جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان 19 جون 1953ء کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے عبد الخیل میں، سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے مولانا مفتی محمود کے ہاںپیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم مقامی دینی مدرسے میں حاصل کی،1983ء میں جامعہ پشاور سے اسلامک اسٹڈیز میں بی۔اے کا امتحان پاس کیا، بعدازاں مصر کے جامعہ الاظہر میں ایم۔ اے کا امتحان پاس کیا، 1988ء میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن بنے اس کے بعد مسلسل چھ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں تحریک ایم آر ڈی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کرمتحرک کردار ادا کیااور 2 سال تک جیل میں بھی رہے ،بینظیر بھٹو کے دور میںخارجہ کمیٹی کے سربراہ رہے،اٹل بہاری واجپائی کے دورمیں بھارت کاسرکاری دورہ کیا،بھارتی میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کو علاقائی مسئلہ قرار دیا،پاکستان اوربھارت کے مابین تجارت اورمعاشی تعلقات کی بحالی کی خواہش کااظہارکیا،پیپلزپارٹی اورن لیگ کے دورمیںکشمیرکمیٹی کے چیئرمین رہے،2002 میں ان کی قیادت میں بننے والے اتحاد ‘ایم ایم اے’ نے صوبہ سرحد(کے پی کے) میں حکومت بنائی، 2013ء کے عام انتخابات میں بھی اپنے حلقہ سے کامیاب ہوکرمیاں نواز شریف کے ساتھ وفاقی حکومت میں شریک ہوئے۔
سعودی عرب کے ساتھ اُن کے تعلقات کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ امام الحرمین شریفین جب بھی پاکستان آتے ہیں تومہمان نوازی کاشرف انہیں کوحاصل ہوتاہے،2018ء کے عام انتخابات میں پہلی بارجمعیت علمائے اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو اپنے حلقے سے شکست کاسامناکرناپڑاجس کے بعد وہ وفاق،صوبہ پنجاب،صوبہ خیبرپختونخواہ اکثریتی اوربلوچستان میں مخلوط حکومت قائم کرنے والی پاکستان تحریک انصاف سے سخت ناراض نظرآتے ہیں،انہوںنے اپوزیشن جماعتوں کوساتھ ملاکرحکومت کیخلاف اتحادبنانے کی کوشش کی جس میں انہیں خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی اورپھرانہوں نے اپوزیشن اتحاد کی مشاورت سے پاکستان کے ایوانِ بالا کے چیئرمین صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جس میں بدقسمتی سے اپوزیشن اتحادکی واضع اکثریت کے باوجودناکامی کاسامناکرناپڑا،مولانانے اپوزیشن جماعتوں کواسمبلیوں سے استعفے دینے کامشورہ بھی دیاجس پر اپوزیشن نے یہ کہہ کرمنع کردیاکہ استعفے مسئلہ کا حل نہیں جس کے بعد انہوں نے اپوزیشن کی دوبڑی جماعتوں کی شمولیت کے بغیرمتعددملین مارچ کرکے کامیاب پاورشوزکامظاہرہ کیااوراب انہوں نے اکتوبرکے مہینے میں آزادی مارچ کے نام سے تحریک انصاف کی حکومت کیخلاف فائنل رائونڈ کھیلنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری مولانا کے آزادی مارچ میں شامل نہ ہوتے ہوئے ایشوز پراخلاقی اورسیاسی حمایت کااعلان کرچکے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کی شمولیت بھی ابھی