تحریک انصاف کی حکومت کو ان دنوں بیشمار اندرونی و بیرونی مسائل نے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے ۔ایک طرف جہاں کشمیر میں کرفیو کے نفاذ کواڑھائی ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا ہے جس سے ادویات اور اشیاء خوردونوش کی عدم فراہمی سے ایک سنگین انسانی المیہ جنم لے رہا ہے وہیں دوسری طرف اپوزیشن کی تحریک ایک نیا رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ کے قوانین کی جس انداز سے دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں وہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی میںجو تقریر کی تھی اس پراب عمل کرنے کا وقت آگیا ہے کیونکہ مودی نے جو کرنا تھا کر لیا اب تحریک آزادی کشمیر کے لئے جو کچھ کرنا ہے وہ پاکستان نے ہی کرنا ہے۔بھارت فلسطین کی طرز پر کشمیر میں ہندو بستیاں تعمیر کرنے کے گھنائونے منصوبے پر عمل پیرا ہے جس کی روک تھام کیلئے اب مئوثر حکمت عملی اپنا نا ہو گی۔مودی”بنیئے” کوکشمیر کی زمین چاہئے اسے کشمیریوں سے کوئی گرز نہیں یہی وجہ ہے کہ بھارتی افواج اور آر ایس ایس کے غنڈے مقبوضہ وادی میں سرعام قتل کر رہے ہیں۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا پاکستان کیخلاف گٹھ جوڑ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔
آرٹیکل370اور35اے کی آڑ میںامریکہ کو کشمیر میں گھسنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے تاکہ وہ سی پیک اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو آسانی سے نشانہ بناسکے،اب اگرایسی سورتحال میںکشمیر پر مضبوط مئوقف اختیارنہ کیا گیا تو اس کے بھیانک نتائج آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنے پڑیں گے۔ اقوام متحدہ میں تقاریر کرکے وزیراعظم نے دنیا کو جو بھارت کا مروہ چہرہ دکھانا تھا وہ دکھا دیا اب، جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالنے سے آزادی ھاصل نہیں ہو گی بلکہ کشمیر کی آزادی کا واحد حل جہاد ہی ہے ، اگر جارج بش نائن الیون کے بعد کروسیڈ صلیبی جنگ کا لفظ استعمال کرتے وقت شرمائے نہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ۖکے احکامات کے باوجود جہاد کا لفظ استعمال کرتے ہوئے گھبرا رہے ہیں، ہماری فوج کا تو موٹو ہی ایمان، تقوی، جہاد فی سبیل اللہ ہے،ہم بار بار یہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان پر حملہ ہوا تو پھر کشمیر کس کا ہے؟ اگر کشمیر پاکستان کا حصہ ہی نہیں ہے تو پھر گزشتہ 72 برس سے ہم جنگ کس مقصد کے لئے لڑ رہے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آ ج ہماری افواج کی موجودگی کے جواز کا سب سے بڑا منبع کشمیر ہی ہے۔
موسم سرما کی آمدآمد ہے اور سردیوں کے خاتمے تک کشمیر کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ، اگلے برس اپریل2020ء میں ہمارے پاس کوئی ممکنہ آپشن باقی نہیں رہے گا اس آزادی کی تحریک کوپھر سے 1984ء کی طرح دبا دیا گیا تھا۔ وادی کی سیاسی قیادت کو سرینگر سے باہر مختلف جیلوں میں بھیجا جا رہا ہے،یہ خطرناک صورتحال ہے،دوسری جانب امریکہ اس دھاک میں ہے کہ کب اس کی افغانستان سے چھٹی ہو اور وہ اپنا ٹھکانہ ومسکن کشمیر کو بنا لے یہ بھی ممکن ہے کہ اقوام متحدہ کے نام پر محدود جنگ کروادی جائے ۔ پٹھان کوٹ کی جانب ہندوستان ، کوہالہ کے اس طرف پاکستان اور درمیان میں غیر جانبدار حد بندی کردی جائے گی جسے اقوام متحدہ کی پروٹیکشن حاصل ہو گی۔ وطن عزیز میں سیاسی حالات بند گلی کی طرف جارہے ہیں اور اوپر سے مولانا فضل الرحمٰن کی مارچ کی کال نے حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچادی ہے اور اس احتجاج کو روکنے کے لئے وزیر اعظم کی پوری ٹیم مسلسل متحرک ہے انہیں ہراساں کیا جارہا ہے دراصل حکومت ایسے اعلانات و اقدامات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کمزور ہے اور عوام میں اپنا اعتماد کھو چکی ہے لیکن یہاں اس بات بات کو بھی نظرانداز نہیں جا سکتا کہ ملک جلسے، جلوسوں اور دھرنوں کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ مودی نے مقبوضہ کشمیرمیں یلغار کی ہوئی ہے اور آزاد کشمیر پر حملے کرنے کے لئے پر تول رہا ہے ۔
مولانا فضل الرحمن ایک بہت بڑی دینی وسیاسی شخصیت ہیں جن کے بارے میں ماضی میں پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت اور رہنمائوں نے اخلاقی دائرہ کار کے اندر رہ کر گفتگو نہیں کی یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی کی قیادت اور کارکنان کو دکھ ہے۔مولانا پاکستانی ہیں او ر آج نہیں تو کل وہ شاید دھرنا منسوخ کر دیں۔سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی لہٰذامذاکرات کے راستے ہمیشہ کھلے رکھنے چاہئیں۔پاکستان کی معیشت دگر گوں ہے اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے بھی ہمیں گرے لسٹ سے نہیں نکالااس لئے وقت کا تقاضا ہے کو قومی حکومت تشکیل دی جائے تا کہ ملک کاپہیہ آگے چل سکے۔
”aggression comes from weakness اور concession comes from confidence ” یعنی کمزور ہی ہمیشہ غصے کا اظہار کرتا ہے جبکہ پر اعتماد اور مضبوط ہی ہمیشہ رعایت دیتا ہے، موجودہ نظام میںمولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی اور جماعت اسلامی دو ہی جماعتیں ہیں جو عوام کی ایک بڑی اکثریت کو باہر نکال سکتی ہیںچونکہ پاکستان میں اکثریتی طبقے کا تعلق دیو بندی سکول آف ٹھاٹ سے ہے، جلوس، بڑے جلسے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک بڑی سٹریٹ پاور موجود ہے اگر وہ10 سے 15 ہزار لوگ بھی اسلام آباد لانے اور دھرنا کرنے میں کامیاب ہوگئے اور حکومت نے انہیں ر وکنے کی کوشش کی تو شدید نقصان کا خدشہ موجود ہے۔مولانا فضل الرحمن کے مارچ کو روکنے کے لئے حکومت کی جانب سے مسلسل دبائو ڈالا جا رہا ہے اور ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں جن کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ اگر نواز شریف معاملات طے کر لیتے تو اس کی نوبت ہی نہیں آتی مذکورہ بیان سے کیا اندازہ لگایا جائے؟ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر وہ کونسا معاملہ ہے جو وہ ان سے کرنا چاہتے ہیں اور کون یہ کر رہا ہے؟ اس کی بھی وزیر داخلہ وضاحت فرما دے تو زیادہ بہتر ہوگا دوسری جانب قومی سلامتی اور داخلی امور کے حوالے سے حکومتی کمزوریاں صاف واضح ہیں۔ کرکٹ کو ہی لے لیجئے اگر وہ بھی کراچی میں کروانا ہے تو اس کے لئے بھی فوج و رینجرز کی خدمات لی جاتی ہیں۔
