مولانا فضل الرحمان کی عجیب منطق

Maulana Fazlur Rehman

Maulana Fazlur Rehman

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
چلیں، جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جہاں یہ خواہش کہ”تحفظِ نسواں قانون کے خلاف عدالت جانے والے کی بھرپور حمایت کریں گے“ پوری ہو گئی ہے تو وہیں اَب اِن کا سخت امتحان بھی شروع ہوگیاہے اَب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا اِس حوالے سے کیا کریں گے۔

کیونکہ یہ اطلاع ہے کہ گزشتہ سوموار 29 فروری 2016 کو تو آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت تحفظِ خواتین بل کو وفاق، حکومتِ پنجاب، وزارتِ قانون و انصاف اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے سُپریم کو رٹ میں چیلنج کردیاگیاہے اور خبرہے کہ چیلنج کرنے والے نے بڑے دھڑلے سے عدالت سے اِس قانون کو کالعدم قراردینے کی بھی استدعاکی ہے جبکہ درخواست گزارنے اپنی درخواست میں یہ موقف بھی اختیارکیا ہے کہ اسلام نے عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق دیئے ہیں“ (تاہم اِس سے تو کسی کو انکار نہیں… یہ ٹھیک ہے کہ اسلام نے توعورتوں کوسب سے زیادہ حقوق دیئے ہیں مگر میرے اِس معاشرے میں جہاں میں اور درخواست گزارسمیت کروڑوں چالباز اور عیار مرد موجود ہیں آج اِن مردوں نے اپنا نام نہاد مردوں کا جو معاشرہ تشکیل دے رکھاہے ایسے میں ہم ایک لمحے کو سوچیں کہ کیا ہم نے اپنے اِس معاشرے میں اسلام کے دیئے ہوئے وہ تمام حقوق عورتوں کو دے دیئے ہیں ؟؟ توہمیں یقینااپنے اِس سوال کا جواب بڑامبہم سا نہیں میں ہی ملے گا۔

اِس لئے کہ آج اگر شاطر اور مکار مردوں نے عورتوں کے حقوق اُس طرح سے دیئے ہوتے جس طرح اسلام نے عورتوں کو دیئے ہیں تو میرے دیس کی عورتوں کو چادراور چاردیوار ی میںرہ کر بھی عدم تحفظ کا کبھی بھی احساس نہ ہوتااور نہ ہی کوئی مرد اِن کے حقوق غضب کرتا،یہاں یہ بات ہم مردوں کو تسلیم کرنی ہوگی کہ میرے مُلک کی میری تہذیب کے میرے معاشرے کے ہر گھر کے ہر مرد نے کسی نہ کسی طرح عورت کے حقوق غضب کئے ہوئے ہیں تو حکومتِ پنجاب کو تحفظِ خواتین بل لاناپڑاہے آج اگر مرد عورتوں کے حقوق اُسی طرح اداکررہے ہوتے جس طرح اسلام نے عورتوں کو اِن کے حقوق دیئے ہیں تو پھر اور حکومتِ پنجاب کو تحفظِ خواتین بل کی منظوری بھی نہ کرانی پڑتی اگر سب کچھ ایسا ہی چل رہاہوتاجیسا کہ اسلام نے عورتوں کو حقوق دیئے ہیں)۔

Women Protection Bill

Women Protection Bill

بہرحال ،درخواست میں ہے کہ ” تحفظِ خواتین بل میں مغربی ممالک کی خوشنودی حاصل کرنے اور خودکو سیکولر اسٹیٹ کہلوانے کے لئے ایسا کیاگیا، جس میں مردوں کی تضحیک (یہاں راقم الحرف یہ ضرور کہناچاہے گا کہ ہاں..!! تب میرے مُلک میرے معاشرے اور میرے دینِ اسلام کے ماننے والے مر دوں کو اپنی تضحیک محسوس نہیں ہوتی جب یہ عورت کو اِس کے حقوق سے محروم کرتے ہیں، عورت پر شریعت کے خلاف(کبھی لاٹھیوں ڈنڈوں،اورجلاکر اور تیزاب پھینک کر) تشدد کرتے ہیں، عورت کو جائیداد کے بٹوارے میں اِس کے شریعت مطابق ملنے والے حقوق سے محروم رکھتے ہیں، اوراِس کے حصے کی بھی ساری جائیداد پر خود شیش ناگ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔

مردوں کو اُس وقت تو شرم نہیں آتی جب یہ اپنی مرضی سے اپنے ذاتی اور سیاستی فوائدے حاصل کرنے کے لئے اپنی بہن ، بیٹی اور قریبی خونی رشتوں سے جڑی عورتوں کی رائے معلوم کئے بغیراِس کی عمر سے کئی گنازیادہ بڑے اور عمررسیدہ بے جوڑ مردسے شادی کرادیتے ہیں اور بالفرض کوئی پڑھی لکھی باشعور اور باہمت عورت اِس سے انکار کردے اِن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوجائے تو اِسے یہی مرد غیرت اور عزت کے نام پر کبھی کاروکاری تو کبھی کوئی اور نام دے کر قتل کردیتے ہیں تب تو اِنہیں اپنی تضحیک ہوتی محسوس نہیں ہوتی ہے۔

