نومبر کے پروگرام سے کیسے روکا جائے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے کارکنوں نے اسلام آباد سے پشاور اور اسلام آباد سے لاہور موٹروے کو پتھر لگا کر بند کر دیا تھا۔ متعدد مقامات پر تحریک انصاف کے قافلوں پر پتھراوُ کیا گیا،جے یو آئی (ف) کے کارکنوں نے پشاور ٹول پلازہ پر دھرنا دے کر تحریک انصاف کے قافلے کا راستہ روک دیا ، پتھراوُ کے نتیجے میں وزیر اعلی کے پی کے کا قافلہ واپس موڑ دیا گیا، بنوں اور کرک میں دونوں جماعتوں میں جھڑپ کے نتیجے میں 5کارکن زخمی ہو گئے۔
سوال یہ ہے کہ پشاور، لاہور یا کسی اور شہر کی سڑکوں کو بند کر کے مولانا کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟ اس سوال کا جواب عمران خان نے 30 نومبر کےاپنے جلسے کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے دیا ، عمران خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے آج مولانا فضل الرحمن کو پختونخوا کو بند کرنے کی ڈیوٹی لگائی تھی، مولانا نے پوری کوشش کی کہ میرے پختونخوا کے ٹائیگر یہاں نہ پہنچ سکیں۔ اس بات کو ساری دنیا نے مانا ہے کہ عمران خان کا 30 جولائی کا جلسہ کامیاب رہا، لیکن افسوس مولانا فضل الرحمن ایک لاش کےزریعے جو حاصل کرنا چاہتے تھے اُس میں کامیاب نہ ہوپائے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد دہشت گرد تنظیمیں کمزور ہویں ہیں اور اب کسی بھی ایک واقعہ کی ذمیداری ایک سے زیادہ تنظیمیں قبول کررہی ہیں۔ اسکے علاوہ یہ ایک دوسرئے کو بھی مار رہی ہیں۔ خالد سومرو بھی دہشت گردوں کے ہمدرد تھے بلکہ دہشت گرد مہیا کرنے میں بھی معاون تھے، ڈاکٹرخالدمحمود سومرو کا قتل انہی کے پیٹی بند بھایئوں دہشت گردوں کا کارنامہ ہے جس کی تصدیق اُن کے بیٹوں نے بھی یہ کہکر کردی کہ ہمارے والد کو اناڑیوں نے نہیں بلکہ کھلاڑیوں نے ٹارگٹ کیا ہے۔ پاکستان میں لاشوں پر سیاست کرنا عام بات ہے، اب دیکھیں کیا ہوتا ہے مولانا فضل الرحمن کو بھی ایک لاش مل گئی ہے۔