جب سے جے یو آئی کے سبر براہ مولانا فضل الرحن کی جانب سے آزادی مارچ اور اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا گیا ہے تب سے الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں جو بحث سرِ فہرست رہا ، وہ مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کا ممکنہ نتیجہ ہے ، آج کل شادیوں کا موسم ہے ، لوگ شادی ہال میں جمع ہو تے ہیں تو ایک ہی سوال بہ زبان عوام ہو تا ہے کہ 27 اکتوبر سے جب مولانا کا احتجاج شروع ہوگا تو حکومت کا ردِ عمل کیا ہو گا اور مولا نا فضل الرحمن کونسا آپشن استعمال کرے گا ؟ جتنے منہ اتنی باتیں ،یقین سے کوئی حتمی بات کہنا یقینا مشکل ہے مگر ایک محتاط اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سیاسی کھیل کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔
اس وقت تک مختلف جہتوں سے مو صول ہونے والے تجزیات اور خیالات کے مطابق حکومت اور فضل الرحمن کا مذاکرات کے کامیابی کا کوئی امکان نہیں ، دونوں کے درمیان زبردست قسم کا ٹاکرہ ہو گا ، دمادم مست قلند رہو گا کیونکہ مولانا فضل الرحمن کی مثال اس مچھلی کی سی ہے جو ساری عمر پانی میں رہتی ہے لیکن اگر اسے پانی سے باہر نکال دیا جائے تو اس کا تڑپنا قدرتی اور لازمی امر ہوتا ہے، مولانا صاحب نے ایک طویل مدت اقتدار کے ایوانوں میں گزاری ہے،1988سے لے کر 2018تک یعنی 30سال تک وہ متواتر مختلف سیاسی جماعتوں کے حکومتوں میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں بوجہ ازیں ، اب اس کا تڑپنا، جھپٹنا عین انسانی نفسیات کے مطابق ہے، لہذا قوی امید ہے کہ مولانا صاحب حکومت گرانے کے لئے پورے کا پورا زور لگائیں گے اور ہر وہ حربہ آزمائیں گے جو ان کے بساط میں ہو گا، اس کا بس چلے تو وہ دیگر سیاسی جماعتوں کا ستعمال بھی کریں گے، ڈنڈے بردار فورس کو بھی بروئے کار لائیں گے، اور مدارس کے اساتذہ کرام اور طلباء کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔۔
جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی ایسے وزرائ، مشیران اور با اختیار کارکنان کی کمی نہیں ہے جو عقل سے فارغ اور تجربے کے سنہرے خزانے سے ان کے ہاتھ خالی ہیں ، ان کے بیانات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ حکومتی طاقت پر بھروسہ کے بَل بوتے پر مولانا فضل الرحمن سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ،27اکتوبر سے پہلے مولانا فضل الرحمن اور ان کے معاونین کے نظر بند ہو نے کا بھی قوی امکان ہے۔جس سے موجودہ جذباتی ماحول میں مزید شدت پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔اندریں حالات ہم جو اندازہ لگا سکتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہو گا کہ 26اکتوبر کو صوبہ خیبر پختونخوا میں خصوصی طور پر اور پنجا ب میں جزوی طور پر حکومت بڑے بڑے شاہراہوں پر کنٹینر رکھ کر بند کر دیں گی اور ساتھ ہی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا۔ملک کی سیاسی فضا میں ہل چل اور بحرانی کیفیت شروع ہو جائیگی، میڈیا پر جزوی سنسر شپ بھی لاگو کی جائے گی۔
جے یو آئی کے کارکنان اہلِ زر کی طرف سے میسر کردہ بسوں،ویگنوں اور موٹروں میںسوار ہوکر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دینگے۔ راستے میں ڈنڈوں اور آنسو گیس کے گولوں سے لیس پولیس ان کی منتظر ہوگی۔ جے یو آئی کے باریش کارکنان بھی اپنے عزم ِ صمیم سے رکاوٹ پار کرنے کی کوشش کریں گے، ٹکراوء ہو گا ، دونوں طرف سے کچھ افراد زخمی ہو ں گے، کچھ وقت کے لئے کے لئے مزاہمت میں کمی آئی گی ، پھر جگہ جگہ ایسی ہی صورتِ ھال ملک کے مختلف شہروں میں نظر آئیگی۔ کہیں کم ،کہیں زیادہ متعدد جگہوں پر دھرنے نظر آئیں گے جہاں تلاوت اور نعتیں لاوڈسپیکروں پر سنائی جائیں گی ،یوں چند دن اسی کشمکش اور بحانی کیفیت میں گزریں گے۔ پھر پسِ پردہ ایسی صورتِ حال کو ڈی فیوز کرنے کے لئے مقتدر قوتیں فعال ہو جائیں گی،جس کا نتیجہ دو صورتوں میں نکل سکتا ہے۔ پہلی صورت میںمولانا فضل الرحمن کو اقتدار کے ایوانوں میں پرکشش کرسی دینے اور کچھ مراعات دینے کا خفیہ معاہدہ کیا جائیگا، جسے فوری طور پر افشاء نہیں کیا جائے گا بلکہ کشمیر کی صورتِ حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مولانا صاحب اپنے احتجاج کو ختم کرنے کا اعلان کر دیں گے۔
دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آئین کے مطابق ایسی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کے لئے انتہائی قدم اٹھایا جائے گا،جو مارشل لاء کی صورت میں تو نہیں ہو گا مگر موجودہ حکومت کو چلتا کر کے تین ماہ کے لئے عبوری حکومت قائم کی جائے گی جو نئے انتخابات کرنے کی پابند ہو گی مگر اس دوسری صورتِ حال کا امکان بہت کم جبکہ پہلی متذکرہ صورتِ حال کا امکان زیادہ ہے کیونکہ اس وقت ملکی صورتِ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ملک آئینی اور سیاسی بحران کا شکار ہو جائے بوجوہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ تیسری مقتدر قوت حکومت اور جے یو آئی کے درمیان ٹاکرہ کی بھڑاس نکلنے کے بعد اور چند سیاسی کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کی زخمی ہوکر چند بوتلیں خون کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد کوئی درمیانی راستہ نکال کر سیاسی ٹمپریچر کو نارمل پوزیشن لانے میں کامیاب ہو جائے گی ، یوں حکومت اور مولانا فضل الرحمن دونوں کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی اور عوام بیچارے اس احتجاج کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہونے کی وجہ سے مزید مہنگائی کی چکی میں پِستے رہیں گے۔