تب تو یہ عورت کو اپنی انااور عزت کی تسکین کے خاطر قتل کرکے اپنے سینے پر بہادری کے تمغے سجالیتے ہیں اور اپنا طرہ آسمانوں کی بلندیوں سے بھی زیادہ اُونچامحسوس کرتے ہیں اصل میں تو اِن کا یہ عمل باعثِ تضحیک ہے جو یہ نہیں سمجھتے ہیں)‘کا عنصر نکلتا ہے، میرے دیس کے ایسے مردوں کی ایسی گھٹیا تضحیک کی دہت تیری کی۔ جبکہ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں اپنا بڑاساسینہ پھولاتے ہوئے یہ موقف بھی اختیارکیا ہے کہ”یہ بل اسلامی تعلیمات کے منافی اور مردوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے،(اول میں تو سب سے پہلے تحفظِ نسوان بل کو چیلنج کرنے والے سے یہ سوال کیاجائے کہ کیا اُسے یہ معلوم ہے کہ مرد ہونے کے ناطے اِس کے اِس پر اور اپنی بیووں اور عورتوں پر کیاکیا بنیادی حقوق ہیں ؟؟ اور پھر یہ پوچھاجائے کہ اسلام نے مردوں اور عورتوں کے کیا حقوق دیئے ہیں؟؟ اگر یہ سب کچھ ٹھیک ٹھیک بتادے تو بات آگے بڑھائی جائے ورنہ وقت ضائع کئے بغیر ہی درخواست فی الفور برخواست کردی جائے۔

JUI-F

JUI-F

جس طرح گزشتہ دِنوں کراچی میں جے یو آئی (ف) کے منتخب بلدیاتی نمائندوں سے خطاب کے دوران مولانا فضل الرحمان نے پنجاب میں تحریک تحفظِ شوہراں چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحفظِ نسواں قانون کے خلاف عدالت جانے والے کی بھرپور حمایت کریں گے،ہاں البتہ ، اُنہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مزید یہ بھی کہا کہ دراصل” مُلک کے آئین کے مطابق قانون سازی کا محورپارلیمنٹ ہے مُلک کی پالیساںطے کرنے کا حق پارلیمنٹ اور حکومت وقت کو ہے۔

ٹھیک ہے مولانا کی یہ ساری باتیں اپنی جگہہ مگریہاں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ مولاناکی تو بہت سے معاملات میں ٹانگ آڑانااور بیٹھے بیٹھائے جراح کرنااِن کی کچھ ایسی فطرت بن گئی ہے کہ جب تک یہ کچھ نہ کریں اِنہیں تسکین ہی نہیں ملتی ہے ابھی کچھ عرصہ قبل تک مولانا فضل الرحمان کو اقتصادی راہدی پر بھی انگنت تحفظات رہے تھے مگر پھر خود بخود یہ تحفظات مولانانے ختم بھی کردیئے ہیں ابھی مولانا کے اقتصادی راہدی پر تحفظات ختم ہوئے ہیں تو مولانا نے بیٹھے بیٹھائے حقوقِ نسواں بل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرناشروع کردیاہے بلکہ اِس مرتبہ تو مولانا نے مردوں کی غیرت کو سپوتاژ ہونے سے بچانے کے لئے تحریک تحفظِ شوہراں شروع کرنے کا بھی اعلان کردیاہے “ ایسے میں ہمیں کچھ نہیں کرناچاہئے بس یہ سمجھ کرکے یہ تو مولاناکی فطرت اور عادت ہے کہ یہ ہربات پر بیٹھے بیٹھائے تحفظات کا غبارہ ہوامیں اُڑاکر کچھ عرصہ خود ہی پریشان رہتے ہیں پھر خاموش ہوکر بیٹھ جاتے ہیں اَب ہمیں مولانا کی خصلت اور فطرت جان کر اِسے برداشت ہی کرنا پڑے گا۔

بہرکیف ،مگر پھر بھی بات دراصل یہ ہے کہ خواہ کوئی مُلکی اور بین الاقوامی معاملات ہوں اکثر یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی گئی ہے کہ مولانافضل الرحمان کی تو جیسے یہ عادت سی بن گئی ہے کہ جِسے سب اچھاکہیں ،وہ (مولانا فضل الرحمان)اُسے ضرور بُراکہتے ہیں، ڈرہے کہ کہیں اگر ساری دنیا یک زبان ہوکر مرچ کو کڑواکہے تو یقینامولانااپنی عادت سے مجبورہوکراُسے ضرورمیٹھاقراردینے کی ضدکریں گے اور جب اِس سے بھی بات نہیں بنے گی تو مولانامرچ کو میٹھاقراردینے کے لئے تحریک چلانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے، کیونکہ اِنہیں زبردستی اپنی بات منوانے کے لئے تحریک چلانے کی عادت جو پڑگئی ہے اور ویسے بھی میرے بھائی ہمارے یہاں مردوں کے نام نہاد معاشرے میں بیچاری مظلوم عورت نے شوہروں کے کون سے حقوق غضب کررکھے ہیں؟؟؟آج جنہیں شوہروں کو دلانے کے لئے مولانا فضل الرحمان تحریک حقوقِ شوہراں چلانے کا اعلان کرکے خود ہی اپنی علمیت اور قابلیت پر بڑاساسوالیہ نشان لگاچکے ہیں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com