ملک میں زلزلے سیلاب کوئی بھی قدرتی آفت کا شکار ہو تب بھی فوج کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ معاشی عدم استحکام ہو یا معیشت کو درپیش مشکلات کے ازالے کے لئے آرمی چیف کو آگے آنا پڑتا ہے تو پھر حکومت کہاں ہے؟ وجہ صاف ہے کہ سیاسی نظام بوسیدہ ہو چکاہے کچھ دن قبل صدارتی نظام کی بھی باتیں کی جاتی رہیںوہ بحث ابھی تھمی نہیں بلکہ اس کی چنگاڑی موجود ہے متعدد حلقے مخلوط حکومت کے بننے پر متفق ہو چکے ہیں اگر مولانا فضل الرحمن اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور حکومت وقت کے سامنے سینہ سپر رہیں تو پھر مخلوط حکومت کو بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، مسئلہ یہ ہے کہ یہ نظام کہاں کھڑا ہے؟ اگر سارا کچھ حکومت کے ہاتھ میں نہیں اگر آرمی چیف معیشت کی بہتری کے لئے تگ و دو میں مصروف ہیں دنیا میں جا رہے ہیں۔ حکومت دقیانوسی نظام کی دیوار کے ساتھ کھڑی ہے، آنے والے وقتوں میں جتنے بھی لوگ اس دیوار کا سہارا لے کر کھڑے ہیں وہ بھی گر جائیں گے اورسسٹم کی تبدیلی کی خواہش و ضرورت بھی بڑھ جائے گی، وقت کا تقاضا تو یہی ہے کہ طاقت کے ستون، سٹیک ہولڈرز سمیت دینی و سیاسی جماعتیں ان سب کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ موجودہ نظام سے بہتری کی کوئی راہ نہیں نکل رہی تو اس کا اب کیا حل نکالا جانا چاہئے یہ خالصتاً سیاسی مسئلہ ہے ، سیاست ملک بناتی بھی ہے اور سیاست ہی ملک توڑتی ہے، لہٰذاضروری ہے کہ تمام سیاستدان سمیت ملکی و قومی ادارے ایک فیصلہ کر لیں کہ ملکی ترقی کے لئے نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے یہ ہر پاکستانی کی آواز ہے۔
ملکی ترقی کا پیسہ منجمد ہو چکا ہے، ہماری قومی معیشت گر کر 2.2 فیصد پر آ چکی ہے۔ حکومتی ادارے ٹھیک طرح کام کرنے سے قاصر ہیں نتیجتاً عوام الناس شدید تکالیف سے دو چار ہیں۔ محکمہ تعلیم، صحت، نظام پولیس، عدلیہ ہر ادارہ شدید بحران کی لپیٹ میں ہے۔ طاقت کے ایوانوں سے میں امید کرتا ہوں کہ اس کے لئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے کیونکہ پاکستان کا نوجوان طبقہ اس وقت اکتا ہٹ کا شکار نظر آتا ہے، حالات اس کی برداشت سے باہر آ چکے ہیں وہ ملکی ترقی کے شدید خواہش مند ہیں، دوسری جانب کشمیر کی پالیسی بھی واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے جنرل اسمبلی میں اچھی تقریر کرتے ہوئے عالمی سوئے ہوئے ضمیر کو جگانے کی عمدہ کاوش کی ہے۔ کیا صرف پرجوش تقریروں سے معاملہ حل ہو جائے گا؟ ہرگز نہیں یہ وہ دنیاہے جس نے کشمیریوں کی ہلاکتوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ خواتین کی عصمت دری و بے حرمتی سے ان کے مردہ ضمیروں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ کشمیر میں مسلم تشخص کو ختم کرنے کی سازش تیار کی گئی ہے،آبادیاتی تناسب بگاڑا جا رہا ہے،غیر کشمیریوں کو بسانے کے ساتھ ساتھ انہیں نوکریاں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ کشمیر ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اس کے باوجود وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ جو لائن آف کنٹرول پار کرنے کی کوشش کریں گے، کشمیریوں کی مدد کریں گے، جہاد کی بات کریں گے وہ دراصل بھارت کے مئوقف کو مزید مضبوط کر دیں گے۔ کیا وزیراعظم اس بات کی گارنٹی دیتے ہیں کہ ہمارے مصالحانہ اقدامات سے ہندوستان ہم پر الزام تراشی بند کر دے گا یا پھر وہ 370 آرٹیکل کا فیصلہ واپس لے لے گا اورکیا مغرب ہم پر الزام تراشی بند کر دے گا؟۔