تک مشکوک نظرآتی ہے،مولاناہرصورت آزادی مارچ اوردھرنے کافیصلہ کرچکے ہیں،درپردہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اورحکومت مخالف تمام طبقات جن میں تاجران بھی شامل ہیںکسی نہ کسی صورت مولاناکے آزادی مارچ اوراسلام آباد میں دھرنے میں بھرپورکرداراداکرتے معلوم ہوتے ہیں،مولاناسیاسی میدان کے شاطرکھلاڑی اورجوڑتوڑکے ماہرسمجھے جاتے ہیں،مذہب کارڈکے ساتھ مہنگائی اورحکومت کی ناقص کارکردگی بھی مولاناکے مارچ اوردھرنے کوبڑی حدتک سپورٹ کر سکتی ہے۔
موجودہ حالات میں حکومت کمزورسے کمزورمارچ یادھرنے کوچانس دیتی ہے تویہ حکومت کیلئے شدیدمشکلات پیداکرنے کاباعث بن سکتاہے جبکہ میاں نوازشریف اورآصف زرداری کے پاس مولانا آخری اوربڑے مضبوط کھلاڑی ہیں اب یہ حکومت کاامتحان ہے کہ وہ مولاناکودانشمدی کے ساتھ ڈیل کرتی ہے کہ نہیں،یہ بات اپنی جگہ زندہ حقیقت ہے کہ مولانانے مذہبی بنیادوں پرسیاسی عروج حاصل کیاپرایوان اقتدارمیں کبھی نفاذدین اسلام کیلئے سنجیدہ کوشش کی نہ مالیاتی اداروں میں سودی نظام کے خاتمے کیلئے آوازبلند کی اور نہ ہی کبھی بیرون ملک سے سودی قرضے لینے کی مخالفت کرتے دیکھائی دیئے،مولاناکو’کے پی کے’ اوربلوچستان کے اندر مذہبی طبقات کی اچھی خاصی سپورٹ حاصل ہے اور مدرسوں میں غیرمعمولی اثررکھنے کے باعث مولاناہزاروں،لاکھوں افرادکوسڑکوں پرنکالنے کی پوزیشن میں ہیں،اُن کی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں متبادل حکمت عملی پربھی کام جاری ہے۔
حکومت کی جانب سے مولاناکو منانے کی کوئی کوشش کامیاب ہوتی دیکھائی نہیں دیتی البتہ حکومت کی جانب سے مولاناکوقبل ازمارچ نظربند یاگرفتارکرنے کاآپشن موجود ہے جس کیلئے سخت مزاحمت کاسامنابھی کرناپڑسکتاہے،مریم نوازکی گرفتاری کے بعدمیاں نوازشریف کے پاس جارہانہ کھیلنے والے کھلاڑی مولانا فضل الرحمان ہی باقی بچے ہیں جبکہ مولاناپہلی مرتبہ ایوان اقتدارسے باہرہیں اورپہلی بارعوامی طاقت کے ساتھ حکومت مخالف تحریک چلارہے ہیں،مولانانے عوامی حلقوں میں سیاست سے زیادہ ناموس رسالت ۖ کے تحفظ کی بات کی ہے جس کی وجہ سے مذہبی طبقات آخری دم تک اُن کے ساتھ کھڑے نظرآتے ہیں۔
ملکی حالات کودیکھاجائے توحکومت کومولاناکے مارچ سے قبل ہی کوئی نہ کوئی حل تلاش کر لینا چاہئے، مولانابڑے مارچ کے ساتھ اسلام آبادمیں دھرنا دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں توحکومت کیلئے حالات کنٹرول کرناانتہائی مشکل ہوجائے،حکومت مولاناکے مارچ اوردھرنے کی کال پر غیرسنجیدگی کامظاہرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں،مولاناجن مطالبات کے ساتھ دھرنادینے جارہے ہیں اُن میں وزیراعظم عمران خان کااستعفٰی سرفہرست ہے جسے قبول کیاجاناناممکن کے قریب ہے،جب مولانادھرنادینے میںکامیاب ہوجائیں گے تب میاں نوازشریف اورآصف زرداری کیخلاف مقدمات کے خاتمے اوراُن کی باعزت رہائی کامطالبہ بھی کرسکتے ہیں یعنی مولانا پورے نظام کوچیلنج کرنے کوشش کر سکتے ہیں۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com. 03134237099